دریائے سندھ کی فریاد


میں ہوں دریائے سندھ۔ میں تبت کی چوٹیوں سے نکل کر گلگت کی پہاڑیوں سے اپنا راستہ بناتا بحیرہ عرب تک آتا ہوں، میں ایک تاریخ ہوں، تاریخ مجھ میں سمائی ہوئی ہے۔

صدیوں پہلے میں نے اپنے راستے خود بنائے بارہا میرے راستے روکنے کی کوششیں کی گئی مجھ پر کئی قدغنیں لگیں، میں جہاں سے گزرا سیراب تو کرتا رہا مگر رکا نہیں اپنا راستہ خود بناتا گیا، مجھے تاریخ نے کبھی اند، کبھی ہند، تو کبھی سندھ کے نام سے پکارا، جب سندھ سے پکارا تو مجھے لگا جیسے مجھے کوئی نام مل گیا، سندھ میرا نام اور میں سندھ کی پہچان بن گیا، ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہوگئے۔

مگر آجکل میں مشکل میں ہوں میں نے جو اپنے راستے صدیوں پہلے متعین کیے تھے اب انہیں بند بنا کر روکا جارہا، مجھے اپنے اس نام سے پہچان سے کوسوں دور روکا جارہا جو میری صدیوں پہلے پہچان تھی، مجھے ڈیم کے نام پر محدود کیا جارہا۔

آجکل کہا جاتا ہے ڈیم تمام ضروری ہے اگر ڈیم نہ بنا تو یہ علاقہ بنجر ہوجائے گا، ڈیم کی مخالفت کرنے والے کو دشمن غدار وطن کہا گیا، ساتھ ہی ڈیم مخالف پر آرٹیکل 6 کی اطلاق کی دھمکیاں دی گئیں۔

میں اس خطے کا اٹوٹ حصہ ہوں، مجھے بھی اس خطے سے بہت پیار ہے، میرے نام پر بنی ایک اکائی نے پاکستان کو جنا ہے جیسا کہ باقی پاکستانی اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں، مگر افسوس مجھے اپنے بچے سے پیار کرنے کے لئے سند لینی پڑتی ہے۔

میں بڑے ڈیموں پر اختلاف رکھتا ہوں، کیونکہ آج کل کے جدید دور میں دنیا بھر میں بڑے ڈیموں کے بجائے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جارہے ہیں، میں چھوٹے ڈیموں کا مخالف نہیں، مجھ سے منسوب اکائی میں پچھلے کچھ سالوں میں کافی چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں، جن سے کافی خوشحالی آئی ہے، کئی ڈیم بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں، جس سے بارشوں میں برسنے والا پانی محفوظ کرکے جانور انسان چرند پرند کئی مہینوں تک اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ میں بڑے ڈیموں سے اختلاف کرتا ہوں۔

میرے اختلافات کی کئی وجوہات ہیں جو میرے سامنے اور روزمرہ کی زندگی میں مجھے ہر جگہ نظر آتی ہیں، جو شاید باقیوں کو نظر نہیں آتیں۔ میری بچے، میرے جانور پرندے پیاس سے مررہے میرے کسان پانی نہ ہونے کی وجہ سے خودکشی کررہے ہیں۔ میرے نام سے جڑی اکائی جس کا نام سندھ ہے اس خطے کا جنوبی علاقہ ہے، جہاں 7 کروڑ نفوس سمائے ہوئے ہیں، اس سال اس خطے کو 40 فیصد کم پانی ملا ہے، وہاں فصل نہیں ہوسکی، اور کئی علاقوں میں پینے کا پانی تک میسر نہیں۔

وہاں کی 4 لاکھ ایکڑ کاشتکاری والی زمین سمندر نگل چکا ہے، وہاں مجھ سے جڑی صدیوں پرانی تہذیب کو سمندر نگل رہا ہے، اس جنوبی حصے کے ساتھ 1991 ع میں ایک معاہدہ کیا گیا تھا، جس کے تحت کوٹری سے آگے 10 ملین ایکڑ فیٹ پانی کا سمندر میں چھوڑا جانا ضروری ہے، جس سے کراچی بدین ٹھٹہ جامشورو دادو کی 4 کروڑ عوام کی کاشتکاری اور پینے کے لئے پانی کی ضرورت ہوگی اسے کوٹری سے نیچے چھوڑا جانا لازمی تھا، لیکن مجھ میں اب پانی نہیں ہے اور میرا سینہ چاک کیا جارہا ہے۔

میرے سینے میں اتر کر تبت سے ساتھ لایا گیا میرا خزانہ نکالا جارہا کیونکہ میں اب خشک ہوچکا ہوں مجھ میں پانی کی جگہ ریت اُڑتی ہے، جہاں میں موج میں بہتا تھا وہاں اب پینے تک کا پانی میسر نہیں، ٹھٹھہ بدین اور کھارو چھان کا یہ پانی تمر کے جنگلات کے لئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ جنگلات سمندر کے کھارے پانی کو زمینیں نگلنے سے روکتے ہیں اور مال مویشی کے لئے چارے کا کام کرتے ہیں جس سے زندگی کے معاملات چلتے ہیں۔

نہری پانی کے سبب مچھلی کا کاروبار ہوتا ہے اب تو مچھلی بھی خواب بنتی جارہی ہے پہلے ٹھٹہ بدین کی پلہ پچھلی پورے ملک میں مشہور ہوتی تھی اب پلہ مچھلی کا ملنا ناممکن ہوچکا، میری گود اجڑتی جارہی ہے حدیث مبارک ہے کہ پانی پر پہلا حق پونچھ والے کا ہوتا ہے۔ مگر مجھے سے میرا حق چھینا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے ڈیم بنانا ضروری ہے، سب سے پہلے جب پانی ہی میسر نہیں تو ڈیم کیسی بنے گا؟ اگر بن بھی گیا تو کیسے بھرے گا؟

تحقیق کے مطابق آجکل جس ڈیم کا چرچہ ہے وہ دس سال میں بھرے گا، میری نام کی نسبت والے علاقے میں آج بھی پانی نہیں پہنچ رہا میں آج بھی خشک سالی کا شکار ہوں، میرے بچے آج بھی پانی نہ ملنے کے سبب مررہے ہیں، میری صدیوں پرانی تہذیب تمدن کو سخت خطرات ہیں، اگر ڈیم بن گیا اور ڈیم بھرنے کے لئے مجھے دس سال پیاسا رکھا گیا تو میری نسبت میری پہچان کا کیا ہوگا؟

میں تڑپ تڑپ کر جان دے دوں گا، میری تہذیب میری تمدن اور سب سے بڑی بات مجھ سے منسوب (پاکستان کے لئے سب سے پہلے قرارداد منظور کی) اسے ہی ماردیا جائے گا۔ اگر مامتا کو ماردیا جاتا ہے تو بچے یتیم ہوجاتے ہیں اور پھر یتیموں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ان کا جینا مشکل ہوجاتا ہے۔

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch