ایڈورڈ سعید: دانش ور کے اظہارات (1)


\"nasirدانش ور کے اظہارات، ایڈورڈ ڈبلیوسعید کے خطبات کا مجموعہ ہے۔ انھیں 1993 میں بی بی سی ریڈیوپر ریتھ خطبات کے طور پر پیش کیا گیا تھا (بی بی سی نے اپنے پہلے ڈائریکٹر جنرل لارڈ جان ریتھ کی خدمات کے اعتراف میں 1948میں ریتھ خطبات کا آغاز کیا تھا۔ اوّلین خطبات کے لیے برٹرینڈ رسل کو دعوت دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ آرنلڈ ٹائن بی، ایڈورڈ لیچ، جان سرل، وول سوئنکاجیسے معروف مفکرین یہ خطبات پیش کر چکے ہیں )۔ ایڈورڈ سعید (1935۔ 2003) فلسطینی نژادامریکی دانش ور تھے، یعنی دوہری شہریت کے حامل تھے۔ دوہری شہریت، دوہرے تناظر کو ممکن بناتی ہے۔ وطن اور جلاوطنی کا تناظر۔ یہ دوہرا تناظر ہمیں سعید کے نظام فکر کی بنیاد میں کارفرما محسوس ہوتا ہے۔ عالمی تنقید میں جسے سعید کا اہم اضافہ کہا جا سکتا ہے، اسے مابعد نو آبادیاتی تنقیدکا نام ملا ہے۔ نو آبادیاتی مغرب نے کس طور مشرق، اسلام اور افریقا کے ’علم ‘کوطاقت کے حصول کا ذریعہ بنایا؛ مشرق او رمغرب، یا ’ہم ‘اور ’وہ‘ کی تفریق قائم کی، جس میں ’ہم ‘ کو ’وہ‘ پر فوقیت حاصل رہتی ہے، نیز ’ہم ‘ ایک ایسے مرتبے کا حامل رہتا ہے، جہاں سے اسے ’وہ‘ کی من مانی ترجمانی کا اختیار حاصل رہتا ہے۔ مابعد نو آبادتی تنقید کا یہ بنیادی تصور، سعید کے دوہرے تناظر کا مرہون ہے۔ وہ ایک ایسے امریکی عالم تھے، جن کی روح ایک وطن پرست فلسطینی باشندے کی تھی۔ سعید کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی وطن پرستی کو ایک جبلی جذبے تک محدود نہیں ہونے دیا، بلکہ اسے ایک استعارہ بنایا۔ (اگر وہ ایسا نہ کرتے تو غالباً آزادی فلسطین کے ہتھیار بند مجاہد ہوتے)۔ پھیلاﺅ، استعارے کی بنیادی خصوصیت ہے۔ چناں چہ سعید ’نو آبادیاتی تدبیروں، سازشوں سے تارتار وطن کے تجربے ‘کو مشرق و ایشیا میں استعماری حربوں کی تفہیم کا استعارہ بناتے ہیں۔ لہٰذا ان کی آواز فقط ایک فلسطینی عرب کی نہیں رہ جاتی، مشرق و افریقا کی آواز بن جاتی ہے۔ دوسری طرف وہ تفہیم اور اس کے اظہار کے لیے ’مغرب‘ کے علم اور زبان کو بروے کار لاتے ہیں۔ انھوں نے ’وہ‘ کا استغاثہ مغرب کے علم اور مغرب کی زبان میں پیش کیا ہے۔ ان سب باتوں کی بازگشت ان خطبات میں بھی شدت سے سنائی دیتی ہے۔

\"edward_said\"خطبات کے پیش لفظ میں سعید نے انگریزوں کے اس ردّعمل کا ذکر کیا ہے، جو 1992 میں ان کے خطبات کے اعلان کے فوراً بعد ہوا۔ اس ردّعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعید کی ’فلسطینی امریکی شناخت‘ میں فلسطینی عنصر ہی کو برطانوی صحافیوں نے توجہ دی، اور اس حوالے سے طرح طرح کے اعتراضات کا نشانہ بنایا۔ انھیں فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ میں فعال ہونے کا الزام دیا گیا، اور اس بنیاد پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ وہ کسی معتبر پلیٹ فارم پر گفتگو کرنے کے لیے موزوں نہیں۔ بعض نے تو انھیں طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ[ہر تحریر، خطبے میں ]اپنے سوانح کو پیش کرتے ہیں۔ اس کا سیدھا سادھا مطلب تھا کہ انھیں ایک فلسطینی سے کوئی دل چسپی نہیں۔ سنڈے ٹیلی گراف میں انھیں ”مغرب مخالف“ قرار دیا گیا، اور کہا گیا کہ ان کی تمام تحریریں مغرب کو الزام دینے پر مرکوز ہیں، جن میں تیسری دنیا کی تمام برائیوں کا ذمہ دار مغرب کو قرار دیا گیا ہے۔ ایک صحافی نے تودانش ور کے اظہارات کو موضوع بنانے کو غیر انگریزانہ (Un-English) کہا۔ اس تنقیدکے جواب میں سعید نے لکھا ہے کہ ” یہ بڑی حد تک دانش ور کے سلسلے میں برطانوی رویوں کو منکشف کرتی ہے“۔ سعید سماجی رویوں کو فطری نہیں، ایک تشکیل سمجھتے ہیں۔ چناں چہ کہتے ہیں کہ یہ رویے صحافیوں کے ذریعے برطانوی عوام کو ملے ہیں، مگر ان کی تکرار انھیں موجودہ سماجی استناد دیتی ہے۔ گویا جسے برطانوی صحافیوں نے غیر انگریزانہ کہا، وہ انگریزی تہذیب کا کوئی بنیادی عنصر نہیں، بلکہ برطانوی عوام کا وہ رویہ ہے، جسے ذرائع ابلاغ کی مقتدرشخصیتوں نے پیدا کیا ہے۔ سعید عوام اور رائے ساز مقتدر شخصیتوں کے اس رشتے کا تجزیہ نہیں کرتے، جس میں عوام مجہول انداز میں، کسی تنقیدی شعور کے بغیرآرا کو قبول کر لیتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ سعید کی فکر کا محور اقتداری سیاست ہے، جس میں رائے کی تشکیل سے لے کر اس کے اظہار تک کے تمام اختیارات ایک ہی طبقے میں مرتکز ہوتے ہیں۔ سعید اسی طبقے کی حکمت عملیوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اسی رو میں وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ برطانوی صحافی اور عوام مشرق و مغرب کی اسطور (متھ) کے اسیر ہیں۔ سعید کی نظر میں مشرق و مغرب، فکشن ہیں ؛ یہ ایسی” اساطیری تجریدات “ ہیں جو جھوٹ پر مبنی ہیں۔ یعنی مغرب نے اس تفریق کے ذریعے جن باتوں کی بنیاد پر مغرب کو مشرق سے مختلف قرار دیا، وہ باتیں حقیقتاً مشرق میں موجود ہی نہیں ؛ جیسے مشرق کو مذہب کا، اور مغرب کو سائنس و عقلیت کا علم بردار سمجھنا، اورمشرق کی تاریخ میں موجودسائنس و عقلیت پسندی کے واقعات کو مشرق کی اسطور کی تشکیل کرتے ہوئے خارج کرنا۔ سعید نے اپنی کتابوں شرق شناسی (1978) اور ثقافت اور استعماریت (1993) میں ان موضوعات پر تفصیل سے لکھا ہے۔ خطبات کے پیش لفظ میں وہ اس امر کا گلہ کرتے ہیں کہ انھوں نے ان کتابوں میں جو کچھ لکھا، انھیں یکسر نظر انداز کرتے ہوئے، ان پر تنقید کی گئی۔ سعید نے ثقافت اور استعماریت میں جین آسٹن کے ناول Mansfield Parkمیں جہاں آئنٹیگوا (ویسٹ انڈیز کا جزیرہ) میں غلامی اور برطانوی ملکیت کے علاقوں میں گنے کی کاشت سے متعلق کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ جو کچھ آسٹن نے لکھا ہے، کیا وہی کچھ اس کے قارئین سمجھتے ہیں ؟ سعید کی شکایت یہ ہے کہ جین آسٹن پر [برطانوی] لوگوں کی توجہ ہے، مگر اس کے قارئین کو خارج رکھا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آسٹن پر ان کی تنقید کو نہیں پرکھا گیا۔

\"edward8907\"سعید برطانوی صحافیوں کے لیے کہیں دانش ور کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دانش ور کا تصور ایک ایسے شخص کے طور پر کرتے ہیں جس کی عوامی کارکردگی کی نہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے، نہ اس کی کارکردگی کو کسی نعرے، راسخ العقیدگی، پارٹی لائن یا عقیدے (ڈاگما) میں بدلا جاسکتا ہے۔ دانش ور اپنی جماعتی وابستگی، قومی پس منظر، مذہبی وفاداری کے باوجود انسانی بد حالی سے متعلق سچائی کے کڑے معیار سے جڑا رہتا ہے۔ جب کہ برطانوی (ہمارے یہاں کے بھی) صحافی قومی پس منظر اور ادارہ جاتی، مذہبی، نظریاتی وفاداریوں کے پابند نظر آتے ہیں ؛ ایسے لوگوں کے خیالات کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ سعید یہ رائے قائم کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ دانش ور ’سچائی کے کڑے معیار‘ کی پابندی کے باوجود اس راسخ العقیدگی کا شکار نہیں ہوتا، جس کی پیش گوئی کی جاسکتی ہو۔ اس کے یہاں لازماً تشکیک کا عنصر ہوتا ہے جو اسے مسلسل سوال اٹھانے پر مجبور رکھتا ہے۔ حقیقی دانش ور سچائی کے کڑے معیار کا بھی وقتاً فوقتاً جائزہ لیتا رہتا ہے۔ سعید نے دانش ور کے اس تصور پر آگے بھی اظہارِ خیال کیا ہے، لہٰذا مزید بحث آگے آرہی ہے۔

سعید کے ضمن میں برطانوی ذرائع ابلاغ کا رویہ’ شناختوں کی سیاست ‘ کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ کسی سماج میں کسی مفکر کے افکار میں سے کس پہلویا کسی تخلیق کار سے متعلق کس رائے کو اہمیت ملتی ہے؟ ایک مفکر یا تخلیق کار کے یہاں عموماً تنوع ہوتا ہے، (کیوں کہ اگر کوئی تخلیق کار ایک ہی خیال کی مسلسل رٹ لگائے تو اس کی تخلیقیت ہی مشکوک ہوجاتی ہے) مگر اس کے کسی خاص پہلو کو منتخب کر لیا جاتا اور اسے اس کی واحد شناخت ٹھہرادیا جاتا ہے۔ جیسے ٹیگو ر کی ہندوستانی تخلیق کار کی شناخت اور اقبال کی امت مسلمہ کے شاعر کی شناخت۔ چناں چہ ٹیگور کے یہاں ہندوستانی ثقافتی روح کی تلاش کو مرکزی اہمیت دی جاتی اور اقبال کے یہاں امت مسلمہ کی ترجمانی کو۔ ان دو موضوعات کے علاوہ جو کچھ ہے، اسے یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے، یا ان کی من مرضی کی تعبیریں کی جانے لگتی ہیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شخصیات اپنی مخصوص شناختوں کے ساتھ دو کینن، دو عظیم دیوتابن جاتے ہیں، جن کی تقدیس کی حفاظت کا ذمہ بعض بزرجمہر لے لیتے ہیں۔ بحث و گفتگو کا کھلا آزادانہ ماحول، جس سے دانش وری کو فرغ ملتا ہے، اسے دیوتا پرستی اور حفظِ تقدیس محال بنا دیتے ہیں۔ شخصیات کے علاوہ بعض نظریات، آئیڈیالوجیوں کو بھی جب سماج اپنی اٹل شناخت بنالیتے، اور انھیں دیوتا کا مرتبہ تفویض کر دیتے ہیں تودانش وروں کے’مختلف، متبادل، یا متوازی‘ نظریات کے اظہار تک کو محال بنا دیا جاتا ہے۔ (ملازمت سے برخاستگی، کفر کے فتوے، معاشی، جنسی بد عنوانی کے الزامات تو معمولی باتیں ہیں ؛ قتل سے بھی گریز نہیں کیا جاتا)۔ جس صورت حال کا سامنا سعید کوبرطانیہ میں نسبتاً کم مشکل انداز میں کرنا پڑا، اس کی شدید صورتیں ہمارے یہاں موجود ہیں۔ تاہم ’شناختوں کی سیاست‘ کا کھیل جمہوری ملکوں، اور پاکستان جیسے نام نہاد جمہوری ملکوں میں کھیلا جاتا ہے۔

سعید نے پیش لفظ میں اپنے خطبات کے بیش تر نکات کو دہرایا ہے، لہٰذاان پر بحث تو آگے کی جائے گی، تاہم ایک اور نکتہ ایسا ہے جسے انھوں نے خطبات میں پیش نہیں کیا، صرف پیش لفظ میں اس پر مختصر گفتگو کی ہے۔ ا س کا ذکر ضروری ہے۔ جب کوئی دانش ور بے اختیار ہو، مگر افسوس ناک حالات کا سامنا کررہا ہو تو کیا کرے؟ سعید اس کے جواب میں میثل فوکو کے ان تھک تبحر علمی (relentless erudition) کا تصورپیش کرتے ہیں، جس کے تحت مدفون دستاویزات، فراموش شدہ، \"edward-said\"یا ترک کردہ تاریخوں کو کھنگالا جاتا ہے۔ یہ اظہار کے متبادل ذرائع ثابت ہوتے ہیں۔ گویا دانش ور کو کبھی خاموش نہیں ہونا چاہیے۔ اگر وہ اپنے عصر سے متعلق راست اظہار کے سلسلے میں بے بس ہو، موت کے خطرے سے دوچار ہوتو اظہار کا متبادل ذریعہ اختیار کرے۔ اپنے اظہار پر مسلط خاموشی کا مثنیٰ، تاریخ کی خاموش دستاویزات میں تلا ش کرے۔ تاہم یہ اظہار کا متبادل ذریعہ اس وقت بن سکتا ہے، جب یہ حال کی درشتی سے گھبر ا کر ماضی میں پناہ لینے کا وسیلہ نہ بنے؛ خطرے کا سامنے سے مقابلہ کرنے کی بجائے، اوٹ میں جاکر خطرے سے نبرد آزما ہونے کی تدبیر بنے۔ اگر مدفون دستاویزات پر تحقیق، معاصر عہد کے سلگتے ہوئے سوالات یا کم از کم بنیادی نوعیت کے انسانی سوالات سے لاتعلق رہے تو یہ ساری تحقیق ایک بے رس اکیڈمک سرگرمی بن کر رہ جاتی ہے۔ اردو کی ماضی کی دستاویزات سے متعلق تحقیق کا المیہ یہی ہے کہ یہ متبادل دانش ورانہ اظہار نہیں ہے۔ تاہم جدید اردو فکشن نے اس رمز کو پالیا تھا۔ قرة العین حیدر اور نتظار حسین کا فکشن خصوصاً فراموش کردہ ماضی کی ’خاموشی‘ میں اپنے لیے اظہار کے نئے، متبادل اسالیب کی دریافت کرتا ہے؛ داستانی، اساطیری بیانیوں کی علامتیت کو سطحی حقیقت پسندی کا متبادل بنا کر پیش کرتا ہے۔

سعید نے چھ خطبات دیے۔ پہلا خطبہ ’دانش ور کے اظہارات ‘کے عنوان سے ہے، جسے کتاب کا عنوان بھی بنایا گیا ہے۔

پہلے خطبے کا آغاز سعید اس سوال سے کرتے ہیں کہ کیا دانش ور، اعلیٰ طرز پر منتخب لوگوں کا، ایک چھوٹا یا بڑا گروہ ہے؟ دانش ور سے متعلق یہ بنیادی سوال نہیں۔ دانش ور کون ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ اس سوال کے دو جواب اٹلی کے انتونیو گرامشی (1891 – 1937) اور فرانس کے ژولیاں بندا (1867۔ 1956) نے دیے۔ اطالوی مارکسی، سیاسی فلسفی گرامشی (جسے مسولینی نے 1926 تا 1937 قید میں رکھا) نے ’جیل کی ڈائری‘ میں لکھا کہ تمام آدمی دانش ور ہیں مگر تمام لوگ دانش وری کا فریضہ ادا نہیں کرتے، جب کہ ژولیاں بند انے دانش ور کو فیض یافتہ، فلسفی بادشاہوں کا قلیل گروہ قرار دیا جو انسانیت کے ضمیر کی تشکیل کرتے ہیں۔ سعید اپنی بحث کا مدار ان دو مختلف آرا پر رکھتے ہیں جو بڑی حد تک توقع کے خلاف ہے۔ افتتاحی خطبے میں وہ دانش ور سے متعلق نظری بحث نہیں کرتے، جس کی توقع ان کی دیگر تحریروں کے مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔ (مثلاً Begnnings : Intention and Method میں وہ ’اصل‘ کی فلسفیانہ جہت سے بحث کرتے ہیں، یا شرق شناسی میں شرق شناسی کے ڈسکورس پر نظری بحث کرتے ہیں )۔ دانش ور پر نظری بحث کی عدم موجودگی کی بنا پر یہ واضح نہیں ہو پاتاکہ دانش ہے کیا چیز، اور اسے حاصل کیسے کیا جاتاہے؟ ایک انٹیلکچوئل کے پاس علم ہوتا ہے، یا حکمت و دانش؟ بادی النظر میں تو انٹلیکچوئل کے پاس intellect ہے، دانش ( wisdom) نہیں۔ ہمارے یہاں حکیم کا لفظ صاحب ِ حکمت کے معنوں میں رائج رہاہے؛ لفظ دانش ورکا استعمال انٹیلیکچوئل کے معنی میں استعمال ہونا شروع ہوا۔ دانش ور کے رواج نے’ حکیم ‘کے لفظ کو رزمرہ کی لغت سے خارج ہی کردیا۔ البتہ طبِ یونانی کے ماہر کو حکیم کہنے کا رواج اب بھی ہے۔

\"Manhattan,

بعض اوقات حکمت و دانش کو محض علم کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے حکمتِ فرنگ، یا دانش ِ فرنگ۔ بہ قول اقبال : خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِ مدینہ و نجف؛ یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندان ِمغرب کو۔ تاہم ان دونوں ’ اصطلاحوں ‘ میں معانی کا فرق موجود ہے۔ نورللغات کے مطابق ”اصطلا ح میں حکمت عبارت ہے، احوال موجودات کے علم سے جیسا کہ وہ نفس الامر میں ہے “۔ موضوع کے اعتبار سے حکمت کی تین شاخیں بیان کی گئی ہیں : طبعی، ریاضی اور الہیٰ۔ حکمت کو نظر ی اور عملی میں بانٹا گیا ہے۔ اس طورحکمت بڑی حد تک فلسفہ و سائنس کا مفہوم رکھتی ہے۔ جب کہ دانش کا مفہوم، عقل، فہم، دانائی ہے۔ دوسرے لفظوں میں حکمت کی اصطلاح ان کلاسیکی مشرقی علوم کے لیے مستعمل تھی، جنھیں خاص طریق کار کے تحت حاصل کیا جاتا تھا، جب کہ دانش، عام زندگی کے تجربات سے حاصل ہونے والا ’علم‘تھا، اس لیے دانش کا دائرہ وسیع تھا ؛ دانشمند اس شخص کو کہاجاتا تھا، جو زندگی کے مقصدومنتہاسے متعلق ایک ایسی بصیرت رکھتا ہو، جسے اس نے گزران ِ وقت کے ساتھ، گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد، اورزندگی کی اونچ نیچ کے متنوع تجربات کے بعد حاصل کیا ہو۔ ویبسٹرڈڈکشنری میں wisdom کا کا مفہوم اس سے ملتا جلتا ہے: وہ علم جسے زندگی سے متعلق کئی تجربات کے بعد حاصل کیا گیا ہو۔ زندگی کے متنوع تجربات سے متعلق ہونے کی بنا پر، یہ علم اخلاقی جہت کا حامل ہوجاتا ہے۔ اخلاقی جرات ودیانت کا تقاضا دانشمند سے لازماً کیا جاتا ہے، جب کہ کسی خاص علم کے متخصص سے عموماً۔ ہر چند دانشمند کا یہ قدیم تصور ہے، اور اس کی جگہ دانش ور کے نئے تصور نے لے لی ہے، جو زندگی کے محض تجربات پر انحصار نہیں کرتا، بلکہ باقاعدہ تحقیق سے کام لیتا ہے، مگر اخلاقی اقدار کے پاس دارہونے کا مفہوم اب بھی اس سے وابستہ ہے۔ مثلاًدانش وری کا انحصار سچائی کی دریافت اور اظہار پر ہے، یہ دونوں اخلاقی جرات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

گرامشی اور بندا کی دانش ور کی تعریفوں کے تجزیے کے دوران میں اور اس کے نتیجے میں، سعید اپنا نقطہ ءنظر واضح کرتے ہیں۔ گرامشی دانش کو کسی ایک طبقے کا خصوصی استحقاق نہیں سمجھتے۔ ایک مارکسی مفکر کے طور پر وہ دانش کے سلسلے میں طبقاتی تفریق کے قائل نہیں۔ گرامشی کے مطابق ہر آدمی کے پاس فہم و خرد کی صلاحیت ہے جسے وہ استعمال کرتا ہے، تاہم ہر شخص سماج میں دانش ور کا فریضہ (Function) ادا نہیں کرتا۔ سعید گرامشی کی اس رائے کا تجزیہ نہیں کرتے، جس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ وہ اسے درست تسلیم کرتے ہیں۔ سعیدیہ سوال نہیں اٹھاتے کہ کیا دانش ور کا انحصارِ کلی، فہم کی اسی صلاحیت پر ہے جسے تمام لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں بروے کار لاتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب، ہاں میں دینے سے، ایک بڑا سوال ہمارے سامنے منھ پھاڑے کھڑا نظرآتا ہے۔ اگر تمام لوگ دانش ور ہیں تو پھر’تمام لوگ‘ مقتدر طبقوں کی آرا کو مجہول انداز میں کیوں قبول کر لیتے ہیں ؟ حکمران طبقوں کے نظریات، ان کے ذہنوں پر کیوں غلبہ پالیتے، اور ان کی نظروں سے معاشی، فکری، ثقافتی استحصال کی ظاہر و مخفی صورتوں کو کیوں اوجھل کر ڈالتے ہیں ؟ اینگلز کے لفظوں میں لوگ اس ’باطل شعور‘ کا شکارکیوں ہوتے ہیں جوانھیں سرمایہ داریت کی قبیح صورتوں کو پہچاننے اور پھر انھیں مسترد کرنے کے ناقابل بنا دیتا ہے؟ خود گرامشی کا اجارہ داری کا نظریہ کہتا ہے کہ پولیٹیکل سوسائٹی کے نظریات، میڈیا، جامعات اور ثقافتی اوضاع کے ذریعے سول سوسائٹی پراجارہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جہاں تک دانش ور کوعوام سے الگ، ممتازسماجی گروہ قراردینے کا تعلق ہے، تواسے ہم گرامشی کے لفظوں میں جھوٹا (اسطور) کَہ سکتے ہیں، کیوں کہ اس سے ایک طرف مخصوص علم کے سلسلے میں مخصوص طبقے کی اجارہ داری قائم کرنے کا شائبہ ہوتا ہے، اور دوسری طرف عوام اور دانش ور میں فاصلے کی وہی دیوار اٹھانے کی ’حکمت عملی‘ نظر آتی ہے، جو بادشاہوں، نو آبادیاتی آقاﺅں اور غلاموں کے بیچ کھڑی کی جاتی ہے، تاکہ بادشاہ اور آقا کی ہر بات فرمان سمجھی جائے۔ لیکن جہاں تک ہر شخص کے دانش ور ہونے کا سوال ہے تو گرامشی کی دلیل بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ چوں کہ تمام لوگ کوئی ایک زبان بولتے ہیں، اور شاعری زبان ہی میں ہوتی ہے، ا س لیے تمام لوگ شاعر ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ جس طرح شاعری میں زبان کا خاص استعمال (استعاراتی) ہوتا ہے، اسی طرح دانش ور ی میں بھی فہم و خرد کی صلاحیت خاص انداز (یعنی سوال اٹھانے، واضح رائے قائم کرنے اور اس کا بے خوف اظہار کرنے) میں بروے کار آتی ہے۔ بلاشبہ فہم و ادراک کی صلاحیت پر کسی ایک طبقاتی یا صنفی گروہ کا اجارہ نہیں، مگر محض اس صلاحیت کی موجودگی کسی کو دانش ور ثابت نہیں کرتی۔

\"edwarefault\"یہاں ہمیں ابن رشد کا خیال آتا ہے۔ انھوں نے لوگوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا تھا۔ ”پہلا جو سب سے بڑا ہے، ان لوگوں کا ہے جو منبر پر سے دیے جانے والے وعظ سن سن کر مذہبی عقائد پر ایمان رکھنے لگتے ہیں۔ خطابت کے زور سے ان کو جس طرف بھی چاہیے موڑا جاسکتا ہے۔ یہ سادہ ذہن راسخ العقیدہ لوگوں کا طبقہ ہے۔ [اسی طبقے سے خود کش بمبار پیدا ہوتے ہیں۔ ن ع ن] دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے، جن کی مذہب کے بارے میں جو سمجھ بوجھ ہے، اس کا دارومدار کچھ تو استدلال پر ہے، لیکن زیادہ تر ان مقدمات پر جن کو بے چوں و چرامان کر استدلال آگے بڑھتا ہے۔ یہ طبقہ مدرسی علما اور متکلمین کا ہے۔ تیسرا اورآخری طبقہ جو ان سب سے چھوٹا اور مختصر ہے، اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو مذہب کی عقلی سمجھ بوجھ رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان کے عقائد کی بنیاد ان مقدمات پر ہوتی ہے جن کا بہت اچھے طریقے سے تجزیہ کیا جا چکا ہوتا ہے، اور وہ ثابت ہو چکے ہوتے ہیں “۔ (محمد کاظم، مسلم فکر و فلسفہ، ص 952)۔ تیسرے طبقے کو ابن رشد فلاسفہ کہتے ہیں، اور آج کی اصطلاح میں ہم انھیں دانش ور کَہ سکتے ہیں۔ فلاسفہ کی طرح دانش وروں کا طبقہ بھی مختصر ہوتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہ طبقہ خصوصی طور پر فیض یافتہ ہے، بلکہ اس لیے کہ مذہبی مقدمات یا سماجی و ثقافتی روشوں کا عقلی تجزیہ کرنے کے لیے جس محنت، ارتکازِ توجہ، مشکل سوالات اٹھانے کی ضرورت ہے، اکثر لوگ اپنی طبعی کاہلی یامصلحت پسندی کی وجہ سے، اس پر آمادہ نہیں ہوتے۔

سعید گرامشی کی رائے کے دوسرے حصے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ دو قسم کے لوگ دانش وری کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ روایتی دانش ور اور تنظیمی (جن کے لیے گرامشی Organicکی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ) دانش ور۔ سعید گرامشی کے حوالے سے واضح کرتے ہیں کہ ”روایتی دانش وروں میں اساتذہ، پادری اور وہ منتظمین ہیں جو نسل در نسل ایک ہی کام کیے چلے جاتے ہیں، (ابن رشد کی وضاحت کی رو سے یہ لوگ عوام ہی کا ایک طبقہ ہیں، دانش ور نہیں ) جب کہ تنظیمی دانش ور طبقات یا تنظیم سے براہ راست وابستہ ہوکر زیادہ طاقت اور زیادہ اختیار حاصل کرتے ہیں۔ سرمایہ دار اور تاجر اپنے ساتھ صنعتی ماہرین، سیاسی معیشت کے متخصصین، نئے کلچر اور نئے قانونی نظام کے منتظمین تخلیق کرتا ہے“۔ سعید کے نزدیک گرامشی نے سرمایہ دارانہ کلچر میں دانش ور کے کردار کی صحیح تشخیص کر لی تھی، مگر بِندا نے دانش ور کا قدامت پسندانہ تصور پیش کیا ہے۔

(جاری ہے)

[دانش ور کے اظہارات (Representations of the Intellectual) ونٹاژ بکس، نیو یارک سے 1994 میں پہلی مرتبہ شایع ہوئی۔ اس تحریر میں کتاب کا پہلا ایڈیشن ہی سامنے رکھا گیا ہے۔ ن ع ن]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments