نئی نسل اور پرانے روگ


\"wajahat\"1956 کا برس تھا۔ سید ابو اعلیٰ مودودی اور محترم امین احسن اصلاحی میں اختلافات بڑھ گئے، یہاں تک کہ مودت کا رشتہ ٹوٹنے کے آثار پیدا ہو گئے۔ دونوں قلم کے دھنی تھے۔ سید صاحب نے ایک مضمون لکھا، \”بلی تھیلے سے باہر آ گئی\”۔ اس کے جواب میں اصلاحی صاحب نے بھی قلم اٹھایا، گزشتہ اختلافات گنواتے جاتے تھے اور پیرا گراف کے آخر میں لکھتے تھے، \”تب یہ بلی تھیلے سے باہر آئی اور میں نے اسے مارا\”۔ تحریر کے آخر میں گویا تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے لکھا کہ \”حضرت اب میں یہ بلی ہی مارتا رہوں، بلی مارنا ایسا کونسا شریفانہ فعل ہے\”۔ بزرگوں کے اپنے رموز و اسرار ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ نیاز و ناز سے ہوتا نہیں۔ اختلاف ہوگیا تو راہیں جدا ہوگئیں۔ ایک دوست نے سیاسی کام جاری رکھا، دوسرے نے علمی مشاغل کی راہ لی۔ سید مودودی کو کیسے اندازہ ہوتا کہ آگے چل کر انہیں میانوالی کے رفقا سے بھی واسطہ پڑے گا۔ کہنا یہ ہے کہ کچھ بلیاں عادات بد میں مبتلا ہوتی ہیں۔ بار بار تھیلے سے باہر آجاتی ہیں اور اس میں مشکل یہ پڑتی ہے کہ ہر بلی کو مارنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں۔ ابھی ہوا یہ کہ گزشتہ کالم میں نوجوانوں کی آندھی جوانی کے کچھ زاویوں پر تنقید کی تھی۔ اشارہ کچھ زیادہ آج کے نوجوانوں کے بارے میں نہیں تھا۔ قصہ ستر برس پہلے کے واقعات سے شروع کیا تھا اور عشرہ بہ عشرہ گنواتے ہوئے آج تک بات لائے تھے۔ مگر صاحب دل میں چور ہوتا ہے اور داڑھی میں تنکا۔ ایک عزیز محترم نے لکھا ہے کہ \”آپ کو نوجوان نہایت بدتمیزی سے کسی موضوع پر بات کرتے ہوئے نظر آئیں تو ان کی \”بدتمیزی\” پر ماتم کرنے کی بجائے ان کے غصے کی وجہ جانیں۔ اگر وہ جائز لگے تو ان کے ساتھ اتفاق کریں اور پھر ان کے ساتھ گفتگو میں حصہ لیں۔ آپ دیکھیں گے محض چند منٹ میں وہ \”بدتمیزی\” چھوڑ کے مہذب انداز میں اپنا نقطہ نظر بیان کر رہے ہوں گے۔ اگر آپ محض بدتمیزی پر \”فوکس\” کریں گے تو وہ نوجوان آپ کو جانتے ہوئے بھی غیر شعوری طور پر آپ کو اسی مظہر کا حصہ سمجھیں گے جس پر وہ ناراض تھے۔ یوں آپ ان کی بہتری کا ایک قیمتی موقع کھو دیں گے۔۔۔ مزید یہ کہ ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ آج کا نوجوان ہمارے برعکس سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ یہی چیز جلد بہتری اور مثبت تبدیلی لائے گی۔\”

بات تو غلط نہیں کی، پرانی اور نئی نسل میں مکالمہ ہونا چاہئے۔ ہر نسل میں علم، مشاہدے اور معیشت کے دھارے بدل جاتے ہیں اور ہمارے زمانے میں تو یہ عمل بہت تیز ہوگیا ہے۔ معاشرت کے علما نے ہمیں پڑھایا تھا کہ نوع انسانی میں 35 برس کا عرصہ ایک نسل گنا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی رفتار نے یہ اعداد و شمار گڈ مڈ کر دیے ہیں۔ ریڈیو ایجاد ہوا تو اسے پہلے دس لاکھ صارفین میسر آنے میں کئی عشرے لگے۔ ٹیلی ویژن کے پہلے دس لاکھ صارفین نمودار ہونے میں بھی کئی برس لگ گئے۔ ہماری نسل نے دنیا کی سب سے تیز رفتار ڈاک یعنی فیکس مشین کو آتے بھی دیکھا اور پھر دفتر کے ایک کونے میں پرانی سلائی مشین کی طرح دھرے بھی دیکھا۔ اور اب موبائل فون کی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو مارکیٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی صارفین کی تعداد معلوم ہوتی ہے۔ یہ تو ٹیکنالوجی کے معاملات ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ثقافت میں کچھ علمی مفروضے کارفرما ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ مطابقت رکھنے والے سیاسی بندوبست کے کچھ خد و خال ہوتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ثقافت کی اپنی اقدار ہوتی ہیں۔ یہ رشتہ ٹیکنالوجی کی تخلیق سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں ٹیکنالوجی عاریتا مانگی جاتی ہے یا اسے معاشرت اور سیاست میں سمونے سے انکار کیا جاتا ہے وہاں ٹیکنالوجی انتشار پھیلاتی ہے، استحصال کو مضبوط کرتی ہے، نا انصافی کو طوالت بخشتی ہے۔ اللہ کے فضل سے ہمارا ٹیکنالوجی کے ساتھ رشتہ مانگے تانگے کا ہے۔ ہم مشین خرید لیتے ہیں، اقدار ہمارے پاس اپنی ہیں اور الحمدللہ ہماری اقدار بہت اچھی ہیں۔ ہمارا خاندانی نظام بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ ہماری معاشرت میں امتیاز اور استحصال کا نام و نشان نہیں، رہی ذات پات تو ہمسایہ ملک میں یہ رسم بد پائی جاتی ہے۔ ہمارے وکیلوں کے تختے اور ڈاکٹروں کے بورڈ ذات پات کی لعنت سے بالکل آزاد ہیں۔ عورتوں کو ہراساں کرنے کا معاملہ ہے تو نئی دلی کو ریپ کا عالمی دارالحکومت کہا جاتا ہے، ہمارے بچے بہت شریف ہیں، نظر نیچی رکھتے ہیں۔ کسی کو یقین نہ آئے تو ابھی چند ہفتوں میں عید کی خریداری شروع ہوگی، کسی پر رونق بازار میں جا کر دیکھ لیجئے گا۔ تاجر ہمارا دیانت کا پتلا ہے، ٹیکس پورا دیتا ہے، صدقہ خیرات کی کوئی حد نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ایسے حرفوں سے بنے ہیں اور ایسی ایسی نکتہ طرازی کرتے ہیں کہ ان کی لکھی کتابیں پڑھ کر مغرب دانتوں میں انگلیاں داب لیتا ہے۔ سر کھجاتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف مڑ کر پوچھتے ہیں، کہ صاحب اسامہ بن لادن تو 2006 میں مر چکا تھا۔ ہم ایبٹ آباد میں کیا ہیلی کاپٹر کا ملبہ چھوڑنے گئے تھے۔
یہ سب باتیں تو ادھر ادھر سے چلی آئیں۔ الجھن صرف یہ ہے کہ یہ معلوم نہیں ہو پا رہا کہ عزیز محترم نے نوجوانوں سے ہمدردی کی تجویز دیتے ہوئے درویش کو عمر کے کس حصہ میں رکھا ہے۔ ابھی تو نامِ خدا مجیب الرحمان شامی ماشا اللہ جوان ہیں۔ سجاد میر کے لہجے میں جذبے کی پتی لگتی ہے۔ ابھی تو وہ نسل زندہ ہے جس نے ہمیں کندہ ناتراش قرار دیا تھا، کم سوادی کے طعنے دیے تھے۔ ابھی تو ہماری نسل نے اپنا جواز ثابت نہیں کیا اور خبر آتی ہے کہ لاڈلے بیٹے پر پھر سے جوانی آ رہی ہے۔ تو صاحب جوانوں کی گرم گفتاری کا تجربہ ہمارے لئے نیا نہیں۔ اقبال نے ہمارے ساتھ جاوید نامہ میں انصاف نہیں کیا۔ جہاں موتی لال اور جواہر لال کا ذکر کیا تو انہیں \”تیز بیں و پختہ کار و سخت کوش\” کے اسمائے صفت دیے۔ اور ہمارے جوانوں کو جذبہ، جنون اور جوش بخش دیا۔ ان پرجوش جوانوں کی پہلی نسل چالیس کی دہائی میں باہر نکلی تھی۔ عقل لب بام تماشا کرتی رہی اور ان جوانوں نے کام کر دکھایا۔ از براہ خدا اس میں قائداعظم محمد علی جناح کا نام نہیں لیجئے گا۔ وہ ایک اور طرز کے انسان تھے اور آج کے پاکستان میں ان کے لئے کوئی جگہ نہ ہوتی۔ میں تو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے ان جوانوں کا ذکر کر رہا ہوں جنہوں نے پنجاب میں 1946 کی انتخابی مہم چلائی تھی۔ چند برس بعد فسادات ہوئے، متروکہ املاک کی لوٹ مار ہوئی، پاکستان کے نصب العین پر مباحثے ہوئے، مشرقی بنگال کے ساتھ تعلق اور حقوق کی بات اٹھی، پاکستان میں اقلیتوں کے رتبے کا سوال پیدا ہوا، عورتوں کے مقام کی بحث چھڑی۔ چالیس کی نسل خاموش رہی۔ تقسیم کے آس پاس پیدا ہونے والے ساٹھ کی دہائی میں جوان ہوئے تھے۔ تب دنیا بھر میں طالب علم نامی ایک مخلوق پائی جاتی تھی۔ ہمارے ملک میں بھی یہ نسل نمودار ہوئی، سخت قوم پرست، پرولتاریہ کے حامی، جمال عبدالناصر کے شیدائی۔ جذبہ ان کا بھی بادبان تھا اور عقل سے انہیں بھی پرہیز تھا۔ اور پھر ہماری نسل سامنے آئی، ضیا کی آمریت، افغان جہاد، خلیج کا ویزا، وی سی آر اور کلاشنکوف، صدام حسین اور سامراج، ایرانی انقلاب اور جہاد۔ ابھی اس منجدھار میں غوطے کھا رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ نوجوانوں کی نئی نسل سامنے آچکی ہے۔ دیانت داری کا دعویٰ ہے، تبدیلی کا نعرہ ہے۔ مذہب کے دفاع کی ذمہ داری ان پر ہے۔ کبھی جسٹس افتخار چوہدری پر پلکوں کی چھاو¿ں کرتے ہیں، کبھی طاہر القادری کا پرچم اٹھاتے ہیں، کبھی عمران خان صاحب کے دفاع میں گالیاں ارزاں کرتے ہیں۔۔۔۔ پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں۔۔۔

مکالمے کی تجویز بہت اچھی ہے مگر صاحب یہ نوجوانوں کی چوتھی نسل دیکھ رہے ہیں۔ چار صفات مشترک ہیں۔ نا اہلی، بد دیانتی، اور نا انصافی اور اس پر خود راستی کا دعویٰ مسلسل ہے۔ موجودہ نسل کی جو بھی تعریف باندھیے، انھیں بعد از ضیا نسل کہئے یا سرد جنگ کے بعد کی نسل، یہ طے ہے کہ اس نسل کے بنیادی خدوخال بھی وہی ہیں جو ہم چار نسلوں سے دیکھتے آ رہے ہیں، دامن اس میں کسی کا صاف نہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ رعایت کر بھی دیں تو وقت غیر جانب دار ہے۔ تاریخ ٹھیک ٹھیک بتا دے گی کہ ہماری کس نسل سے کیا کوتاہی ہوئی۔

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments