گلگت بلتستان کی یہ سبسڈی ہی ختم کردینا چاہیے


حکومت پاکستان گذشتہ چار دہائیوں سے گلگت بلتستان کو گندم پر سبسڈی دے رہی ہے۔ یہ سبسڈی وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے نو ارب تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان کے دور دراز کے علاقوں میں آٹے کا چالیس کلو والا تھیلہ چھ سو روپے میں دستیاب یے۔

گذشتہ کچھ سالوں سے گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی پر خوب سیاست ہورہی ہے، جب بھی وفاق میں حکومت تبدیل ہوجاتی ہے تو سبسڈی ختم ہونے کی افوائیں پھیل جاتی ہیں۔ جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تب سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس پر گلگت بلتستان کے عوام سڑکوں پر نکل آئے اور کئی دنوں تک پورے گلگت بلتستان میں شٹرڈاون پہیہ جام رہا تب جاکے سبسڈی دوبارہ بحال کردی گئی۔

پچھلے دنوں مشیر خوراک گلگت بلتستان نے وزیر اعلی کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ وفاق سے گندم کی قیمتیں بڑھانے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اس خبر کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سبسڈی پر بحث شروع ہوچکی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے گلگت بلتستان میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے، جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے سبسڈی ختم کرنے کی تردید کر دی ہے۔

کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سبسڈی کے بغیر زندہ رہنا مشکل ہے کیونکہ اگر سبسڈی ختم ہوگئی تو آٹے کا تھیلہ جو چھ سو بیس روپے کا دستیاب ہے وہ دو ہزار کا خریدنا پڑے گا۔ دوسری بات یہ کہ گلگت بلتستان کا کل رقبہ بہتر ہزار مربع میل ہے جبکہ یہاں دو ہزار مربع میل زمین بھی قابل کاشت نہیں ہے، گلگت بلتستان کا نوے فصید علاقہ پہاڑی سلسلے ہیں۔ اب یہ پہاڑ کتنے قیمتی ہے یہ ایک الگ بات ہے۔ یہاں شہروں کی طرح روزگار کے مواقع میسر نہیں ہے، یہاں کاروبار کرنے کے لئے وسائل دستیاب نہیں ہے، ہہاں تو موسم بھی آئیڈیل نہیں ہےکہ ایک آدمی بارہ مہینے محنت مزدوری کریں۔ یہاں تو نومبر سے مارچ تک کے لئے لوگ اپنا خوراک ذخیرہ کر کے رکھ دیتے ہیں کیونکہ اس دوران ان علاقوں میں خون جمادینے والی سردی پڑتی ہے۔

یہاں لوگوں کے روزگار کا دارومدار سرکاری نوکری اور ترقیاتی منصوبوں پر ہے۔ ایسے میں وہ سبسڈی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پھر کچھ حلقے یہ بھی جواز پیش کرتے ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں متنازعہ علاقے ہیں اور وہ جس ملک کے بھی زیر انتظام ہیں، وہ ممالک وہاں مختلف چیزوں پر سبسڈی دیتے ہیں۔ یہ سب تو اپنی جگہ ٹھیک مان لیا جائے کہ گلگت بلتستان بہت ہی غربت زدہ علاقہ ہے یہاں سبسڈی والے آٹے کے بغیر جینا مشکل ہے۔

تو ایک حقیقت یہ بھی جو ہمیں نظر آتی ہے، کہ یہاں غریب سے غریب آدمی کا گھر کم سے کم ایک کنال پر آٹھ سے دس پیس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہاں نوے فیصد لوگ اپنے ذاتی موٹر سائیکل رکھتے ہیں اور کم و بیش پچاس فیصد لوگوں کے پاس نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہیں۔ اگر ہم سخت موسم اور پہاڑی علاقوں کا جواز پیش کرتے ہیں تو چترال کے لوگ بغیر سبسڈی کے کیسے گزارا کرتے ہیں ؟
یہاں لاکھوں تنخواہ لینے والے بھی چھ سو روپے کا چالیس کلو آٹا خریدتےہیں اور بیس ہزار والا ملازم بھی وہی آٹا استعمال کرتا ہے۔ یہی نہیں اس سبسڈی کی وجہ کچھ لوگ راتوں رات کروڑ پتی بن گئے۔ یہی سبسڈی والا آٹا تھیلی تبدیل کرکے کے عام مارکیٹ میں پندرہ سو روپے کا اب بھی بھیچا جاتا ہے۔

اس سبسڈی کے بغیر بلکل گزارا ہوسکتا ہے۔ اگر پھر بھی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں لوگ تھر سے زیادہ غریب ہیں یہاں کراچی لاہور اور دیگر شہروں کے مقابلے میں فٹ پاتھ پر سونے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر یہاں اندرون سندھ اور پنجاب کی طرح لوگ کچی آبادی میں رہتے ہیں، اگر یہاں بچے صبح سکول کے وقت سڑکوں، بسوں کے اڈوں میں ننگے پیر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں تو ان لوگوں کو ضرور سبسڈی ملنی چاہیے اور ان کو چند دیگر اشیائے خوردونوش میں سبسڈی ملنا چاہیے ورنہ اس سبسڈی کو ہی ختم کردینا چاہیے تاکہ لوگ محنت کر کے اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).