دوسرا جنم: 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کی بطور کم سن طالب علم ذاتی تجربے پر لکھی گئی تحریر


ان وقتوں کے پرائمری سکولوں میں پہلی کلاس عموما اسلامیات یا عربی کی رکھی جاتی تھی۔ اعتقاد یہ تھا مقدس کلام سے کالی پرچھائیاں زائل ہوں اور دن کا شُبھ آغاز ہو۔ قاری اقبال صاحب ہمیں اسلامیات پڑھاتے تھے۔ اس روز قاری صاحب بوجہ غیر حاضر تھے۔ فری پیریڈ میں ہماری چاندی ہو جایا کرتی تھی۔ خالی کلاس میں ہم کاغذی گولہ سا بناتے اس پر چپکتا فیتہ ( اسکاچ ٹیپ) لپیٹتے اور موٹی جلد چڑھی کتاب سے کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ اس دن بھی ہم دروازہ اندر سے بند کیے کتاب اور کاغذی گولے سے کرکٹ کھیل رہے تھے۔

ابھی جاڑے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا مگر ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ پہاڑی علاقوں میں سردیوں کا آغاز جلد ہو جاتا ہے۔ سورج کی تپش گھٹتے ہی ہرے پتے مرجھانا شروع ہوجاتے ہیں اور ان کی پیلاہٹ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہوا چلنے پر کملائے ہوئے بسنتی پتے ڈالیوں سے ٹوٹ جاتے ہیں اور کٹی پتنگ کی طرح فضا میں لہراتے بل کھاتے زمین پر گرتے رہتے ہیں۔

یہ روزانہ کی طرح ہی ایک عام سا دن تھا۔ وہی معمول کے معاملات، منہ بسورتے بچوں کا سکول جانا، ماؤں کا کواڑوں میں کھڑے ہو کر بلائیں لینا اور رعب و وقار کے لبادے اوڑھے مردوں کا اس سارے عمل سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے روٹی کمانے کو نکل پڑنا۔

کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے کلاس روم میں دھول کے بادل سے اُڑ رہے تھے گرد کے باوجود ہم بڑے شوق سے ہوا میں اچھالی گئی کاغذی گیند پکڑنے اور جلدی باری لینے میں کی کوشش میں مگن تھے کہ اچانک ایک ہولناک آواز آئی۔ یوں لگا جیسے دھرتی اپنا سینہ پھاڑ کر دھاڑی ہو۔ جیسے دیومالائی روایتوں کے مطابق زمین کو اپنے سینگوں پر اٹھانے والا سانڈ چنگھاڑا ہو۔ ہمارے دل دہل گئے۔ یہ عام آواز نہیں تھی۔ بچوں کی دھڑکنیں ان کے سینوں پر ہتھوڑے برسانے لگیں۔

دو چار لمحے ایسے ہی گزرے ہوں گے۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھ کر اوسان بحال کیے اور اس ناقابل فراموش آواز کو فراموش کرتے ہوئے دوبارہ کرکٹ کھیلنا شروع کیا۔ ابھی گیند ہوا میں اچھالا ہی تھا کی زمین نے زبردست انگڑائی لی۔ درودیوار بجنے لگے۔ چھت پر ٹنگا پنکھا جھولے کی مانند ہوا میں تیرنے لگا۔ سب کچھ اتھل پتھل ہر رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کلاس روم کے نیچے چھپا ہوا کوئی اژدھا تیزی سے کروٹیں بدل رہا ہے۔

یہاں پر ہماری بصارت اور شعور دونوں کا پردہ گِر گیا۔ دُھند چَھٹی تو خود کو اسکول کے سامنے واقع خالی کھیت میں پایا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ چِٹخنی کیسے کُھلی، سامنے کی باڑ کیسے پار ہوئی، سکول کی عمارت کے سامنے بکھرے نوکیلے پتھروں سے کیسے گزر ہوا اور کھیت میں کیسے پہنچے۔

کھلے میدان میں وحشت ناک سماں تھا۔ سہمے ہوئے لڑکیاں لڑکے ننگی زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اساتذہ اور ارد گرد کے لوگ باآواز بلند کلمہ طیبہ اور قرانی آیات کا ورد جاری کیے ہوئے تھے۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی بچوں نے بھی رونے کے انداز میں لا الہ پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ ہمارے جسموں پر کپکپی طاری تھی۔ زمین ابھی تک مسلسل کپکپاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ حواس باختگی کا عجیب عالم تھا۔ اسکول کا واحد خاکروب نہ جانے کہاں سے پانی کا گھڑا اٹھا لایا تھا۔ بچوں کو پانی پِلا پِلا کر چپ کروایا جا رہا تھا کہ زمین نے ایک بار پھر زبردست بل کھانے شروع کر دیے۔

اب ہمارے سامنے ایستادہ مکان، مکانوں کی بیچ اُگے درخت اور درختوں کے بیچھے کھڑی پہاڑیاں سب ایسے خوفناک طریقے سے لہرا رہے تھے جیسے سمندر کی موجوں میں کوئی کشتی توازن کھو جائے تو لہریں اسے اچھال اچھال پھینکتی ہیں۔ درخت اپنی جگہ قائم رہے مگر گھر لڑکھڑا کر گر رہے تھے، اوپری جانب کی پہاڑیاں یوں پھوٹ رہی تھیں گویا ان کے اندر کے بارود کو کسی نے اَگنی دے دی ہو۔ دیو ہیکل کالے پتھر لڑھکتے ہوئے ہماری جانب آ رہے تھے۔ ایسے میں سب بچوں کا خوف ختم ہو گیا۔ روتے بچوں کی اچانک خاموش سے سناٹا چھا گیا۔

ڈر خوف بنیادی طور پر شعور کی احتیاطی تدابیر ہوتی ہیں اور ان کا ضبط تب تک قائم رہتا ہے جب تک فہم کی حالات پر گرفت رہے۔ اس کے بعد شعور و لاشعور دونوں کہیں معلق ہو جاتے ہیں۔
اسکول کا مونٹیسوری اور پرائمری حصہ ایک دو منزلہ عمارت کی بالائی منزل میں واقع تھا۔ عمارت کے زمینی حصے میں پنجاب سے بسلسلہ روزگار آیا ہوا ایک کنبہ رہائش پذیر تھا۔ یہ لوگ اپنی سانولی رنگت، مخصوص لہجے اور بچوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے مقامی لوگوں سے الگ تھلگ لگتے تھے۔

زلزلے کے خوفناک جھٹکے کی وجہ سے یہ دو منزلہ عمارت ایسے گری کہ اس کی نچلی منزل زمین میں دھنس گئی اور اوپری منزل کا فرش زمینی سطح کے برابر آگیا جبکہ باقی حصہ سالم کھڑا رہا۔ اسکول کے بچے یہاں سے با اسانی چلتے ہوئے کھلے میدان میں آگئے۔

ایسے میں عمارت کی مشرقی جانب سے آہ و بکا کی آوازیں آنے لگیں، گریہ و زاری اس قدر شدید تھی کہ دو چار بڑے لڑکے اس کی جانب بھاگے، ہوا کچھ یوں تھا کہ پنجابی گھرانے کی خاتون خانہ کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر آئی ہوئی تھیں، اتنے میں زلزلہ ہو گیا، تھرتھراہٹ تھمی تو اس کی توجہ اندر سوئی ہوئی اپنے ڈیڑھ دو ماہ کی بچی کی جانب گئی، جو کہ پوری عمارت سمیت زمین میں دفن ہو گئی تھی۔ اس عورت کی ایک خاص کیفیت تھی، گریباں چاک کرنا، سر میں خاک ڈالنا، جگر پیٹنا، خون اترنا اور اشکوں سے گریبان تر ہونا ایسی اصطلاحات میں ہم نے بعد میں پڑھیں مگر ان کا مشاہدہ اس دن اس بچی کی ماں کو دیکھ کر ہوا۔

اس عورت کی نشان دہی پر کہ وہ فلاں جگہ پر بچی کو سُلا کر آئی تھی، لڑکوں نے آگے بڑھ کر وہاں سے اندر جھانکا، اس معصوم کی زندگی باقی تھی۔ دیواریں اور چھت مکمل طور پر زمین میں اتر گئے تھے مگر اس خاص مقام پر دو مخالف دروازوں کی چوکھٹیں ملنے سے ٹنل سی بن گئی تھی جس میں بچی لیٹی پڑی تھی۔ بچی کے سینے پر کہیں ٹوٹی ہوئی اینٹ آن گری تھی جس کے دباؤ اس اس کی انکھیں باہر کو اُبل آئی تھیں۔ لڑکوں نے احتیاط سے اس کا اوپر اٹھایا اور اس کی ماں کے حوالے کیا۔ عورت نے بے اختیار اس کو چومنا شروع کر دیا۔ مامتا کا جو مظاہرہ اس دن میں نے دیکھا کبھی نہ بھول پایا۔

یہاں یہ امر قابل بیاں ہو گا کہ یہ ایسی کیفیت تھی جن کا عام حالات میں اترنا ممکن نہیں ہے۔ بے کسی و بے سروسامانی نے ہر ایک فرد کو حواس سے بیگانہ کر دیا تھا۔ یہ نہ تو نفسانفسی کا عالم تھا نہ ہی ہمدردی کا۔ حواس باختگی کی فضا تھی اور اوسان جاتے رہے تھے۔

میں اسی کھلے میدان میں نوحہ و فریاد کے طوفان کے بیچ گھوم رہا تھا کہ میری نظر اپنے والد صاحب پر پڑی۔ تب ایسا محسوس ہوا جیسے فضاوں میں اڑتے ہوئے کسی شخص کے پاوں زمین کو جا لگے ہوں۔ لہو آشنا رشتے وقعتاً بے نظیر ہوتے ہیں۔ مجھے یہ بتایا گیا کہ گھر کے سبھی زندہ ہیں تو میں والد صاحب کے ہمراہ گاؤں میں واقع اپنے آبائی گاؤں کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں ہو کا عالم تھا۔ ماٹی کے بنے ہوئے دیسی ساختہ سب کے سب گھر گر چکے تھے اور ان کے مکیں مکاں بُرد ہو چکے تھے۔ کہیں کہیں اِکا دُکا کوئی زندہ شخص نظر آ رہا تھا جو بے بسی کہ تصویر بنے اپنے پیاروں کو ماٹی کے ڈھیروں سے نکالنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔

گاؤں پہنچنے پر مجھے پہلی مرتبہ موت کی حقیقت اور خوف کا احساس ہوا۔ خاندان کے چالیس کے قریب افراد جن میں طفل و جواں سبھی شامل تھے موت دیوتا کی سنگینی کا شکار ہو چکے تھے۔ جن میں بہت قریبی رشتے بھی شامل تھے۔ خیر اس میں کوئی نئی بات نہ تھی۔ ہر شخص کی یہی کہانی تھی۔ مگر ایک واقعہ میری یاداشت میں ہمیشہ کے لیے نقوش چھوڑ گیا۔

گھر کے صحن میں آلو بخاروں کے درخت تھے ان درختوں کے نیچے قریبا دس بارہ نو عمر بچوں کے اسکول کی وردی میں ملبوس سالم لاشے دھرے تھے۔ جن کی تعداد میں ہر نئی نکلنے والی لاش کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔ ان بچوں میں میری چچا زاد بہنوں کے علاوہ اکلوتا چچا زاد بھائی بھی تھا۔ اس نو خیز نے ابھی ابھی اسکول کی راہ دیکھی تھی۔ ان کا اسکول شہتیروں پر پڑے گارے کی چھت سے بنا ہوا تھا۔ شومئی قسمت یہ کہ زلزلہ ہوتے ہی سب بچے باہر کو بھاگے۔ اس نے فوراً اپنا نیا بستہ پہنا اور ان کے ساتھ باہر کو دوڑا۔ اتنے میں چھت آن گری۔ بھاگتے ہوئے اس کم سن کے سر پر ایک طاقتور شہتیر کی زبردست چوٹ لگی۔ اس معصوم کی کھوپڑی چِٹخ گئی۔ میں نے دیکھا کہ اس کا بے جان جسم ایک بڑے سے ہموار پتھر پر رکھا ہوا تھا۔ شہتیر لگنے سے اس کا بھیجا کچے انڈے کی سفیدی کی طرح اس کے کاسہ ِسر سے رِس رِس کر باہر کو بہہ رہا تھا جبکہ نیا بستہ ابھی تک اس کے کاندھے پر بندھا ہوا تھا۔

اس رات بڑی زوروں کی بارش ہوئی۔ منوں غبار اڑا چھاجوں مینہ برسا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے گھٹاؤں کا ضبط ٹوٹ کر بکھر گیا ہو۔ ٹھنڈ کی شدت میں زبردست اضافہ ہوا۔ نعشوں کو (جن کہ تعداد بیس سے اوپر ہو چکی تھی)اٹھا کر ایک ادھ کھڑے سائبان کے نیچے رکھ دیا گیا تاکہ وہ بھیگنے سے محفوظ رہیں۔ باقی مانندہ لوگ ننگے فلک تلے بیٹھے کانپتے رہے۔ سردی کی شدت میری برداشت سے باہر ہو گئی میں چپکے سے اٹھا اور سائبان کے نیچے لیٹی نعشوں کی بیچ لیٹ گیا۔ سماجیت انسان کی خمیر میں واقع ہوئی ہے۔ ہم حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نفوس بشریہ کے مردہ حالت کے ساتھ کو بھی سہارا سمجھتے ہیں۔

اگلے صبح بھرپور اور نکھری ہوئی تھی مگر اس کو دیکھنے والوں کی اکثریت چل بسی تھی اور جو باقی تھی ان کے لیے یہ سحر شب تار سے کم نہیں تھی۔ کہیں سے ایک دو کدالوں کو ڈھونڈ لایا گیا اور مُردوں کو دابنے کا کام شروع کیا گیا۔ بیشتر جوان تو مر چکے تھے لہذا گڑھے کھودنے کا کام ادھیڑ عمر مردوں سمیت بچوں نے سر انجام دیا۔ اجتماعی نماز جنازہ ادا کی جاتی، نعشوں کو سفید کپڑے (جو کے بہت کم جگہوں پر دستیاب ہوا) میں لپیٹا جاتا اور انھیں گڑھے میں لٹا کر اوپر کچی پکی مٹی بکھیر کر گڑھا بند کر دیا جاتا۔ ایسے ’خوش نصیب‘ بہت کم تھے جنہیں سفید کپڑا یا الگ گڑھا نصیب ہوا وگرنہ ہزاروں بے کفن لاشیں اپنی موت کی اصل حالت میں ہی زیر بھوم جا بسیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2