ترکی میں لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کون ہیں؟


جمال خاشقجی

سعودی امور پر ماہرانہ رائے رکھنے کی حیثیت سے جمال خاشقجی بین الاقوامی سطح پر مختلف نیوز چینلز کو مستقل طور پر اپنی خدمات فراہم کرتے رہے

سعودی عرب کے معروف صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو شادی کے دستاویزات لینے کے لیے استنبول میں واقع اپنے ملک کے سفارت خانے گئے اور ترکی کی پولیس کے مطابق وہ وہاں سے پھر واپس نہیں نکلے۔

استنبول میں حکام کا کہنا ہے کہ سفارتخانے کی چاردیواری میں انھیں مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا لیکن سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ صحافی خاشقجی سفارتخانے سے نکل گئے تھے۔

ایک زمانے میں خاشقجی سعودی عرب کے شاہی خاندان میں مشیر ہوا کرتے تھے لیکن پھر وہ تیزی سے سعودی حکومت کی نظرِ عنایت سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ گذشتہ سال سے وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگے۔

یہاں ہم ان کے کریئر اور ان واقعات پر روشنی ڈال رہے جو بالاخر پر ان کی گمشدگی کا باعث بنا۔

جمال خاشقجی سنہ 1958 میں مدینہ میں پیدا ہوئے اور انھوں نے امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی تھی۔

اسی بارے میں

سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول سے لاپتہ

جمال خشوگی کو سعودی سفارت خانے میں قتل کیا گیا: ترکی

جمال خاشقجی:’گمشدگی میں سعودی ہاتھ ہوا تو بھاری قیمت چکانا ہو گی‘

اس کے بعد وہ سعودی عرب لوٹ آئے اور ایک صحافی کے طور پر سنہ 1980 کی دہائی میں اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے ایک مقامی اخبار میں سوویت روس کے افغانستان پر حملے کی رپورٹنگ سے اپنی صحافت شروع کی۔

اس دوران انھوں نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر قریب سے نظر رکھی اور سنہ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں کئی بار ان سے انٹرویو کیا۔

معروف صحافی

اس کے بعد سے انھوں نے خطۂ عرب میں رونما ہونے والے دوسرے اہم واقعات کی رپورٹنگ بھی کی جن میں کویت کے معاملے پر ہونے والی خلیجی جنگ بھی شامل تھی۔

سعودی قونصلیٹ

ترک حکام کا کہنا ہے کہ استنبول میں سعودی سفارتخانے کی چاردیواری میں انھیں مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا لیکن سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ صحافی خاشقجی سفارتخانے سے نکل گئے تھے۔

سنہ 1990 کی دہائی میں وہ پوری طرح سعودی عرب منتقل ہو گئے اور سنہ 1999 میں وہ انگریزی زبان کے اخبار ‘عرب نیوز’ کے نائب مدیر بن گئے۔

سنہ 2003 میں وہ ‘الوطن’ اخبار کے مدیر بنے لیکن عہد سنبھالنے کے دو ماہ کے اندر ہی انھیں ایک کہانی شائع کرنے کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔ اس میں سعودی عرب کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

برطرفی کے بعد پہلے لندن اور پھر واشنگٹن منتقل ہو گئے جہاں وہ سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف شہزادہ ترکی کے میڈیا مشیر بن گئے۔

اس کے بعد وہ سنہ 2007 میں پھر الوطن میں واپس آئے لیکن تین سال بعد مزید تنازعات کے بعد انھوں نے اخبار کو چھوڑ دیا۔

سنہ 2011 میں پیدا ہونے والی عرب سپرنگ تحریک میں انھوں نے اسلام پسندوں کی حمایت کی جنھوں نے کئی ممالک میں اقتدار حاصل کیا۔

سنہ 2012 میں انھیں سعودی عرب کی پشت پناہی میں چلنے والے العرب نیوز چینل کی سربراہی کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس چینل کو قطری نیوز چینل الجزیرہ کا حریف کہا جاتا ہے۔

لیکن بحرین میں قائم کیا جانے والا نیوز چینل سنہ 2015 میں اپنے آغاز کے 24 گھنٹوں کے اندر ہی بحرین میں حزب اختلاف کے ایک معروف رہنما کو مدعو کرنے کے سبب بند کر دیا گیا۔

سعودی امور پر ماہرانہ رائے رکھنے کی حیثیت سے جمال خاشقجی بین الاقوامی سطح پر مختلف نیوز چینلز کو مستقل طور پر اپنی خدمات فراہم کرتے رہے۔

سنہ 2017 کے موسم گرما میں وہ سعودی عرب چھوڑ کر امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔

انھوں نے واشنگٹن پوسٹ اخبار کے اپنے پہلے کالم میں لکھا کہ کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ انھوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی ہے کیونکہ انھیں گرفتار کیے جانے کا خوف ہے۔

انھوں نے کہا کہ درجنوں افراد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں بظاہر مخالفین پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں حراست میں لیے گئے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان ملک میں اقتصادی اور سماجی اصلاح کے حوصلہ مندانہ پروگرام کی سربراہی کر رہے ہیں۔

انھوں نے سعودی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ انھوں نے عربی اخبار ‘الحیات’ میں ان کا کالم بند کروا دیا اور انھیں اپنے 18 لاکھ ٹوئٹر فالوورز کے لیے ٹویٹ کرنے سے اس وقت روک دیا گیا جب انھوں نے سنہ 2016 کے اواخر میں اپنے ملک کو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ‘والہانہ طور پر گلے لگانے’ کے جذبے کے خلاف خبردار کیا تھا۔

انھوں نے لکھا: ‘میں نے اپنا گھر، اپنی فیملی، اپنا کام سب چھوڑا اور میں اپنی آواز بلند کر رہا ہوں۔ اس کے برخلاف کام کرنا ان لوگوں کے ساتھ غداری ہوگی جو جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ میں بول سکتا ہوں جبکہ بہت سے لوگ بول بھی نہیں سکتے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ ہم سعودی اس سے بہتر کے حقدار ہیں۔’

ایک بچی جمال خاشقجی کی تصویر کے ساتھ

جمال خاشقجی نے اپنے آخری کالم میں یمن میں سعودی عرب کی شمولیت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا

اپنی تحریروں میں انھوں نے سعودی حکومت پر کریک ڈاؤن میں اصل انتہا پسندوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا اور ولی عہد شہزادہ کا روسی صدر ولادمیر پوتن سے موازنہ کیا۔

ان کا آخری کالم 11 ستمبر کو شائع ہوا تھا اور گذشتہ جمعے کو اخبار نے ان کی گمشدگی کو اجاگر کرنے کے لیے ایک خالی کالم کی اشاعت کی ہے۔

مسٹر خاشقجی کو منگل کے بعد اس وقت سے نہیں دیکھا گیا ہے جب وہ طلاق کے سرکاری دستاویز لینے کے لیے استنبول میں سعودی قونصل خانے گئے تاکہ وہ ایک ترکی خاتون سے شادی کر سکیں جن سے ان کی منگنی ہوئی تھی۔

ان کی منگیتر ہاتف چنگیز نے کہا کہ انھوں نے قونصل خانے کے باہر گھنٹوں ان کی واپسی کا انتظار کیا لیکن وہ نہیں لوٹے۔

انھوں نے بتایا کہ اس عمارت میں داخل ہونے سے پہلے ان کے موبائل فون کو رکھوا لیا گیا اور انھوں نے اس سے قبل اپنی منگیتر کو بتایا تھا کہ اگر وہ نہ لوٹیں تو وہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ایک مشیر سے رابطہ کریں۔

ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں انھیں قونصل خانے کے احاطے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے اور انھوں نے وہاں داخلے کی اجازت طلب کی ہے جبکہ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔

جمال خاشقجی نے اپنے آخری کالم میں یمن میں سعودی عرب کی شمولیت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp