مشہور رقاصہ شیما کرمانی سے گفتگو


کراچی جہاں عرصے سے بدامنی نے اپنا ڈیرہ ڈالا ہوا ہے وہیں پہ امن کی پیامبر ایک ایسی فنکارہ بھی رہائش پذیر ہے جو پچھلی چار دھائیوں سے بڑی جراتمندی اور استقامت کے ساتھ انصاف، انسانی حقوق اور سچائی کے محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے۔ اس کے ہتھیار ڈرامہ، رقص، شاعری، تھیٹر اور موسیقی ہیں۔ جو دل کے تاروں کو چھوتے، دل و دماغ روشن کرتے ہیں۔ اور جو سماجی تبدیلی کے غماز اور امن و آشتی سے مہکتی صبح کی نوید ہیں۔ یہ فنکارہ جب وقار کے ساتھ اسٹیج پہ آتی ہے تو طبلے کی تھاپ اور ساز و آواز سے ہم آہنگ اس کے متناسب وجود کا توازن سحر طاری کر دیتا ہے۔ وہ بے خوفی سے عظیم اور جراتمند شعرا کا کلام اپنے اعضا کی جادوئی تھرک سے ادا کرتی ہے اور ڈھیروں داد سمیٹتی ہے۔ بین الاقوامی شہرت کی حامل اس اس عظیم فنکارہ، کوریو گرافر، ٹیچر اور سوشل ایکٹیوسٹ کو دنیا شیما کرمانی کے نام سے جانتی ہے۔ جن سے کچھ عرصہ قبل میں نے ان کی رہائش گاہ پہ تفصیلی گفتگو کی۔

شیما نے برسوں اپنے فن کی مالا میں تفریح کے ساتھ ساتھ سیاست اور مقصدیت کے موتی پرو کے وہ کام کیا جو پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی نے نہیں انجام دیا۔ وہ کچی بستیوں اور غریب علاقوں مثلاً کورنگی، اورنگی اور لیاری جیسے علاقوں میں بامقصد تفریحی تھیٹر بلا معاوضہ پیش کرتی ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ اس کے بعد علاقے کے ان افراد سے اہم موضوعات مثلا کاروکاری، زبردستی کی شادی اور عورتوں کی تعلیم پہ گروپ کی صورت تبادلہِ خیال بھی کرتی ہیں۔ ان کا یہ عمل یقینا سماجی ترقی کے ارتقا میں اہمیت کا حامل ہے۔

کراچی کے علاقہ کلفٹن میں واقع جب میں ان کی مختصر سی بیٹھک میں داخل ہوئی تو سادہ حلیہ، میک اپ سے یکسر عاری، خوش شکل شیما کرمانی نے میرا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ میں نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ ان کے چہرے کا حسن ان کی خوبصورت آنکھوں کی سچائی میں سمٹ آیا ہے۔

ہم نے سوالات کا آغاز خاندانی پسِ منظر کی بابت کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ” ہمارے والد کا تعلق لکھنو سے تھا۔ ان کے آباؤ اجداد کرمان (ایران) سے آئے تھے۔ گویا ہمارے خاندان کا ناتہ لکھنو کے بزرگ وارث علی شاہ سے جڑتا ہے۔ گو بعد میں ہمارے خاندان کا ایک حصہ حیدرآباد (دکن) منتقل ہو گیا۔ میرے والد برٹش انڈین آرمی میں تھے۔ جنہوں نے پاکستان کی فوج کا انتخاب کیا۔ والدہ مہر کرمانی کا تعلق حیدر آباد دکن کے روشن خیال گھرانے سے تھا۔ ہم تین بہن بھائی ہیں۔ بہن تین سال چھوٹی اور بھائی فارس کرمانی، ایک سال بڑے ہیں۔ جو برطانیہ میں فلم میکر ہیں۔ ‘‘

اپنے بچپن کے متعلق شیما نے بتایا” بہت خوبصورت تھا۔ والد کے فوج میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں رہنے، دیہات، کھلیان، گائے اور بھینس دیکھنے کا موقعہ ملا۔ گاؤں کی غربت کا شہروں سے موازنہ کرنے کا موقعہ ہمارے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔ میری پیدائش راولپنڈی کی ہے۔ البتہ 1964 سے ہم مستقل کراچی میں ہی رہے۔ گھر کا ماحول آزاد خیال اور تخلیقی تھا۔ ابا کو مغربی موسیقی اور اماں کو کتابوں سے شغف تھا۔ گھر کے ماحول میں سختی کی بجائے روشن خیالی تھی۔ جس نے نہ صرف آگہی بلکہ یہ سوچ بھی پیدا کی ” تم جو چاہتے ہو وہ کر سکتے ہو اور یہ کہ لڑکیاں لڑکوں سے کم نہیں۔ ‘‘ انہوں نے اپنے بچپن کی سہانی یادوں میں گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور سے حیدرآباد اپنے نانا کے گھر جانا یاد ہے۔ جن کے گھر کے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ، بچھے صاف ستھرے تخت، آنگن میں پھیلی پھولوں کی خوشبو، گجرے اور ستار کی گونجتی آواز اور والدہ کی رقص کی تربیت شامل ہے۔

شیما نے خود اپنی رقص کی تربیت کے متعلق بتایا ” ڈانس اور موسیقی ہمارے گھرانے میں تعلیم و تربیت کا حصہ سمجھی جاتی تھی۔ میں بچپن میں موٹی، جسمانی ورزش سے دور اور کھیل کود سے جی چراتی تھی۔ والدین کا خیال تھا کہ مجھے رقص سیکھنا چاہیے جس سے وقار آتا ہے۔ اس طرح گیارہ بارہ سال کی عمر سے ہی ڈانس کی کلاس میں ڈال دیا گیا۔ جو ردھمیک آرٹ اکیڈمی تھا۔ جسے مسٹر اور مسز گھنشام چلاتے تھے۔ اس وقت میری عمر تیرہ چودہ سال کی تھی۔ گھنشام صاحب کا تعلق کلکتہ سے تھا۔ اس ادارہ میں ڈانس، موسیقی، یوگا اور گانا سکھایا جاتا تھا۔ ‘‘

شیما نے بتایا کہ ان کی تعلیم کانونٹ آف جیزیز اینڈ میری اور پھر کراچی گرامر اسکول کی تھی۔ بعد ازاں 1969 میں لندن کے ادارے (Croydon College of Art) سے فائن آرٹ کی ڈگری لی۔ اور واپس آ کر پی ایس ایچ اسکول میں ” ہسٹری آف ماڈرن آرٹ ‘‘ پڑھانا شروع کیا۔ پھر 1976 میں سولو آرٹ ایگزیبیشن (Decade of Women) کے عنوان سے ہوئی۔

” تو گویا تعلیم آپ نے آرٹ میں حاصل کی اور کام پرفارمنگ آرٹ میں کیا؟ ‘‘ ہم نے پوچھا۔ ان کا جواب تھا۔ میں نے آرٹ کی تنہائی کے بجائے رقص اور پرفارمنگ کی دنیا کو ترجیح دی۔ کہ جس میں تخلیقی عمل تو تھا لیکن تنہائی کم تھی۔ جس وقت شیما رقص کی دنیا میں آئیں ملک میں ناہید صدیقی اور نگہت چودھری جیسی فنکارائیں نام کما رہی تھیں۔ ہم نے شیما سے ان کے فن میں سماج سے بغاوت کے عنصر کے حوالے سے سوال کیا۔ شیما آپ نے رقص کے عشق میں آرٹ کو تج دیا لیکن آپ کے فن میں سماجی انقلاب کا نعرہ آخر آپ کے کس جذبہ کا عکاس ہے؟ ‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” ہم کراچی میں ٹرام پٹہ روڈ (کینٹ اسٹیشن کا علاقہ) میں رہتے تھے۔ اسی سڑک پر چائنیز ایمبیسی تھی، جس کے پیچھے فرینڈ شپ ہاؤس (سوویت یونین) تھا۔ دونوں ہی ممالک میں انقلاب آیا ہوا تھا۔ جس کے متعلق کتابیں اور پمفلٹ چھپتے تھے۔ فلمیں بھی چلتی تھیں۔ میری سوچ کتابیں پڑھ پڑھ کے باغی ہوتی چلی گئی۔ ذہن میں ایک غیر طبقاتی سماج کا تصور تھا۔ غربت اور استحصال سے عاری سماج جہاں دولت چند مٹھی بھر ہاتھوں می ں نہ ہو۔ اکثریت محرومی کی زندگی نہ بسر کریں۔ عورت اور مرد کے حقوق مساوی ہوں۔ سماج میں امن انصاف اور آشتی ہو۔

”میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر مجھے زندہ رہنا ہے تو ایک غیر طبقاتی سماج کے لئے بغیر کسی گروپ سے جڑے انقلابی کام کروں گی۔ ‘‘ ہمارا اگلا سوال تھا۔ ” شیما کلاسیکی رقص کو پروفیشن بنانا ہمارے پاکستانی سماج کی روایت نہیں رہا ہے۔ یقینا آپ کو مخالفتیں تو بہت دیکھنی پڑی ہوں گی ؟ ‘‘

انہوں نے کہا ” بات یہ ہے کہ میں چودہ برس کی عمر سے ہی غیر روایتی تھی اور فرسودہ و دوہری مروج قدروں کو چیلنج کرتی تھی۔ آج بھی جو سوچتی ہوں اس پر پورا یقین رکھتی ہوں۔ میری اپنی زندگی ایڈونچرز اور چیلنجوں سے بھرپور ہے۔ جب میں نے رقص کے فن کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا تو لکھنو سے دادی نے ابا کو خط لکھا تھا کہ تمہاری بیٹی تو ہماری ناک کٹوا دے گی۔ پھر بعد میں میرے والدین، میری شادی اس (متمول) طبقہ کے لڑکے سے کرنا چاہتے تھے کہ جس سے مجھے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ مجھے چیزیں خوشیاں نہیں دیتی۔ میں تو جب تخلیقی کام کرتی ہوں تو یہ مجھے طاقت دیتا ہے۔ ‘‘

” پھر جب آپ نے شادی سے انکار کیا تو والدین کا کیا ردعمل تھا؟ ‘‘
” انہوں نے کہا، ”تم ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ ‘‘ میں اسی وقت کمرے میں گئی۔ اپنی کتابیں اٹھائیں اور پھر عارضی طور پر اپنی دوست کے گھر رہی۔ اور اسکول میں نوکری کر لی۔ اور بعد میں ایک کمپنی میں بطور سیکرٹری کام بھی کیا۔ اس تمام عرصے میں میں نے گھنشیام اکیڈمی سے ناطہ نہیں توڑا۔ اور رقص و فن کی تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ ‘‘

‘ اچھا شیما آپ کی نظر میں رقص، موسیقی اور تھیٹر آرٹ کی قسمیں ہیں جو انسان کو نرم دل اور بہتر انسان بناتی ہیں۔ یہ سب اندرونی جذبات کے اظہار کیاشکال ہیں۔ جس معاشرہ میں یہ نہیں ہوتا وہاں لوگوں میں سختی اور تشدد پیدا ہوتا ہے۔ آرٹ، دماغ اور روح کو ذہن کی اعلی سطح پہ لے جاتا ہے اور اندر کی سختی اور عامیانہ پن کو ختم کر دیتا ہے۔ دہشت گردی اور تشدد جیسے جارحانہ رویہ کو ختم کرنا اور اندر کی تخلیقی صلاحیتوں کو آزاد کر کے انسان میں قوت پیدا کرتا ہے۔

رقص تو ایک زبان ہے کہ جس کے ذریعہ آپ اپنی بات بیان کر سکتے ہیں۔ اور جو کچھ میں اپنے فن کے ذریعہ پیش کرتی ہوں وہ میری سوچ کا اظہار ہے۔ ” شیما کے لہجے میں یقین تھا۔ شیما نے بتایاکہ گھنشیام اکیڈمی کے علاوہ انہوں نے بھارت میں فنکاروں کی زیر تربیت بھارت ناٹیم اوڈیسی وغیرہ سیکھا۔ 1983 میں وطن واپسی کے وقت حالات بدل گئے تھے کہ جب فوجی آمریت کے دور میں رجعت پسندی اور قدامت پرستی کے ساتھ اقلیتوں کے خلاف نفرتوں نے فروغ پایا۔ جمہوری اداروں پہ پابندی اور اس رویہ کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو گھونٹا جا رہا تھا۔ جب رقص اور آرٹ کی اکیڈمیاں بند ہو رہی تھیں۔ کلاسیکل رقص کو گناہ اور جرم قرار دیا جا رہا تھا۔ ‘‘

پاکستان میں موسیقی اور ڈانس کلچر کے زوال کے حوالے سے شیما نے کہا۔ ” اس کی شروعات بھٹو نے اپنی حکومت بچانے کے لئے کیں، مثلا احمدیوں کے خلاف ایکٹ۔ ان کی حکومت تو نہ بچ سکی لیکن ضیا کے دور میں اقلیتوں اور خواتین کے خلاف بہت سے منازعہ ایکٹ کو قانونی شکل دے دی گئی۔

اس دور میں اہم کلاسیکل ڈانسرز کو ملک بدر ہونا پڑا۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ کوئی ادارہ نہیں جو ڈانس کی تربیت دیتا ہو ماسوا میری اکیڈمی کے۔ یہ سارے فنون زوال پذیر ہیں۔ ‘‘ انہوں نے تاسف سے کہا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2