احتساب کی یہ نرالی کہانی حکومت کی ناکامی کا اعلان نامہ ہے


وزیر اعظم عمران خان نے بلوچستان اور پنجاب کا دورہ کیا ہے اور دونوں صوبوں کی حکومتوں سے ملاقات کے دوران کرپشن کے خلاف کام مؤثر اور تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد پہلی بار کوئٹہ کا دورہ کرتے ہوئے عمران خان نے گورنر ہاؤس میں حکومت کے ارکان اور عمائدین سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے سیاست دان آج تک صرف سیاسی مقاصد سے بلوچستان آتے رہے ہیں لیکن ان کی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے اور محرومیاں ختم کرنے کے لئے کام کرے گی اور صوبے میں عوامی بہبود کے منصوبوں پر کام شروع کرکے نیا بلوچستان تعمیر کیا جائے گا۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو یقین دلایا کہ وفاقی حکومت صوبے کی ترقی کے لئے ہر قسم کے وسائل فرام کرے گی۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ وہ کرپشن کے خلاف کام تیز کریں کیوں کہ کرپشن ختم کئے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پر پچھلے چند سال کے دوران چار سو سے زیادہ وزیروں کو پکڑا گیا اور ان کا احتساب کیا گیا۔ اسی طرح بڑی تعداد میں بیوروکریٹس کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسی طرح کسی معاشرہ کی اصلاح ہو سکتی ہے۔

وزیر اعظم بلوچستان کے دورہ کے دوران بلوچ عوام کی حالت بدلنے اور صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت کی مکمل حمایت کا یقین دلانے سے پہلے ہوائی اڈے پر اترتے ہی جنوبی کمان کے ہیڈ کوارٹر پہنچے جہاں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ان کے استقبال کے لئے موجود تھے ۔ اس موقع پر وزیر اعظم کو بلوچستان میں امن و امان، افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے اور سی پیک کے منصوبوں کی سکیورٹی سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بریفنگ کے موقع پر فوج کے سربراہ نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں استحکام کے بعد ان کی توجہ بلوچستان پر ہے جو پاکستان کا معاشی مستقبل ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے بلوچستان میں امن و امان کی بہتری اور لوگوں کی معاشی ترقی کے لیے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو سراہا۔

بلوچستان کے مختصر دورہ کے دوران وزیر اعظم کی طرف سے صوبے کی ترقی کی طرف توجہ مبذول کرنے کا اعلان قابل تحسین ہے لیکن اس دوران عمران خان کی مصروفیات میں سب سے اہم فوجی افسروں سے ملاقات اور صوبے کے بارے میں فوج کے منصوبہ کی تفصیلات جاننا تھا۔ عمران خان اگر نیک نیتی سے بھی اس پسماندہ صوبے کے حالات درست کرنے کی خواہش رکھتے ہوں تب بھی جب تک وہ یہ جاننے کی کوشش نہ کریں کہ صوبے میں بد امنی یا بے چینی کے کیا اسباب ہیں اور ترقی نہ ہونے یا عوام کو سہولتیں بہم نہ پہنچانے کی وجوہات کیا رہی ہیں، تو سابقہ حکومتوں کی طرح ان کی باتیں بھی نعرے بازی اور ’ڈنگ ٹپاؤ ‘ حکمت عملی کے زمرے میں آئیں گی۔

وزیر اعظم نے بلوچستان کے پہلے دورے کا آغاز پاک فوج کے سربراہ اور مقامی کمان سے ملاقات سے کیا لیکن وہ یہ کہنے یا جاننے کی کوشش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کا اچانک لاپتہ ہوجانا ہے۔ ماورائے عدالت قتل اور ایجنسیوں کی طرف سے مختلف لوگوں کو لاپتہ کرنے کے تسلسل نے بد اعتمادی کی ایسی کیفیت پیدا کردی ہے کہ بلوچستان کے عوام کسی بھی لیڈر پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پنجاب کے ووٹوں کی بنیاد پر زیر اعظم بننے کے بعد ہر لیڈر بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی بات کرتا ہےلیکن لاپتہ افراد کے حوالے سے شکایات دور کرنے کی بات کرتے ہوئے اس کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ عمران خان جب فوجی کمان سے ملاقات کے بعد صوبائی حکومت اور عمائدین سے ملے ہوں گے تو انہوں نے اس کے علاوہ کیا پیغام دیا ہوگا کہ صوبے کے لئے فوج کا ایجنڈا نافذ رہے گا۔ جو وفاقی حکومت بلوچستان میں فوج کے ایجنڈے کو تبدیل کرنے کی بات زبان پر نہیں لاسکتی یا صوبے میں سول بالادستی کی روایت کو استوار کرنے کے لئے کام کا آغاز کرنے میں ناکام رہتی ہے ، اس سے بلوچستان ہی نہیں کسی بھی صوبے کے لوگوں کو بہتری اور تبدیلی کی توقع نہیں ہو سکتی۔

عمران خان اس صورت میں کامیاب قرار پاسکتے تھے اگر وہ جنوبی کمان کے ہیڈ کوارٹرز میں فوج کی اعلیٰ قیادت کی بریفنگ کے بعد پوچھتے کہ صوبے میں لاپتہ کئے گئے تمام افراد کا سراغ لگایا جائے اور جو لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں انہیں فوری طور سے رہا کیا جائے۔ اسی صورت میں سول لیڈروں سے ملاقات میں وہ یہ بتانے کے قابل ہوتے کہ انہوں نے لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لئے فوج کو نوٹس دیا ہے ۔اور فوج کے جو کمانڈر، وزیر اعظم اور سول حکومت کی بالاستی کو تسلیم کرنے کا اعلان کرکے ملک کے آئین اور جمہوریت سے اپنی وفاداری اور کمٹمنٹ کا اعلان کرتے رہتے ہیں ، اب ایک سولین وزیر اعظم نے انہیں اس اہم صوبائی اور قومی مسئلہ کو حل کرنے حکم دے دیا ہے۔ نیا پاکستان یا نیا بلوچستان کی بات میں تب ہی کوئی وزن محسوس کیا جاسکتا تھا۔ فوج کی اعانت اور سرپرستی سے اقتدار حاصل کرکے ، فوج کے ایجنڈے کو قوم کی بھلائی کا واحد راستہ بتانے والا وزیر اعظم ملک کی سیاسی تاریخ اور بلوچستان کے کرب سے لاتعلقی کا اعلان کررہا ہے۔ اس رویہ سے صرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وزیراعظم اس ملک کی سیاسی تاریخ سے ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے درد سے بھی نہ تو آگاہی رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس بارے میں اس سے زیادہ جاننے کی خواہش جو فوج کی قیادت انہیں بتانے اور ماننے پر تیار کرتی ہے۔ ایسے لائحہ عمل کے ساتھ اب بلوچستان تو کیا ملک کے کسی بھی صوبے کے لوگوں کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔

عمران خان نے بلوچستان کے دورہ کے دوران خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی فقید المثال انتخابی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کو اس صوبے میں دو تہائی اکثریت نے ووٹ دئیے ہیں کیوں کہ انہوں نے صوبے میں عوام کی حالت بدل دی ہے۔ اس دعوے کی حقیقت کو انتخابی کامیابی کے ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔ کیوں کہ جولائی 2018 میں منعقد ہونے والے انتخابات کو ملک کی تاریخ کا بدترین انتخاب قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت سول مارشل لا سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی جس میں سیاسی ہی نہیں تحریر و تقریر کی آزادی بھی محدود کی جاچکی ہے۔ خیبر پختون خوا کی قیادت اور اسے بہبود کے راستے پر گامزن کرنے کا سہرا سر پر سجانے سے پہلے عمران خان کو اپنے اس صوبے میں پختون تحفظ موومنٹ کے سادہ سوالوں کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔ اس تحریک کی نوجوان قیادت بار بار ملک و قوم سے وفاداری کا اعلان کرتی ہے لیکن ملک کی اسٹبلشمنٹ انہیں ’غدار اور دشمن ملکوں کا ایجنٹ‘ قرار دے کر بدنام کرنے اور اس تحریک کو دبانے میں مصروف ہے۔ ان لوگوں کے مطالبات میں نہ ملک دشمنی کی کوئی بات شامل ہے اور نہ وہ قانون سے ماورا کوئی مطالبہ پورا کروانا چاہتے ہیں ۔ ان کا صرف اتنا کہنا کہ ان کے لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ مقدمہ چلائے بغیر جن لوگوں کو غائب کیا گیا ہے اگر ان پر کوئی الزام ہے تو ملک کی عدالتوں میں مروجہ قانون کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ قصور وار کو سزا دی جائے اور بے گناہوں کو آزاد کیا جائے۔ وہ اپنے گھروں میں عزت اور وقار کی زندگی جینے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ان کا صرف اتنا کہنا ہے کہ ان کی آمد ورفت پر ناجائز روک ٹوک کا سلسلہ بند کیا جائے۔ پڑتال کے لئے بنائی گئی چیک پوسٹیں مسمار کی جائیں اور قبائیلی علاقوں کے لوگوں کو سکھ کا سانس لینے دیا جائے۔

اب پاک فوج نے وزیر اعظم کو بتایا ہے کہ وہ خیبر پختون خو امیں اپنے مشن کی کامیابی کے بعد بلوچستان کی طرف توجہ مبذول کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیر اعظم نے سیکورٹی کے لئے فوج کا احسان مند ہونے سے پہلے یہ سوال کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ بلوچستان میں تو سی پیک منصوبہ کے تحت اقتصادی ترقی کے منصوبے شروع ہورہے ہیں۔ وہاں تو اقتصادی بحالی کی وجہ سے روزگار اور خوشحالی کا دور دورہ ہونے والا ہے۔ اب وہاں پر فوج کی تعداد اور نگرانی بڑھانے کا کیا جواز ہے۔ نہ ہی وہ یہ سوال کرنے کا حوصلہ کرسکے کہ بلوچستان اگر غیر ترقی یافتہ ہے یا وہاں کے لوگوں میں وفاق کے بارے میں بد گمانیاں پائی جاتی ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ سیکورٹی فورسز کا کردار ہے۔ ماضی قریب میں عملی طور سے فوج نے ہی بلوچستان کا انتظام سنبھالا ہؤا ہے۔

گو گزشتہ دس برس سے ملک میں جمہوریت کے نئے دور کا آغاز ہؤا ہے لیکن سابقہ دونوں حکومتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اس جمہوریت کی اصلیت کو سب کے سامنے آشکار کرتا ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں سے ’مایوس‘ ہو کر اب کرپشن کا منتر پڑھنے والی تحریک انصاف کو اقتدار سونپا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہی اس نام نہاد جمہوریت کا پردہ چاک کرنے اور بلوچستان کی بہبود کا نعرہ لگانے والوں کو آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہونی چاہئے کہ وفاق میں جس پارٹی کی حکومت قائم ہوتی ہے، بلوچستان میں اسی پارٹی کو شریک اقتدار کرلیا جاتا ہے ۔ یعنی بلوچستان پر جمہوریت کے نام پر اپنے مہروں کی حکومت ہر دور میں قائم رکھی گئی ہے۔ اب عمران خان ایک ایسی ہی حکومت کے ذریعے بدعنوانی ختم کرکے بلوچستان کے عوام کا کلیان کرنےکے نعرے لگا رہے ہیں۔ مرض کو جانے اور اس کا علاج تفویض کئے بغیر ترقی اور خوش حالی کے نعرے اس قدر فرسودہ اور بوسیدہ ہوچکے ہیں کہ کسی کو ان پر اعتبار نہیں رہا ۔ اگر یہ نعرے سچے ہوتے تو آج بلوچستان کے ہر دیہات میں اسکول ہوتے۔ ہسپتالوں اور دیگر بنیادی ضروریات کا اہتمام کیا جاتا اور صوبے کے عوام گوادر میں چینی تسلط اور وفاق کی حکمرانی کے خوف میں مبتلا نہ ہوتے۔

وزیر اعظم نے بلوچستان کے دورہ سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کا جو وظیفہ شروع کیاتھا وہ لاہور میں منعقدہ پریس کانفرنس تک جاری رہا۔ جہاں شہباز شریف کی گرفتاری پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فرمایا کہ ’ شہباز شریف کو نیلسن منڈیلا بنتے دیکھ کر یہ پریس کانفرنس کررہا ہوں‘۔ عمران خان کے اس عاقبت نااندیشانہ یا معاف کیا جائے تو کہا جائے کہ احمقانہ فقرہ سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ وہ دنیا کے ایک عظیم لیڈر کا مذاق اڑا رہے تھے، جمہوریت کو بے مقصد قرار دے رہے تھے یا اپوزیشن لیڈر پر تمسخر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جو قائد ایوان اپوزیشن لیڈر کی عزت کرنے کے لئے تیار نہ ہو ، اس کے تصور جمہوریت پر شدید شبہ کی گنجائش موجود ہے۔ عمران خان نے لاہور میں کی جانے والی باتوں سے ان شبہات کو مضبوط کیا ہے۔

عمران خان کا دعویٰ ہے کہ بدعنوانی کی وجہ سے غیرملکی قرضے ملک میں صرف نہیں ہوتے بلکہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر روانہ کر دیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ جس طرح شہباز شریف کی گرفتاری پر بغلیں بجا رہے ہیں اور بدعنوانوں کو سزا دینے کا اعلان کرتے ہوئے جس طرح نیب کی خود مختاری کا اعلان کیا جارہا ہے، اس سے کرپشن کے خاتمہ سے زیادہ بدعنوانی اور بد انتظامی کی ایک نئی روایت شروع ہونے کا سراغ ملتا ہے۔ عوام کو اس جھوٹ پر ایمان لانے کے لئے راغب کیا جارہا ہے کہ ماضی میں لیا گیا قرضہ منی لانڈرنگ کے ذریعے چند سیاست دانوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہؤا ہے جسے واپس لائے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ یہ جھوٹ نہ صرف موجودہ حکومت کی اقتصادی، انتظا می اور سیاسی ناکامی کا اعلان ہے بلکہ یہ اس کے پاؤں کی ایسی زنجیر بنے گا جس سے نجات حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali