کیا پاکستان افغانستان کا بھی ذمہ دار ہے؟


کیا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی غیر ارادی طور پر امریکہ کو درست اور پاکستان کو غلط ثابت نہیں کر رہے اور پاکستان کے خلاف سلطانی گواہ نہیں بن رہے؟ امریکہ سے پاکستان روانگی کے وقت صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بغیر افغان مسئلے میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں، پاک امریکہ تعلقات میں بہتری افغانستان کے حالات میں بہتری پر منحصر ہے اور ہمارے لئے واشنگٹن جانے کا راستہ کابل سے ہو کر گزرتا ہے۔

کیا کسی پاکستانی عہدیدار کے منہ سے یہ بات مناسب ہے؟ کیا اس سے اجتناب نہیں کرنا چاہیے؟

امریکی اور افغان حکومتیں دونوں مسلسل کہتی آئی ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی اور طالبان کی مضبوطی کی بنیادی وجہ پاکستان سے دراندازی اورطالبان جنگجووں کی پشت پناہی ہے اور یہ کہ پاکستان اگر چاہے تو امریکی اتحاد طالبان کے خلاف جنگ جیت سکتا یا طالبان مذاکرات کی میز پر آسکتے ہیں اور یوں جنگ رک سکتی ہے۔ لیکن، وہ کہتے ہیں، چونکہ پاکستان اس سلسلے میں تعاون نہیں کر رہا بلکہ الٹا افغانستان میں جنگجووں کی مدد کرتا ہے اس لیے افغانستان میں امریکی اتحاد اور افغان انتظامیہ فتح یاب ہو رہے ہیں، طالبان مذاکرات کی میز پر آرہے ہیں اور نہ جنگ رکنے کے آثارنظر آرہے ہیں۔

اب اگر ہمارا کوئی رہنما یا وزیر مشیر یہ کہے کہ افغان مسئلہ پاکستان کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا نہ ہی پاکستان کے بغیر اس میں کوئی پیش رفت ممکن ہے تو مجھے خدشہ ہے ہم انجانے میں شاید پاکستان کی مشکلات اور ذمہ داریوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔

افغان حکومت ہو یا امریکہ کی زیر قیادت ایساف، ان سے ظاہر ہے اپنی ناکامی کے اعتراف کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ ا عتراف کا مطلب اپنی نا اہلی کا اعتراف ہوگا اور نہ بین الاقوامی سیاست اخلاقیات پر چلتی ہے کہ وہ اپنی ناکامی کا الزام پاکستان پر ڈالنے کے بجائے کھلے دل سے اپنی غلطی اور ناکامی تسلیم کریں اور سچ بولیں۔ اس لیے لامحالہ انہیں اپنی غلطی، ناکامی اور نا اہلی کے اعتراف سے بچنے اور اس کا الزام کسی دوسرے پر ڈالنے کے لیے کوئی دوسری ریاست چاہیے۔ چنانچہ پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہی رہے گا۔

لیکن اگر وہ پاکستان کو ہی افغانستان میں ساری خرابی اوراپنی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیں اور پاکستان کو ہی قربانی کا بکرا بنائیں تو یہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ہم کیوں پاکستان کی اہمیت بڑھاچڑھا کر دکھانےکے لیے ایسی باتیں کریں جو ان کی تصدیق کے مترادف ہوں؟

پاکستان نے اب تک اس جنگ میں اپنے حصے سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، اس کے ہزاروں فوجی اور عام لوگ دہشت گردی میں شہید ہو چکے ہیں، اس کی معیشت کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے، اس نے مختلف کارروائی وں کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور پاک افغان سرحد کے قریب ہزاروں کلومیٹر کا علاقہ سرکاری عملداری میں لایا ہے، ہزاروں کلومیٹر کے پاک افغان سرحد کو خاردار تار لگا کر مکمل سیل کیا اور کر رہا ہے۔ مگر پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرنے والے خود اتنی طاقت اور وسائل کے باوجود افغانستان کے اکثر حصے پر ابھی تک اپنی عملداری قائم نہیں کر سکے۔

تاہم پاکستان کی ان قربانیوں کی تحسین اور اپنی نا اہلی کا اعتراف کرنے کے بجائے وہ چاہتے ہیں کہ اپنی کمزوریوں، نا اہلیوں اور ناکامیوں کا ملبہ اور الزام بھی پاکستان کو دیں۔ اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت اپنی طرف پاکستان جیسی ہزاروں سرحدی نگرانی چوکیاں تعمیر کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے اور پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی واپسی، پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب اور مثلاً تورخم کے مقام پر سرحد پر بڑے گیٹ کی تعمیر اور ویزے کی شرط جیسے امور کی مخالفت بھی کرتی آئی ہے۔

کیونکہ اگر افغان پناہ گزین سارے پاکستان سے نکل جائیں، سرحد پر باڑ لگائی جائے اورپاک افغان سرحد پر آمد و رفت باقاعدہ بنائی جائے تو پھر پاکستان پر درندازی اور یوں اپنی ناکامی کا الزام اس کے سر تھوپنے کا موقع اس کے پاس نہیں رہے گا۔

یہ حقیقت وہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان نے سرحدی آمد و رفت کو باقاعدہ بنانے، درندازی روکنے اور پاک افغان سرحدی علاقے سمیت پورے پاکستانی سرزمین پرجنگجووں کا صفایا کرنے کے لیے بہت کام کیا ہے جس سے افغان طالبان ناراض ہیں اور وہ اب پاکستان کے کنٹرول سے بڑی حد تک باہر ہوگئے ہیں لیکن اگر وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کو خود اپنی ناکامی کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا جو وہ نہیں چاہتے۔

وہ پاکستان پر جو الزامات لگاتے ہیں یہ اپنی نا اہلی سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش اور خلط مبحث ہے مگر پاکستانی زعماء کیوں پاکستان کو خواہ مخوا افغان مسئلے میں ایک اہم کردار دینے کے لیے دلائل دے رہے ہیں؟

ہونا یہ چاہیے کہ انہیں بتادیا جائے کہ پاکستان اپنے علاقے میں جتنا ممکن ہے دہشت گردی کے خلاف مورچہ زن ہے اور رہے گا، اپنے رقبے سے افغانستان میں مداخلت اور دراندازی کی اجازت با الکل نہیں دے گا لیکن اگر پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ہے اور اس کے ساتھ تقریباً 2500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد رکھتا ہے تو اس میں اِس کا کوئی قصور نہیں اور نہ یہ اس بنیاد پر افغانستان کےاندرونی حالات کو بہتر کرنے کا ذمہ دار ہے۔

انہیں بتایا جانا چاہیے افغان پناہ گزینوں کو واپس لے لیں، افغانستان کی طرف سرحدی نگرانی کو یقینی بنانے کے لیے چوکیوں کی تعداد بڑھا دیں تاکہ اگر ہزاروں کلومیٹر اور دشوارگزار پہاڑی راستوں پر مشتمل پاک افغان سرحد پر پاکستان کی بھرپور کوششوں کے باوجود بھی کچھ دہشت گرد دراندازی میں کامیاب ہوں تو آپ ان کو فوراً گرفتارکرسکیں۔ اور اپنے انٹیلی جنس نظام کو بھی مضبوط کریں تاکہ اگر وہ سرحد پر گرفتاری سے بچ نکلیں تو آپ ملک کے اندر ان کے لیے نقل وحمل ناممکن ہو۔

اور یہ بات کہ ’پاک امریکہ تعلقات میں بہتری افغانستان کے حالات میں بہتری پر منحصر ہے اور ہمارے لئے واشنگٹن جانے کا راستہ کابل سے ہو کر گزرتا ہے‘ بھی محل نظر ہے۔
کیا وزیر خارجہ کا مطلب ہے کہ اگر افغانستان میں حالات اچھے یا خراب ہوں تو اس کے نتیجہ میں پاک امریکہ تعلقات بھی اچھے یا خراب رہیں گے؟

امریکہ اور افغان ایسی کوئی بات کریں تو ان کے معلوم موقف ’کہ پاکستان ہی کی وجہ سے حالات خراب ہیں‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قابل سمجھ ہے مگر پاکستان کے رہنما یہ بات کریں تو یہ حیران کن بات ہے۔

وہ تو اس بات کو بہانہ بناکر پاکستان کو دباٶ میں لانے کے لیے مذاکرات معطل یا تعلقات کشیدہ رکھتے ہیں لیکن ہم امریکہ سے اپنے تعلقات کو افغانستان کے اندرونی حالات کے رحم وکرم پر کیوں چھوڑیں درآں حال یہ کہ افغانستان ایک الگ ملک ہے، اس کی اپنی ایک حکومت ہے اور وہاں بین الاقوامی فوج تعینات ہے جو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں زیادہ بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں جبکہ ہم اس سلسلے میں اب تک اپنی استطاعت سے بھی زیادہ کام کرچکے ہیں، اب اپنے علاقے میں انتہا پسندوں سے برسر جنگ ہیں اور افغانستان میں ہمارا اثر و رسوخ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).