مشہور رقاصہ شیما کرمانی سے گفتگو


”شیما آپ کی تحریک نسواں کا کیا محرک تھا؟ ‘‘ انہوں نے بتایا۔ ” تحریک نسواں 1979 میں ہم خیال خواتین نے بنائی تھی۔ جن میں پروین کاظمی، ثروت سلطانہ، نیر جمیل، مہناز رحمن اور کشور باقی شامل تھے۔ اس کے ذریعے ہم آگہی اور شعور بڑھانا چاہتے تھے اور ہمارا فوکس عورتوں کے خلاف تشدد، سماج میں تفریقی رویہ اور عورتوں کو ان کے حقوق سے آگہی کروانا تھا، اس سلسلے میں 1980 میں ہم نے پہلی کانفرنس منعقد کی جس میں ہر طبقہ فکر کی خواتین بالخصوص مزدور پیشہ عورتوں نے شرکت کی۔ ہمارا خیال ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں ہوتا جب تک اس میں عورتوں کو برابر کے حقوق نہیں ملتے۔ ہماری جدوجہد کا یہی مقصد تھا۔ عورتوں کے حقوق کی جنگ صرف قانونی اور سیاسی سطح پہ ہی نہیں ہوتی اور کوئی تبدیلی اس وقت تک پرمعنی اور دیرپا نہیں ہوتی جب تک وہ جذباتی سطح پر نہ ہو۔ اور سب سے زیادہ بہتر انداز میں پرفارمنگ آرٹ کے ذریعہ سے لائی جاتی ہے۔ لہذا ہم نے اپنی تحریک کے ذریعہ پہلی بار ملک کی تاریخ میں نسائی اور سیاسی موضوعات پہ انسانی حقوق بطورِ خاص عورتوں کے حقوق کی حق تلفی پہ ڈرامے اسٹیج کیئے۔ اس طرح میری اداکاری اور رقص سے محبت ایک تحریک اختیار کر گئی۔ ‘‘۔

” وہ کس طرح؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔ ” پرفارمر اور تماش بین کے درمیان جو ایک رشتہ جڑتا ہے۔ وہ تبدیلی کا طاقتور تجربہ ہے جو حقوقِ انسانی کی بالادستی اور امن و آشتی کی فضا پیدا کرتا ہے۔ ‘‘ اس سلسلے میں ہونے والی اپنی پہلی سولو پرفارمنس کے متعلق انہوں نے بتایا (جو 1983 میں ہوئی) کہ پابندیوں کے باعث گھر میں کی گئی اس پرفارمنس میں شرکت کے لئے دو سو سے زائد لوگ آئے اور اور اس طرح باقاعدہ طور پر تحریکِ نسواں کے ثقافتی ایکشن گروپ کی بنیاد پڑی۔ اس میں ہونے والے ڈراموں کو موبائل تھیٹر کا نام بھی دیا گیا کیونکہ بقول شیما ” ہم بالخصوص کم آمدنی والے کراچی کے علاقوں میں جاکر مفت ڈرامے پیش کرتے ہیں۔

تیس سے پچاس منٹ کی پرفارمنس کے بعد ڈرامہ کے موضوع پر تماش بین اور اداکاروں کے درمیان تبادلۂ خیال ہوتا ہے۔ مثلا لڑکیوں کی تعلیم، عورتوں پہ تشدد، کم سنی کی شادی جیسے موضوعات پہ گفتگو ہوتی ہے۔ اس طرح تحریکِ نسواں سماج کے چہرے سے اس نقلی چہرے کو پھینکنے میں معاون ہے جس میں ڈانس اور تھیٹر کو برائی کے زمرے میں تصور کیا جاتا ہے۔ گو خواتین، خاص کر اندرون سندھ کی عورت اس کو بہت توجہ سے سنتی ہے۔ مگر تھیٹر بہت محدود لوگوں تک ہی پہنچ پاتا ہے۔

اس سلسلے میں حکومت کی سرد مہری کی وجہ شیما کی نظر میں یہ ہے کہ پرفارمنگ آرٹ میں پرفارمر اور عوام کا رابطہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ تبدیلی کا تجربہ ہے کہ جس کی طاقت حاکم بالا کو خوفزدہ کر دیتی ہے۔ ‘‘

شیما نے تحریک نسواں کے ذریعہ اپنے پیغام کی ترویج کے لئے ٹی وی اور وڈیو پرڈکشن کے علاوہ دستاویزی فلم اور موسیقی کا استعمال کیا ہے جس میں ان کی اعلی معیار کی ٹیم کے علاوہ پلے رائٹ انور جعفری، خالد احمد اور دوسرے نامور لکھنے والوں کا نام شامل ہے۔

شیما نے بتایا کہ انہیں تھیٹر اور رقص کی ادائیگی میں ریاستی اور سماجی دونوں ہی سطح پر مخالفتوں کا سامنا ہے۔ ”سماج کی سوچ قدامت پسند اور تعصبانہ ہو چکی ہے بالخصوص پرفارمنگ آرٹ کے حوالے سے۔ حکومت نے سرپرستی کے بجائے اظہار پر پابندی کی پالیسیاں وضح کی ہیں۔ ایک طرف کلاسیکل رقص اور معیاری تھیٹر پہ سختیاں ہیں تو دوسری جانب گھٹیا مزاح، چیختے لچر مذاق اور مجرے کی طرح فلمی گانے والے اسٹیج شوز تو خوب چل رہے ہیں۔ پاکستان میں مڈل کلاس قدامت پسند، غیر ترقی یافتہ اور انتہا سے زیادہ کلچر کے خلاف ہے۔ ان کے یہاں گانے والا یا موسیقار ” مراثی‘‘، اداکار” بھانڈ‘‘ اور رقاصہ اگر طوائف نہیں تو بہت کم درجہ کی عورت کہلائی جاتی ہے۔ ان کے لہجہ میں تلخی تھی۔

رقص کی استاد کی حیثیت سے انہوں نے کہا ’ رقص ایک فطری عمل ہے اور ہماری روایات کا حصہ بھی۔ رقص ہماری شخصیت کو بولڈ بناتا ہے۔ اس سے مائنڈ اور باڈی میں ہم آہنگی اور عزتِ نفس اور وقار بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس میں تھرپی اور کتھارسس بھی ہے۔ ‘‘

آپ کو آج کے پاکستان میں پرفارم کرنے سے ڈر نہیں لگتا؟ ہم نے سوال کیا۔ ” مجھے مستقل دھمکیاں (مذہبی اور قدامت پسند) ملتی رہتی ہیں۔ گھر پہ بھی اور فون پہ بھی۔ مگر ڈر کے کام روکنا نہیں چاہتی۔ ‘ شیما نے گفتگو کے آخر میں کچھ ذاتی نوعیت کے سوالات کے جواب بھی دیے۔ مثلا انہوں نے بتایا کہ انہیں اپنی ذات پہ سب سے زیادہ فخر اس وقت ہوا کہ جب انتقال سے قبل ان کے والد نے کہا کہ ”جو کچھ تم نے سماج کو دیا ہے مجھے تم پہ فخر ہے۔ ‘‘ یہ وہی والد تھے جو ایک وقت میں مجھے ڈس اون کر چکے تھے۔

وہ اپنے جسم کو متناسب رکھنے کے لئے یوگا کرتی ہیں۔ اور تیس پینتیس سالوں سے سبزیاں کھا رہی ہیں۔ ان کا بہترین مشغلہ کتابیں پڑھنا ہے۔ بہترین ادب پاروں کے انتخاب کی وجہ سے انہیں کوریو گرافی میں مدد ملتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ شیما نے امیر خسرو، بلھے شاہ، ٹیگور، اقبال، فیض، بہادر شاہ ظفر کے علاوہ عصر حاضر کی انقلابی شاعرہ فہمیدہ ریاض کی شاعری کو رقص کی زبان دی۔ شیما کو ملکی اور غیر ملکی سطح پہ بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا جس کی تفصیل طویل ہے۔ تاہم سب سے اہم نامزدگی 2005 ؁کی ہے جب شیما کو امن و آشتی کے پیغام اور کام کے لیے اعزازی نوبل پیس کا نمائندہ منتخب کیا گیا۔ یقینا شیما انسانیت کا تحفہ اور وقار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2