محمود اچکزئی کی کارکنوں کو افغان شہریت حاصل کرنے کی ہدایت


پاکستان میں پشتون قوم پرست رہنما اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے پارٹی کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی شہریت کے ساتھ ساتھ افغانستان کی بھی شہریت حاصل کرلیں۔

وہ کوئٹہ میں سات اکتوبر 1991 کو اپنی پارٹی کے ہلاک ہونے والے کارکنوں کی برسی سے خطاب کر رہے تھے۔

انھوں نے سوال اٹھایا کہ لاکھوں پاکستانی دوسرے ملکوں کی دوہری شہریت رکھتے ہیں تو پاکستان کے پشتون افغانستان کے شہری کیوں نہیں بن سکتے۔

خود اپنے بارے میں ان کا کہنا تھا: ‘میں سیاست کررہا ہوں، خود بھی (افغان پاسپورٹ) بنوانا چاہتا ہوں، لیکن نہیں بنوا سکتا۔ آپ میں سے جو بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیتے، وہ سب افغانستان کا پاسپورٹ بنوائیں۔’

محمود خان اچکزئی کے ایسے بیانات پر پاکستان کے بعض حلقوں کی جانب سے پہلے بھی تنقید ہوئی ہے۔

کچھ عرصہ قبل انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزین خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنی سرزمین پر رہ رہے ہیں اس لیے اُنھیں بلاجواز تنگ نہ کیا جائے۔

محمود خان اچکزئی کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں بسنے والے پشتون ایک قوم ہیں، اور پاکستان بننے سے پہلے بھی وہ اپنی ہی سرزمیں پر آباد تھے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ کراچی کے دورے میں اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان میں مقیم تمام بنگلہ دیشی اور افغان پناہ گزینوں کو پاکستانی شہریت دیں گے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا: ‘وہ تمام افغان جن کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں، اُن کو ہم پاکستانی شہریت دیں گے۔ وہ انسان ہیں اور ہم کیسے تیس چالیس سال تک اُنہیں بغیر شناخت کے رکھ سکتے ہیں۔’

پاکستان کی پشتون قوم پرست جماعتوں نے اس بیان کو سراہا تھا، تاہم کچھ سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم کو اس بیان پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ڈیورینڈ لائن اور خاردار باڑ

محمود اچکزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے پشتونوں کو خاردار کے ذریعے ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ خاردار تار کی بجائے افغانستان میں تمام ہمسایہ ممالک کی مداخلت بند کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔

انھوں نے کہا: ‘قومیں خاردر تاروں سے تقسیم نہیں کی جا سکتں۔ یہ ساری ایک قوم ہے، گھر ایک طرف تو کھیتی باڑی دوسری طرف ہے۔ آپ اسے کیسے ایک دوسرے سے الگ کر سکتے ہیں۔’

محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ جمہوری افغانستان اور جمہوری پاکستان ایک دوسرے کے لئے اچھے ہمسایے ہوسکتے ہیں۔

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر خاردار تار لگانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور پاکستان کا کہنا ہے کہ اس تار سے دونوں جانب شدت پسندوں کے آنے جانے کا سلسلہ رک جائے گا۔

پاکستان میں متعین افغان سفیر ڈاکٹر حضرت عمر زخیلوال نے بھی بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر باڑ کو یکطرفہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جن مقاصد کے لیے باڑ لگائی جا رہی ہے، وہ باڑ کی بجائے دوسرے اقدامات سے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘معاہدے کے تحت ڈیورنڈ لائن پر کسی بھی تعمیر یا باڑ کی صورت میں افغان حکومت کا اعتماد میں لیا جانا لازمی ہے۔ مگر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔’

دونوں ممالک کے درمیان لگ بھگ چھبیس سو کلومیٹر لمبی متنازع ڈیورنڈ لائن ہے۔ پاکستان اسے بین الاقوامی سرحد سمجھتا ہے جبکہ افغانستان اسے بین الاقوامی سرحد نہیں مانتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp