حسن اتفاق سے ناقابل اشاعت قرار پانے والا کالم


 

ہو سکتا ہے یہ محض اتفاق ہو کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 37 حلقوں میں 14 اکتوبر کر ہونے والے ضمنی انتخابات سے قبل سابق وزیر اعلی پنجاب، صدر پاکستان مسلم لیگ ن اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی کو نیب آشیانہ ہاوسنگ منصوبے میں گرفتار کر لے۔ اسے بھی اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کو مسلم لیگ ن اور اپوزیشن جماعتوں پہ صرف 14 ارکان کی برتری حاصل ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی 13 نشستوں پہ ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔

یہ بھی اتفاق ہی ہو سکتا ہے کہ نیب شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنا بھول گیا ہو اور اسے پھر بھی خدشہ ہو کہ ہر طلبی پہ خود پیش ہونے والے سابق وزیر اعلی کہیں مفرور نہ ہو جائیں اس لیے صاف پانی کیس میں انہیں تفتیش کے لیے طلب کر کے آشیانہ ہاوسنگ میں تحویل میں لے لیا جائے، اسے بھی اتفاق سے ہی تعبیرکیا جا سکتا ہے کہ صاف پانی کیس میں چار ارب روپے کی بد عنوانی کا الزام ہونے کے باوجود اس میں تا حال ایسے ٹھوس ثبوت تیار نہیں ہو سکے اس لیے اس مقدمے میں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی کو اپنا مہمان بنانا ضروری سمجھا گیا جس میں بے ضابطگی کی نشان دہی انہوں نے خود اپنے دور حکومت میں کر کے اسے تحقیقات کے لیے انٹی کرپشن کو بھجوایا۔

 یہ بھی حسن اتفاق ہی ہے کہ نیب آرڈیننس 1999 میں پبلک آفس ہولڈر کی تعریف پر پورا اترنے والے کے خلاف 10 کروڑ روپے سے زائد کی بد عنوانی پر نیب تحقیقات کر سکتا ہے لیکن آشیانہ ہاوسنگ منصوبے میں قومی خزانے سے صرف 59 لاکھ روپے کا جرمانہ ٹھیکیدار کو ادا کرنا بھی گردن زدنی ٹھہرتا ہے۔ یہ بھی اتفاق کی تعریف میں ہی آتا ہے کہ بطور صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف ملکی ترقی کے لیے مل کر کام کرنے پہ زور دیتے رہے اور انہوں نے پارٹی کارکنان کو ان کی امنگوں کے باوجود نواز شریف اور مریم نواز کے معاملات میں احتجاج کو اس نہج پہ لے جانے کی اجازت نہ دی جس سے انتشار کی کیفیت پیدا ہو سکتی تھی لیکن اب ان کی اس بھونڈے انداز میں گرفتاری سے ایسے خدشات نئے سرے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔

اسے بھی اتفاق ہی کہا جائے گا کہ شہباز شریف نے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کو سڑکوں پہ لے جانے کی بجائے معاملے کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پہ جمہوری انداز میں حل کرنے کا راستہ اختیار کیا اور بطور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں مثبت اور تعمیری حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کے لیے خود حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن صورتحال کو پھر وہیں پہنچا دیا گیا ہے کہ جہاں اب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں صرف دما دم مست قلندر ہی ہوگا۔

یہ اتفاق ہی کہلائے گا کہ روایت کے مطابق اپوزیشن جماعتیں انہیں پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چئیرمین نامزد کرتی ہیں تاہم حکومت انہیں یہ عہدہ دینے کو تیار نہیں تھی اور اس معاملے پہ کھینچا تانی جاری تھی کہ نیب نے انہیں گرفتار کر کے قضیہ ہی نمٹا دیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ یہ بھی اتفاق ہی تو ہے کہ قومی اسمبلی کے آخری اجلاس کے اختتام پہ وہ قومی امور پہ مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے اپوزیشن کو متحد کرنے کے لیے کبھی پیپلز پارٹی کے رہنماوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو کبھی مولانا فضل الرحمان کے دروازے پہ دستک دے رہے تھے لیکن اب جے یو آئی ف سمیت وہ جماعتیں اپنے  “مطلب” کا احتجاج کرنے کے لیے آزاد ہو چکی ہیں جنہیں شہباز شریف قائل کرتے رہے کہ اس حد کے آگے دوسرے کی ناک شروع ہوجاتی ہے۔

اسے بھی اتفاق ہی سمجھا جائے کہ بطور ایڈمنسٹریٹر جس شہباز شریف کی تعریفیں برطانیہ سے لے کر یورپی یونین اور چین سے لے کر ترکی کی قیادت کرے اوریہ پاکستان کے لیے لائق عزت ہو ، نیب اسی پنجاب اسپیڈ کو حوالات میں بند کر کے دنیا کو پیغام دے کہ پاکستانی قیادت کسی طور لائق تحسین نہیں ہو سکتی۔ یہ اتفاق ہی تو ہے کہ بطور خادم اعلی جس برق رفتاری سے شہباز شریف نے پنجاب میں ترقیاتی منصوبے مکمل کرتے ہوئے قومی خزانے کے اربوں روپے بچائے اسے محض ایک مفروضے کی بنیاد پہ دھر لیا جائے تاکہ ترقی کا خناس ذہن میں رکھنے والے عبرت پکڑیں۔

اسے اتفاق ہی کہا جائے گا کہ قومی احتساب بیورو کے سربراہ چند دن پہلے اس وزیر اعظم سے ملاقات کرتے ہیں جن کے خلاف انہی کا ادارہ ہیلی کاپٹر کیس میں تحقیقات کر رہا ہے اور پھر غیر جانب داری کی مالا جپتے وہ اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیتے ہیں۔ یہ اتفاق ہی تو ہے کہ اس قومی اسمبلی اجلاس کے ختم ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے جس میں اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کے مالیاتی ترمیمی بل پہ سخت تحفظات رکھنے کے باوجود اس کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی اور اگلے دن ہی اس تعمیری کردار کا صلہ اپوزیشن لیڈر کو حراست میں لے کر دے دیا جاتا ہے۔

اسے بھی اتفاق ہی کہتے ہیں کہ نندی پورسمیت کئی مقدمات میں ریفرنس دائر کرنے کے باوجود ملزمان پہ ہاتھ نہیں ڈالا جاتا لیکن مسلم لیگ ن کے صدرکو انکوائری کے مرحلے پہ ہی گرفتار کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے، ان تمام اتفاقات کے باوجود قومی احتساب بیورو کا دعوی ہے کہ وہ بلا امتیاز احتساب پہ یقین رکھتا ہے اور کسی کے خلاف انتقامی کاروائی اور کسی طرح کے ترجیحی سلوک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نیب کو یہ زعم بھی ہے کہ وہ حکومت کی ایما پہ کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بناتا۔

نیب کے ان دعووں کو ان 179 میگا کیسز کے سرسری جائزے سے پرکھتے ہیں جن میں دو دہائیاں گزرنے پر تین سال قبل سپریم کورٹ کی طرف سے سخت ہدایات دئیے جانے کے باوجود معاملات انکوائریوں اور انوسٹی گیشنز تک ہی اٹکے ہوئے ہیں، ان میگا کیسز میں 2 ارب روپے مالیت کا این آئی سی ایل کیس جس کی تحقیقات 2014 سے شروع ہوئیں اور تا حال تفتیش جاری ہے۔ ڈیڑھ ارب مالیت کا ای او بی آئی کیس 2013 سے شروع ہوا اور ابھی تک جے آئی ٹی کی نذر ہے۔ پی ٹی سی ایل، اتصالات اور نجکاری کمیشن کے خلاف 80 کروڑ ڈالر کا 2013 میں شروع ہونے والا مقدمہ تاحال زیر تفتیش، اسٹیٹ بنک ،کے ایس بی اور اسلامی بینک کے حکام کے خلاف 5 ارب روپے کی بد عنوانی کا مقدمہ 2016 سے بدستور زیر تفتیش، ڈی ایچ اے ویلی اسلام آباد کیس 2012 سے تاحال انکوائری جاری، چار ارب روپے مالیت کی بد عنوانی کا این ایل سی کیس 2012 سے انکوائری کے مرحلے میں ، اربوں روپے مالیت کا ریکوڈک کیس ،گزشتہ تین سال سے انکوائری جاری، وزارت ہاوسنگ کا تین ہزار کینالز زمین کی خریداری کا کیس، 1 ارب 56 کروڑ روپے کی بد عنوانی لیکن 2010 سے انکوائری تفتیش میں بھی نہ تبدیل ہو سکی۔

ملٹی پروفیشنل کوآپریٹو سوسائٹی کا 1 ارب 20 کروڑ روپے کا اسکینڈل گزشتہ چار سال سے انکوائری کے مرحلے میں، نیشنل پولیس فاونڈیشن کا 2 ارب 52 کروڑ کا کیس 2013 سے بدستور جاری، 2 ارب 19 کروڑ مالیت کا گرینڈ حیات ٹاور اسکینڈل بدستور انکوائری جاری، ایف بی آر کے سابق چئیرمین عبداللہ یوسف اور دیگر حکام کے خلاف قومی خزانے کو 1 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز نقصان پہنچانے کی تحقیقات بدستور جاری، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف سوہاوہ سے چکوال اور مندرہ سے گجر خان دو رویہ سڑک کی تعمیر کا کیس 2014 سے ابھی تک نقصان کا تخیمینہ ہی نہیں لگایا جا سکا۔ فہرست بہت طویل ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں اس لیے یہاں صرف ایک سوال کہ سالہا سال سے جاری اربوں روپے مالیت کے مقدمات کی تحقیقات کو پس پشت ڈال کر شہباز شریف کو 59 لاکھ روپے کے مقدمے میں گرفتار کرنا بھی کیا محض اتفاق ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).