ضمنی انتخاب بھی فوج کی نگرانی میں ہوں گے؟


پاکستان کا سب سے منظم ادارہ فوج ہے، اس کی پیشہ ورانہ مہارت عالی شان ہے، اس کا داخلی اتحاد قابلِ رشک ہے۔ افواجِ پاکستان کی یہ خوبیاں وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ پاک فوج کے وہ وظائف ہیں جن پہ ملک کے اندر اور باہر ایک ہی رائے ہے۔پاکستان کے باقی تمام ادارے کمزور ہیں، پارلیمان فانی ہے، ستّر برس کے دوران کبھی ہے، کبھی نہیں ہے، اور جب ہوتی بھی ہے تو اس میں تنظیم، اتحاد اور ایمان کی کمی نظر آتی ہے۔ پاکستان میں عدلیہ کا سفر بھی نشیب ونشیب کی کہانی ہے، نظریہ ضرورت اور پی سی او اس ادارے کے سات عشرے کھا گئے۔ احتساب کے دوسرے ادارے بھی اپنا اعتبار جمانے میں ناکام رہے، محکمہ مال سے پولیس تک سب کا یہی حال ہے، کوئی ادارہ بھی ادارہ نہیں بن سکا۔ حتیٰ کہ فوج بھی اپنے پینتیس سالہ براہِ راست اقتدار کے دوران ان اداروں کا کچھ نہیں’ بگاڑ‘ سکی، مارشل لاز کے دوران بھی یہ ادارے قانون اور قواعد کا احترام نہ سیکھ سکے۔ قصہ مختصر، ملک میں ادارہ کل بھی ایک تھا، آج بھی ایک ہے۔

اس صورت حال میں قوم کا رویہ اپنی افواج کی طرف کیسا ہونا چاہیے؟ جیسا والدین کا بارہ بیٹیوں کے اکلوتے بھائی کی طرف ہوتا ہے؟ بلا شبہ، قوم کو اپنی فوج کو ہر لحاظ سے مستحکم بنانا چاہیے اور ہر نوع کے تنازع سے دور رکھنا چاہیے۔ حب الوطنی کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہم فوج کو سیاست کے بے ڈھب میدان سے دور رکھیں، اسے ملکی سیاست میں فریق بنانے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں، قوم کو اپنی فوج کے احترام کے ضمن میں یک سُو رکھیں۔ اگر پاکستان کے پاس ایک ہی ادارہ ہے تو اس کی غیر متازع ساکھ کی حفاظت کا انتظام بھی غیر معمولی ہونا چاہیے۔ افواجِ پاکستان بطور اِدارہ خود بھی اس مسئلے کی حساسیت کا بہ خوبی ادراک رکھتی ہیں، اور اسی لئے خود کو ہر ایسے معاملے سے دور رکھتی ہیں جو ان کی غیر جانب دارانہ حیثیت کو متاثر کر سکتا ہو۔

پاکستان الیکشن کمیشن نے آئین پاکستان کے تحت دئیے گئے اختیارات کے تحت پچیس جولائی 2018 کے انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لئے افواجِ پاکستان کی خدمات حاصل کیں جس کے نتیجے میں تقریباً تین لاکھ پچھتّر ہزار فوجیوں نے الیکشن کے دوران ملک کے طُول و عرض میں پھیلے ہزاروں پولنگ اسٹیشنز پر سکیورٹی کے فرائض انجام دیے۔ فوج نے اپنے فرائض پوری دیانت داری اور مستعدی سے ادا کئے، اور پولنگ کے دوران پاکستان بھر کے کسی پولنگ اسٹیشنز سے بھی لاقانونیت، فائرنگ یا بہ زورِ بندوق ووٹوں کے ڈبے اُٹھائے جانے کی شکایت موصول نہیں ہوئی۔

لیکن اُس کے بعد کیا ہوا؟ بلا استثنا جو جو الیکشن ہارا، اُس نے مرتّب دھاندلی کا الزام لگایا اور فوج کے دامن کو بھی آلودہ کرنے کی کوشش کی، سوشل میڈیا پر سچے جھوٹے کئی کلِپس چلائے گئے جن میں وردی پوش نوجوانوں کو کئی ایسے مشاغل میں مصروف دکھایا گیا جن کا بہرحال سکیورٹی امور سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس فوٹیج سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ تازہ ہے یا کسی پرانے انتخاب کی یادگار، کردار حقیقی ہیں یا ایکٹر۔ اس طرح کے لغو الزامات کے نتیجے میں دُنیا بھر کے میڈیا نے کیچڑ اُچھالنے کی کوشش کی اور لغو تر الزامات عائد کئے گئے۔ ہر محبِ وطن پاکستانی اس صورت حال پہ مضطرب پایا گیا۔ اُس روز ہمیں بطور قوم عہد کرنا چائیے تھا کہ ہم آئندہ اپنی فوج کو کسی ایسے کام میں نہیں اُلجھائیں گے جس پہ کسی کو اُنگلی اُٹھانے کا موقع مل سکے۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے تھا کہ ہم تھوڑی بہت دھاندلی برداشت کر لیں گے لیکن اپنی فوج کو کسی تنازع میں نہیں پھنسائیں گے، ہم پولیس، ایف آئی اے، ریلوے، پوسٹل سروس، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنس دانوں، کسی سے بھی الیکشن کروا لیں گے، لیکن اپنی افواج کو کسی قیمت پہ اس دلدل میں نہیں اُتاریں گے۔ کیوں کہ فوج کا غیر متنازع تشخص پاکستان کی بطور ریاست بقا کے لئے مبالغہ کی حد تک ضروری ہے۔

 1965میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان ہونے والاپاکستان کی تاریخ کا پہلا صدارتی انتخاب فوج کی نگرانی میں منعقد ہوا۔پھر ستّر کا انتخاب بھی فوج کے سائبان تلے ہوا۔ اُس کے بعد سے سوائے 1977ء کے عام انتخابات کے ہر جنرل الیکشن فوج کی زیر نگرانی ہوا، اس میں ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ریفرنڈم بھی شامل کر لیجیے۔ ان سب انتخابات اور ریفرنڈم کی شفافیت ہارنے والوں کو مطمئن نہ کر سکی۔ پھر بھی بطور قوم ہم اپنی فوج کو بار بار اس کارِ بے ثمر میں گھسیٹ لیتے ہیں۔

چودہ اکتوبر کو ملک بھر میں گیارہ قومی اور چھبیس صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ضمنی انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ ضمنی الیکشن فوج کی زیر نگرانی ہوں گے۔ کوتاہ نظری کی حد ہو گئی!

حدیث نبوی ہے، تہمت کی جگہ سے بچو۔ ہمیں اس حدیث پہ دل و جان سے عمل کرنا چاہیے۔ قوم کو ہم آواز ہو کر تمام مقتدر قوتوں سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ پاک فوج کو بازارِ سیاست کے تنازعات سے دور رکھا جائے۔ پاکستان میں ایک ہی تو ادارہ ہے، منظم اور پیشہ ور اور غیر جانب دار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).