’سعودی عرب کو صحافی کی گمشدگی کی بھاری قیمت چکانا ہو گی: امریکی سینیٹر


جمال خاشقجی

خدشہ ہے کہ جمال خاشقجی کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے کے اندر قتل کر دیا گیا ہے

امریکہ کی رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنزی گریم نے صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس میں سعودی عرب کا ہاتھ ہوا تو اسے بھاری قیمت چکانا ہو گی۔

جمال خاشقجی گذشتہ ہفتے استنبول میں سعودی کونسلیٹ میں جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ وہ امریکی شہری ہیں اور انھوں نے گذشتہ سال کئی ایسے مضامین لکھے تھے جن میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقید کی گئی تھی۔

لنزی گریم نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’اگر سعودی حکومت نے کوئی غلط کام کیا تو یہ امریکہ سعودی عرب تعلقات کے تباہ کن ہو گا، اور اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، معاشی بھی اور دوسری بھی۔’

اسی بارے میں

سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول سے لاپتہ

ترک حکام کا کہنا ہے کہ خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کر دیا گیا ہے۔ سعودی حکومت نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ عمارت سے چلے گئے تھے، تاہم انھوں نے اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش نہیں کی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پیر کو سعودی عرب کی حکومت کے مخالف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے اچانک غائب ہو جانے پر تشویش ظاہر کی ہے۔

صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کہا: ‘مجھے تشویش ہے۔ میں اس بارے میں سننا نہیں چاہتا۔ امید ہے وہ اس سے نکل آئیں گے۔’

جمال خاشقجی

خاشقجی دو اکتوبر کے بعد سے لاپتہ ہیں

جمال خاشقجی منگل کو ایک ترک خاتون خدیجہ چنگیز سے شادی سے پہلے چند دستاویزات حاصل کرنے سعودی قونصل خانے گئے تھے۔ اس کے بعد سے ان کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔

امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ باب کورکر نے کہا: ‘میں نے جمال کی گمشدگی کا معاملہ سعودی عرب کے سفیر ساتھ اٹھایا ہے اور ہم مزید معلومات کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم کسی بھی ایسے ملک کو جواب دیں گے جو اپنے ملک سے باہر صحافیوں کو نشانہ بناتا ہے۔’

جمال خاشقجی نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر رکھی تھی اور وہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرتے تھے۔

ماضی میں خاشقجی نے سعودی شاہی خاندان کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا تھا لیکن وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی حالیہ اصلاحات اور سنہ 2030 ویژن کے تحت ملک کو جدید بنانے کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

خاشقجی الوطن نامی اخبار کے سابق مدیر بھی رہے، اس کے علاوہ وہ بی بی سی کے سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں بنائے جانے والے پروگراموں کے لیے کنٹری بیوٹر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔

سعودی حکومت نے گذشتہ سال اپنے ناقدین اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تو جمال خاشقجی امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp