خان صاحب سب کچھ چھوڑ گئے ہیں !


آج کل میں یاد ماضی کے عارضے میں بری طرح مبتلا ہوں اور سیاست میں چنداں دلچسپی نہیں اور اس کی بڑی وجہ بوریت ہے۔ شہباز شریف پکڑا گیا،  اس سے پہلے نواز شریف پکڑا گیا تھا،  ان سے بھی پہلے فواد حسن فواد اور احد چیمہ بھی۔ امید ہے خواجہ سعد رفیق بھی دھر لیے جائیں گے۔

یہیں سے اٹھے گا شور محشر، یہیں پہ روز حساب ہو گا

تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ تبدیلی کے انقلاب نے سرمایہ دارانہ جمہوریتوں کے کرتاروں کو زمین بوس کر دیا ہے۔ یونانی المیہ میں بڑے آدمی کو پچھتاوے اور سامع کو اس بڑے آ دمی کے انجام سے خوف اور خود ترحمی کی کیفیت میں مبتلا کر کے اک گونہ تسکین پہنچائی جاتی تھی جسے ادب کی زبان میں کتھارسس اور ہماری زبان میں ٹھنڈ پڑنا کہتے ہیں۔ حکومتوں کے آنے جانے کا سارا چکر ہی ٹھنڈ پڑنے،  ٹھنڈ رکھنے، ٹھنڈ “پانے” کا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت بھی انقلابیوں کو ٹھنڈ ڈال رہی ہے اور ذلتوں کے مارے لوگ ہر نئے تماشے کو نئے پاکستان کی جانب اٹھتا قدم سمجھ رہے ہیں۔ شہباز شریف نے صاف پانی اور آشیانہ میں کچھ کیا ہو نہ ہو، مرغی اور دودھ بیچنے والوں کے حق پر ڈاکہ مارنے کا الزام تو بہرحال ہے۔ چلو ہمیں ٹھنڈ پڑ گئی کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کا بدلہ لے لیا۔ ضمنی الیکشن میں نتائج اوپر نیچے ہو گئے تو پارلیمان میں سٹیٹس کو برقرار رکھا جا سکے گا اور انقلابیوں کو ٹھنڈ پڑ جائے گی۔

اک ٹھنڈ پر موقوف ہے گھر کی رونق

نغمہ تبدیلی نہ سہی نوحہ تبدیلی ہی سہی

میاں صاحب باہر تو آ گئے ہیں اور ایک چپ سی لگ گئی ہے جو کہ لگ ہی جانی تھی لیکن مریم بی بی سے یہ امید نہیں تھی۔ اداروں کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں یا نہیں۔ اگر طے نہیں پائے تو کبھی نہ کبھی پا جائیں گے کیوںکہ کوئی متبادل موجود نہیں اور جو متبادل بیانیہ موجود ہے وہ اب الیکشن افورڑ نہیں کر سکتا۔ عمران خان نے الیکشن کو بہت مہنگا کر دیا ہے۔

تجزیے اپنی جگہ لیکن مستقبل مریم بی بی کا ہے اور جب بھی میں حمزہ شہباز اور بلاول کو دیکھتا ہوں تو یہ خیال اور راسخ ہو جاتا ہے۔ ذلتوں کے مارے لوگوں کا مقدر ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ بار بار ڈسے جاتے ہیں اور ہر بار کسی نئے مسیحا کو ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ بندہ پوچھے مسیحا نہ ہوا، موبائل ہوگیا جو بازار سے مل جائے گا۔ ایک بات ہے جس طرح خان صاحب ملے ہیں ویسے تو لگتا ہے مسیحائی بھی درد میں فوری آرام لانے والی دوا کی طرح ہی ملتی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ مریم صفدر کو لیڈر بنانے کے لیے ساری دنیا سازش کر رہی ہے۔ گو کہ اس وقت جب خان صاحب عقل کل بنے ہوئے ہیں اور ان کی ہر نا پختگی کو ناخدائی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے یہ کہنا کہ مریم صفدر کے لیے راستہ صاف ہو رہا ہے ایک مجذوب کی بڑھ لگے گی لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ مریم صفدر خود سرمایہ دارانہ جمہوریتوں کہ نمائندہ ہے وہ بھی بالکل یہی کچھ کرے گی جو خان صاحب کر رہے ہیں۔ یہ جو پکڑ دھکڑ آپ کو نظر آ رہی ہے،  سب دھوکا ہے۔ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہو گی اور ایک روپیہ حکومتی خزانہ میں نہیں جائے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ چند ججوں،  جرنیلوں اور سیاسی شعبدہ بازوں کی دوکانیں چل جائیں گی۔ کاسمیٹیک تبدیلیوں والی سیاست میں آ پ کو روزانہ کی بنیاد پر کوئی ناٹک چاہیے ہوتا ہے جو ہم جیسوں کو باندھ کر رکھ سکے لیکن عمران حکومت مسلسل کنٹینر سیاست کھیل کر بور کرنے لگی ہے۔

بھاڑ میں گیا خاں صاحب کا vision۔ اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ سیاسی سطح پر زک پہنچانے کے لیے سارا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ خود منہ سے خان صاحب کہتے پھرتے ہیں کہ وائٹ کالر کرائم پکڑنا بہت مشکل ہے۔ بنی گالہ والے گھر سے لے کر بیرونی فنڈنگ کیس تک کسی کو کچھ یاد نہیں حالانکہ خان صاحب نے خود کو احتساب کے لیے سب سے پہلے پیش کیا تھا۔ پہلے پکڑ لو پھر الزام لگاؤ اور پھر ثابت نہ ہو سکے تو ضمانت پر گھر بھیج دو۔ اتنی دیر میں انقلابی قدم بھی اٹھ جائے گا اور احتساب کا غلغلہ بھی مچا رہے گا اور یقین کیجیے غلغلہ بہت ہوتا ہے ہم جیسے ذلتوں کے ماروں کے لیے۔ اس سے زیادہ احتساب کا غلغلہ تو مشرف کے آ نے پر ہوا تھا۔ یاد رہے صرف غلغلہ ہوا تھا اور اب بھی ہو رہا ہے۔

لو سنی گئی ہماری یوں پھرے ہیں دن کہ پھر سے / وہی گوشئہ قفس ہے وہی فصل گل کا ماتم

آج کل میری ملاقات تحریک انصاف کے لوگوں سے رہتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ کمال ہوشیاری سے انہوں نے خود کو ایک Illusion  دھوکہ میں گرفتار کروایا ہوا ہے یعنی عمران خان کی محبت کے مارے اور ماریاں دھرنے کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے کوئی تحریر اسکوائر ہوا تھا۔ احمقانہ سا رومانس باندھ رکھا ہے ان ایک سو چھبیس دن کے ساتھ۔ بتاتے ہیں کہ کیسے ان کے بچوں نے بھی ان کے ساتھ مشکلات کاٹی تھیں۔ انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ جب وہ یہ سب کر رہے تھے تو خان صاحب دوسری بھابی (جو اب راندہ درسگاہ ہو چکی ہیں) کے ساتھ کیف و مستی میں مخمور تھے۔ گھڑے ہوئے جواب ہیں ان کے پاس،  ” جی یہ خان صاحب کا ذاتی معاملہ ہے “. اچھا آ پ تو کہتے تھے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے؟”،  جواب آ تا ہے،  “احتساب ہو رہا ہے، چیخیں نکل رہی ہیں۔ خان صاحب نے کہا تھا رلاؤں گا۔ رلا رہے ہیں”. ہم پوچھتے ہیں کہ جناب آپ تو قوم کو رلا رہے ہیں مہنگائی کر کے۔ جواب حاضر ہے، ” ابھی تو ہم آ ئے ہیں،  تھوڑا وقت دیں”۔ پوچھیے کتنا وقت ؟ بولیں گے، “چالیس سال دیے ہیں آپ نے شریفوں کو “۔ اچھا کیسے کریں گے مہنگائی کا خاتمہ،  کیسے لوٹی ہوئی دولت لائیں گے؟ کیسے دیں گے ایک کروڑ نوکریاں ؟ کیسے نہیں نوازیں گے اپنے لوگوں کو ؟ جواب حاضر ہے،  “جب خان صاحب شوکت خانم ہسپتال بنا رہے تھے تب بھی لوگوں نے یہی سوال اٹھائے تھے۔ خان صاحب جو کہتے ہیں کر گذرتے ہیں “۔

کمال ہے یار ! کوئی دھوکا دے،  زچ کرے، جھوٹ بولے،  حماقتیں کرے میں ناراض نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی بور کرے تو میرا دل چاہتا ہے اس کو جمال گھوٹا پلا دوں۔ عظمیٰ کاردار صاحبہ سے میں نے پوچھا کہ آ پ لوگ ریحام خان کے خلاف عدالت میں کیوں نہیں گئے تو فرماتی ہیں، “خود ہی اپنی موت مر گئے ہی اس کے الزامات ہمیں کیا ضرورت ہے اس کے پیچھے جانے کی۔ ویسے بھی جنہوں نے اسے ہمارے پیچھے لگایا تھا وہ کچھ بگاڑ نہیں سکے”۔ میں نے کہا کہ ابھی تو آپ بڑے زوروں میں ہیں لیکن جب کبھی کمزور پڑے تو میرے جیسا کوئی اٹھ کر embarrassment میں ڈال سکتا ہے کہ جناب دو انچ بھی سچائی ہے یا نہیں ان الزامات میں ؟ بولیں، “نہیں کچھ نہیں ہو گا “۔ میں نے مزید پوچھا کہ بشریٰ بی بی کا کتنا اثر ہے خاں صاحب پر تو کہنے لگیں کہ انہوں نے خان صاحب کو بالکل بدل دیا ہے اور خان صاحب سب کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ میں یہ سنتے ہوئے تھوڑا سا کنفیوژ ہوا کہ کیا چھوڑ گئے ہیں؟ ایس ایم ایس وصول کرنا چھوڑ گئے ہیں یا تنہائی کے زہر کا تریاق لینا چھوڑ گئے ہیں یا اونچی آواز میں میوزک سننا چھوڑ گئے ہیں اور ابھی میں اس کنفیوژن میں ہی تھا کہ عظمیٰ کاردار صاحبہ نے زور دیتے ہوئے واضح طور پر کہا،  “سب کچھ،  سب کچھ چھوڑ گئے ہیں”۔ کون انہیں سمجھائے کہ خان صاحب نے اپنی تنہائی کے خوف سے محفل سجائی تھی جو اب پارٹی آل نائٹ بن چکی ہے۔ عقیدت مند لیڈر کے vision کی افیون پی رہے ہیں۔ پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ آؤ مل کر پکڑ دھکڑ کھیلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).