ہاتھرس گینگ ریپ: اترپردیش کی حکومت اور پولیس کے کردار پر سوالات


نئی دہلی۔ بھارت میں ان دنوں 19 سالہ خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے افسوس ناک واقعے کی انسانی حقوق اور غیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے بھی منگل کو سماعت کی اور ریاستی حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔

متاثرہ خاتون کا تعلق ایک دلت خاندان سے تھا جنہیں 14 ستمبر کو چار افراد نے اس وقت جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جب وہ ایک قریبی کھیت میں اپنی گائے کے لیے گھاس کاٹنے گئی تھیں۔

ملزمان نے خاتون کو بری طرح تشدد کا بھی نشانہ بنایا تھا جس کے باعث ان کی زبان کٹ گئی تھی، ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا تھا جب کہ ان کا گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی تھی جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔

متاثرہ خاتون کو آٹھ دن بعد 23 ستمبر کو ہوش آیا تو انہوں نے ملزمان کے نام بتائے جن کا تعلق ان کے گاؤں سے ہی تھا۔ تشدد کے باعث خاتون کا جسم مفلوج ہو چکا تھا اور بعد ازاں 29 ستمبر کو انہوں نے دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں دوران علاج دم توڑ دیا تھا۔

خاتون کی موت کے بعد پولیس ان کی لاش زبردستی ریاست اترپردیش میں واقع ان کے آبائی شہر ہاتھرس لے گئی تھی اور اہل خانہ کی مخالفت اور عدم شرکت کے باوجود صبح کے تقریباً تین بجے ان کی آخری رسومات بھی ادا کردی تھیں۔

ریاست اترپردیش کی پولیس نے متاثرہ خاتون کے گاؤں جانے والے راستوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے سیل کر رکھا ہے۔

واقعے کے بعد سے بھارت میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جب کہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات، ہانگ کانگ، جاپان، نیپال، نیدر لینڈز، سوئیڈن اور سلووینیا سمیت کئی ملکوں کے انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

مذکورہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکنان نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بھارتی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت میں نظم و نسق کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

بیان کے مطابق ریاست میں خواتین اور دلتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہو گیا ہے اور پولیس کو لامحدود اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

بیان میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہاتھرس واقعے کے بعد بھی ریاست کے دیگر علاقوں بشمول بلرام پور، بلند شہر، میرٹھ، اعظم گڑھ اور بھدوہی وغیرہ میں دلت خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور گینگ ریپ کے مزید واقعات پیش آ رہے ہیں۔

دلت برادری کی ایک تنظیم ’امبیڈکر سماج پارٹی‘ کے صدر بھائی تیج سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ واقعہ شودروں (نچلی ذات کے ہندوؤں ) پر اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے صدیوں سے کیے جانے والے مظالم کا ایک مظہر ہے۔

ان کے بقول اس واقعے کے چاروں ملزمان اونچی ذات کے ہندو ہیں۔ تیج سنگھ نے الزام عائد کیا کہ ملزمان کے تعلقات وزیر اعظم نریندر مودی اور ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ ہیں اور وزیر اعلیٰ اس واقعے میں براہ راست ملوث ہیں۔

تیج سنگھ کے بقول پولیس نے متاثرہ خاتون کی لاش جلا دی تاکہ تمام ثبوتوں کو مٹا دیا جائے اور اسی لیے ان کے خیال میں اتر پردیش کی حکومت اور پولیس سازش کرنے اور ثبوت مٹانے کی مجرم ہے۔

تیج سنگھ سمجھتے ہیں کہ حزب اختلاف کی جماعت کانگریس اس واقعے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

لیکن ایک سینئر کانگریسی رہنما اور پارٹی کے سابق نیشنل سکریٹری انیس درانی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

انیس درانی کے بقول اگر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے اس معاملے کو نہ اٹھایا ہوتا تو آج دنیا بھر سے اس کی مذمت نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے کوئی سیاسی جماعت آواز بلند نہیں کر رہی۔ کانگریس نے اس معاملے کو بلا خوف و خطر اٹھایا اور اب بھی اس کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔

کانگریس رہنما نے کہا کہ میڈیکل ضابطے کے مطابق جنسی زیادتی کی تصدیق کے لیے متاثرہ خاتون کا سیمپل 96 گھنٹے کے اندر لے لیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن اس واقعے میں 11 روز بعد سیمپل لیا گیا۔ ان کے بقول اب پولیس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ مذکورہ خاتون کے ساتھ گینگ ریپ نہیں ہوا۔

ادھر خاتون سے زیادتی کے واقعے کے خلاف آگرہ میں والمیکی برادری سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار سے زائد سرکاری خاکروب 30 ستمبر سے ہڑتال پر ہیں۔ خیال رہے کہ متاثرہ خاندان بھی والمیکی برادری سے تعلق رکھتا ہے۔

اتر پردیش کی پولیس نے دفعہ 144 اور ’ایپیڈیمک ڈزیز ایکٹ‘ کی مبینہ خلاف ورزی پر راہول اور پرینکا گاندھی اور دلتوں کی ایک تنظیم ’بھیم آرمی سینا‘ کے صدر چندر شیکھر آزاد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

البتہ ہفتے کو راہول اور پرینکا کے ہاتھرس جانے کے دوران نوئڈا کی پولیس کی جانب سے پرینکا کے ساتھ نازیبا سلوک کرنے پر پولیس نے معافی مانگ لی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔

یاد رہے کہ ایک مرد پولیس اہلکار نے پرینکا گاندھی کے کندھے کے پاس ان کا کرتا مٹھیوں میں جکڑ کر انہیں روکنے کی کوشش کی تھی۔

دریں اثنا ’ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا‘ نے ایک بیان میں میڈیا کو متاثرہ خاتون کے گاؤں جانے سے روکنے پر ریاستی حکومت اور پولیس کے رویے کی مذمت کی ہے۔

اتر پردیش کی پولیس نے دو روز تک میڈیا کو متاثرہ خاتون کے گاؤں جانے اور اس کے خاندان سے ملنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ صحافیوں کو متاثرہ خاندان سے ملنے سے روکنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے مذمت بھی کی گئی تھی۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa