وزیر اعظم کی لاہور کے صحافیوں سے ملاقات: گفتگو اور تاثرات


یہ تیسرا موقع تھا جب وزیر اعظم عمران خان حکومت سازی کے بعد لاہور آئے اور پنجاب کابینہ کے مسلسل تیسرے اجلاس کی وزیر اعلی کے ساتھ مشترکہ صدارت کی۔ اس سے قبل پنجاب حکومت کی تشکیل اور وزیر اعلی عثمان بزدار کی کابینہ کی حلف برداری کے بعد عمران خان پہلی بار بطور وزیر اعظم لاہور تشریف لائے تھے۔ جبکہ پنجاب کابینہ کے دوسرے اجلاس کے موقع پر بھی وزیر اعظم لاہور آئے۔ آج کے دورے کی خاص بات وزیر اعظم کی صحافیوں سے ملاقات تھی جس کا خود وزیر اعظم نے اپنی خواہش پر انتظام کروایا۔ اس سے قبل دونوں دوروں میں محض پریس ریلیز پر ہی اکتفا کیا گیا تھا مگر اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے موصول ہونے والے پیغام کے مطابق وزیر اعظم صحافیوں (تحریک انصاف کے بیٹ رپورٹرز) سے ملاقات چاہتے ہیں۔

8 کلب ایوان وزیر اعلی میں اس ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ مجھے بھی بذریعہ کال ملاقات کیلئے مدعو کیا گیا۔ ابتدامیں کہا گیا کہ یہ صرف ایک انٹریکشن ہوگا تاہم بعد میں معلوم ہوا وزیر اعظم لمبی چوڑی پریس کانفرنس چاہتے ہیں۔ وزیر اعلی ہاؤس پہنچے تو شام کے 6 بج رہے تھے۔ تقریبا سوا چھے بجے وزیر اعظم کانفرنس روم میں داخل ہوئے۔ سلام کیا، مسکرائے اور پھر مسکراتے ہی بولے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد آج پہلی ملاقات ہے آپ لوگوں سے، مجھے یاد ہے کہ جب میں اپوزیشن میں تھا آپ لوگ میرے ساتھ لاہور میں کیمپین کے دوران بڑی محنت کیساتھ کام کیا کرتے تھے۔ سرسری نظر میں ہاتھوں کے اشاروں کو ساتھ ملاتے ہوئے بولے کہ آپ سب کے چہرے مجھے یاد ہیں جس پر ایک لمحے کیلئے کانفرنس روم میں سجی محفل مسکراہٹوں میں بکھر گئی۔

اسی دوران وزیر اعظم کرسی پر براجمان ہوئے، دائیں جانب وزیر اعلی اور بائیں جانب فواد چودھری اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود بھی بیٹھے۔ گفتگو کے آغاز میں وزیر اعظم نے کہا کہ وہ آج اس لئے وزیر اعلی کے ساتھ آپ لوگوں کے سامنے بطور وزیر اعظم پہلی پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بولے کہ عثمان بزدار انتہائی شریف آدمی ہیں، ان کے بارے میں غلط تاثر پھیلایا جارہا ہے، بولے ہم لوگوں کو بادشاہوں کی عادت پڑ گئی شریف اور ملنسار عثمان اس لئے شاید ہمیں ہضم نہیں ہو رہے۔ وزیر اعظم کی ابتدائی گفتگو سے لگا کہ جیسے وزیر اعظم پنجاب کے وزیر اعلی کے حوالے سے جاری تنقید کو زائل کرنے کیلئے پریس کانفرنس کررہے ہیں۔

اس دوران وزیر اعظم کی جانب سے بارہا اپنا مؤقف دہرایا گیا کہ ان کی ٹیم کو وقت دیا جائے، تبدیلی لائیں گے۔ وزیر اعظم کی گفتگو کا دوسرا حصہ حکومت کو درپیش مسائل تھا۔ پچھلے دس سالہ دور اقتدار کو ہمیشہ کی طرح خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ جتنے حالات آج برے ہیں ماضی میں اتنے کبھی نہ تھے۔ گردشی قرضوں،  کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، بیرونی قرضوں اور سرکاری سرپرستی میں چلنے والے پی آئی اے، ریلویزاور دیگر اداروں پر فکرمند معاشی اشاریے پڑھ کرسنانے لگے۔ قرضوں کی لمبی فہرست۔ ۔ ۔ استفہامیہ انداز میں بولے کہ یہ تمام قرضے کیسے اتریں گے؟ جوابی طور پر خود ہی گویا ہوئے کہ ہم پر تنقید کی جاتی ہے کہ بجلی اور گیس مہنگی کردی۔ بتائیں ہم یہ قرض کے پیسے کہاں سے ادا کریں؟ ہمارے پاس دوسرا طریقہ یہی ہے کہ جن لوگوں نے ملک لوٹا، انہی کی لوٹی دولت واپس لائیں اور ہم یہ سب کررہے ہیں مگر اس سب کا فوری نتیجہ نہیں نکلنے والا۔ وزیر اعظم ملکی معیشت اور قرضوں کے حوالے سے خاصے پریشان نظرآئے۔

ہمارے لئے ہیڈلائنز اس وقت نکل آئیں جب مسائل کا ذکر کرتے کرتے وزیراعظم کو شہبازشریف کی گرفتاری پر یہ کمنٹ دیتے سنا کہ کل میں نے نیلسن منڈیلا کو نعرے مارتے ہوئے دیکھا، قہقہے لگے، سنجیدگی نے محفل میں قدم جمائے تو گویا ہوئے کہ بلاول بھٹو کہتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کرلیا ہے، عمران خان کی جانب سے بلاول کے انداز گفتگو میں ان الفاظ نے سنجیدگی کیساتھ قہقہوں کو پھر سے جگہ دی۔۔۔ پھر ایک دم میاں نواز شریف کے نیب پر الزامات اور نواز زرداری گٹھ جوڑ پر روایتی انداز میں تنقیدی جملے کسنے لگے۔ میں نے عمران خان کو ان دنوں میں بھی کور کیا ہے جب وہ لاہور میں نوازحکومت کے خلاف جلسے جلوس کیا کرتے تھے، آج بطور وزیر اعظم پہلی پریس کانفرنس سننے کو ملی جس میں مجھے خان صاحب کے انداز گفتگو میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ وہی کمٹمنٹس، وہی کرخت اور غیر لچکدار آواز اور انداز گفتگو تھا۔ عمران خان اس حوالے سے کئی سابق وزراۓ اعظم سے الگ معلوم ہوئے۔

گفتگو کے آخری حصے میں سواالات جوابات کا سیشن رکھا گیا، چونکہ سوالات زیادہ اور وقت کم تھا اس لئے مجھ سمیت کئی دوستوں کے سوالات نہ لئے جاسکے۔ فواد چودھری صاحب جس طرف انگلی گھماتے وہیں سے سوال لیا جاتا، یہ قدر تو کم از کم مشترک رہی ہے تمام پاکستانی حکومتوں میں۔۔۔ احتساب کے عمل کی شفافیت اور پرویز مشرف کی وطن واپسی سمیت کئی سوالات میرے ذہن میں بھی تھے جو نہ پوچھے جسکے۔ ایک صحافی دوست کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم بولے کہ کسی کو بھی این آر او نہیں دیا جائے گا۔ کرپشن کیخلاف جاری احتساب پر سخت مؤقف کے ساتھ بندھے رہے۔ باڈی لینگوئج اور اظہار خیال بتا رہا تھا کہ آنے والے دنوں میں کئی مزید بڑے ناموں کے گرد گھیرا تنگ ہونے والا ہے۔ وزیر اعظم کی بیرون ملک پاکستانی اثاثوں کی ریکوری بارے گفتگو سے میرے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ رہا کہ اسحاق ڈار کا نام بھی جلد قیدیوں میں لکھا جانے والا ہے۔ اس حوالے سے برطانیہ اور پاکستان کے درمیان قانونی نکات پر معاملات طے کرنا باقی ہیں۔ بظاہر عمران خان حکومت ڈار کی واپسی بارے کمٹڈ معلوم ہورہی ہے۔

وزیر اعظم نے سوئیٹرزلینڈ اور دبئی کی حکومتوں کیساتھ بھی ایم او یوز سائن کرنے کی کوششوں بارے بتایا۔ لگتا ہے عمران خان اور آصف زرداری کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات چھاننے کو بھی تیار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کو اس سلسلے میں غیر ممالک کی حکومتوں اور خود اندرون ملک سے کتنی مدد ملتی ہے۔

تقریبا ایک گھنٹہ جاری رہنے والی اس پریس بریفنگ میں وزیر اعظم 40 سے زائد منٹس کرپشن اور لوٹی دولت کو واپس لانے کے حوالے سے ہی گفتگو کرتے رہے۔ آخر میں جاتے جاتے وزیر اعلی بزدار کو بھی ایک نیا اعتماد دے گئے، اللہ بھلا کرے ہمارے ساتھی صحافی دوست کا جنہوں نے عثمان بزدار کی پریشانیاں وزیر اعظم تک پہنچائیں اور یوں جوابا وزیراعظم نے آن دی ریکارڈ عثمان بزدار کو جب تک تحریک انصاف کی حکومت ہے وزیر اعلی برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).