خبرناک: وہ ساتھی جو لالہ و گل میں پنہاں ہو گئے


میں ستمبر 2011 سے پروگرام خبرناک پروڈیوس کر رہا ہوں اور ان سات برسوں میں پروگرام نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے، پذیرائی دیکھی، تنقید بھی سنی، انوکھے تجربات بھی ہوئے، بہت لوگ آئے گئے، کئی مواقع پر سوچا گیا کہ اب پروگرام بچنے والا نہیں کیونکہ فلاں چلا گیا فلاں چلا گیا وغیرہ وغیرہ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ٹی وی میں بندے نہیں کرافٹ بڑا ہوتا ہے اور ہر کرافٹ میں وقت کے ساتھ پیشکش، مواد اور فکر بدلتی رہتی ہے لہذا لوگوں کے آنے جانے سے بڑے کرافٹ کو زک نہیں پہنچتی بشرطیکہ اس میں تخلیقی پہلو کو زندہ رکھا جائے۔

میں نے انگریزی ادب ایک مضمون کے طور پر پڑھا ہے جس میں کامیڈی جزولاینفک ہے۔ آسکر وائلڈ، شیریڈن، پیرینڈلو، شیکسپیئر، بن جانسن، سووفٹ، بیکیٹ اور ان کے علاوہ ترقی پسند، روسی، فرانسیسی، جرمن اور یونانی ادبا کے بغیر دن سے رات کرنا مشکل تھا غرض یہ کہ کوئی بڑا طنز نگار اور مزاح نگار خاکسار کی نظروں سے اوجھل نہیں اور یہ صرف میں ہی نہیں پوری خبرناک ٹیم کا خاصا ہے کہ بلند ادبی ذوق اور کامیڈی کے اعلیٰ معیار رکھتے ہیں ہوئے اپنے تمام ذہنی وسائل کو بروئے کار لا کر پروگرام کرتے ہیں۔

میرے نزدیک خبرناک ایک ایسا پروگرام ہے جس میں سیاست، معاشرت، ادب اور ذہانت کا شاندار امتزاج ملتا ہے اور یقین کیجئے میں نے کامیڈینز کو اچھوتے خیال اور تہہ در تہہ معنویت سے لبریز فقروں کے لیے پیاسا دیکھا ہے۔ جب کافکا کی کہانی میٹامورفوسس پیش کرتے ہوئے حسن مراد کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے تو دوسری طرف کافکا کے چند معتقدین کہانی کے بیان میں مزاح کا عنصر داخل کرنے پر تبرے بھیج رہے تھے۔ ان کا کہا سر آنکھوں پر لیکن انہیں سمجھنا چاہیے کہ ”بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہی بغیر“۔ بس خبرناک ٹیم نے ٹھان لی ہے کہ کافکا سمیت بہت سے عالمی افسانوی ادیبوں کا ہمارے ہاں کوئی والی وارث ہو گا تو وہ خبرناک ہو گا۔

لکھنا تو میں خبرناک کے ان لوگوں کے بارے میں چاہ رہا تھا جو ہم میں نہیں رہے لیکن ” کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی“۔ کچھ ایسے دوست جو لالہ و گل میں نمایاں ہو گئے اس کرافٹ کو بنانے میں درک رکھتے تھے۔ مجھے یاد آتے ہیں رانا غلام عباس جو ہمارے میک اپ آرٹسٹ تھے اور علی میر کے سیکڑوں گیٹ اپ انہوں نے ایجاد کیے ہیں۔ علی میر کا کمال فن اپنی جگہ لیکن رانا صاحب کے بنائے ہوئے گیٹ اپ سے انکار ممکن نہیں۔ انتہائی جذباتی آدمی تھے اور جسے دوست کہہ دیا اس پر جان چھڑک دی۔

تلخ بات سامنے کہہ دیتے تھے اور خود دار بہت تھے۔ پروگرام کی (سامعین میں بیٹھی ہوئی) ہوسٹ صوفیا مرزا ذرا بد مزاجی کا مظاہرہ کرتی تھیں اور پروگرام کے میزبان سے براہ راست تعلق پر نازاں تھیں لہذا میک اپ روم میں کوئی نہ کوئی ہنگامہ بپا رہتا۔ ایک دن رانا صاحب نے انہیں سمجھانے کی غرض سے کہا کہ ان سے بدتہذیبی کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیوں کہ وہ صوفیا مرزا کے باپ کی جگہ ہیں۔ اس پر صوفیا مرزا سیخ پا ہو گئیں اور بولیں کہ خدا نہ کرے ان کا باپ ایسا ہو۔ رانا صاحب نے ایسی انواع و اقسام کی گالیوں سے تواضع شروع کی کہ خدا کی پناہ! مجھ سمیت تین لوگوں نے انہیں بڑی مشکل سے سنبھالا اور کمرے سے باہر لے گئے۔

پروگرام کے میزبان کو جب اس تماشے کی خبر ملی تو سٹوڈیو سے کھسک گئے۔ خیر معاملہ یہاں ختم نہ ہوا۔ کچھ دن بعد مجھے میزبان نے کہا کہ ان کی صلح کروا دو اور کھانے کا سارا خرچ وہ برداشت کریں گے۔ میں نے سہیل شیخ صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی جو کہ اس وقت ایسوسی ایٹ پروڈیوسر تھے (اب پروڈیوسر ہیں)۔ شیخ صاحب نے صوفیا مرزا سے کھانے پر معاملہ رفع دفع کروانے کا کہا تو وہ فوراً مان گئیں۔ کچھ پس و پیش کے بعد رانا صاحب بھی مان گئے لیکن عین روانگی سے چند لمحے پہلے شیخ صاحب میرے پاس آئے، وہ کسی تشویش میں مبتلا دکھائی دیے۔

وجہ پوچھی تو بولے رانا صاحب قینچیاں اکٹھی کر رہے ہیں۔ ” قینچیاں؟ “ میں نے قدرے جھنجھلاہٹ سے پوچھا۔ ”جی! رانا صاحب کا خیال ہے کہ صوفیا مرزا وہاں بد معاش بلا لے گی لہذا مجھے ہر ناخوشگوار واقعہ کے لیے تیار رہنا ہوگا“۔ رانا صاحب کیوں کہ فلم کے آدمی تھے لہذا ٹی وی پر بیٹھے بھی اس انداز سے سوچتے تھے کہ ہیروئین کے پیچھے چند بدمعاش ہوں گے جو کسی سے بھی جھگڑا مول لے سکتے ہیں حالانکہ صوفیا مرزا تھوڑی سی بدمزاج ضرور تھیں لیکن ایسی بدمعاش ہرگز نہیں تھیں۔ اس کے بعد رانا صاحب کا میک اپ روم الگ کر دیا گیا۔

مجھے نصیر بھائی یاد آتے ہیں جو بہت ہی معصوم آدمی تھے۔ پروگرام دیکھنے والے ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ کسی گیت کا کمپوزر، سنگر یا رائٹر پوچھیں جھٹ سے بتا دیتے تھے۔ 2013 کے جنرل الیکشن کے لیے پوری ٹیم کو کراچی جانا تھا۔ نصیر بھائی بولے، ”میں نھیں جانا جہاز تے۔ میں ڈگ پواں گا“ یعنی میں جہاز پر نہیں بیٹھوں گا مبادا گر جاؤں۔ بہت سمجھایا گیا لیکن مسئلہ اس وقت حل ہوا جب انہیں دو سیٹوں کے درمیان تقریباً باندھا گیا اور علی میر نے انہیں باتوں میں الجھائے رکھا۔

جب میں انہیں ہوٹل کے کمرے میں لے کر گیا اور ان کا کمرہ دکھایا تو بولے، ” ایڈا وڈا کمرہ سر! میں نہیں سو سکدا ایتھے۔ میں تے کلا سوندا ہی نہیں۔ مینوں ڈر لگدا جے“ یعنی میں اتنے بڑے کمرے میں اکیلا نہیں سو سکتا کیونکہ مجھے ڈر لگے گا“۔ نصیر بھائی کی بیوی برسوں پہلےچھت سے گر کر فوت ہو چکیں تھیں اور کوئی بچہ بھی نہیں تھا۔ میں نے پوچھا، ”آپ گھر میں کیسے سوتے ہیں“، بولے ” میرا بھانجا میرے ساتھ والے بستر پر سوتا ہے“۔ نصیر بھائی کو رانا غلام عباس کے ساتھ شفٹ کیا گیا اور الیکشن ٹرانسمیشن میں حصہ لیا۔

اس ملک میں ستار بجانے والے آخری آدمی اعجاز صاحب تھے۔ موٹر سائیکل پر ستار گلے میں لٹکائے سٹوڈیو آتے تھے اور جب آفتاب اقبال صاحب نے ان کا وظیفہ لگوایا تو بہت خوش تھے۔ پروگرام شروع ہونے سے پہلے آفتاب صاحب ان سے ستار چھیڑنے کی فرمائش کرتے تو یقیں کیجیے ایسا سماں باندھتے کہ بندہ دیر تک کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ اتنی خاموشی سے چلے گئے کہ بکھرے سروں کے ارتعاش میں ذرا اونچا نیچ نہ ہوئی۔

داؤد ایک صفائی کرنے والا لڑکا تھا جس کا نام مجھے اس کی موت کے بعد پتہ چلا۔ مجھے بس یہ پتہ تھا کہ دراز قد، وجہیہ اور خوبصورت بالوں کے اسٹائل والا لڑکا خاموشی سے جو کام کہا جائے کر دیتا ہے، نہ کبھی داد کو طلب گار ہوتا ہے اور نہ ہی انعام کا۔ علی میر نے محسوس کیا کہ اسے بنا مانگے ہی کھلا جوتا ملنا شروع ہو گیا۔ بس ایک بار مانگا اور داؤد نے بات پلے باندھ لی۔ میں نے کبھی اسے بولتے بھی نہیں سنا تھا۔ کبھی ہنستے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔

عید شب برات پر عیدی کے لیے بھی نہیں آتا تھا۔ بس یہ پتہ چلا کہ وہ اپنے باپ، یوسف، جو ہمارے ہی سٹوڈیو میں کام کرتا ہے، سے کہا کرتا تھا، ” بابا آپ آرام کرو میں زیادہ کام کر کے پیسے کما لوں گا“۔ یوسف کا بہت سا کام وہ خود ہی کر دیا کرتا تھا۔ چند ماہ پہلے اس کا موٹر سائیکل ایک درخت سے ٹکرایا اور داؤد وہیں دم توڑ گیا۔ دوستوں کے ساتھ میلے پر جا رہا تھا۔ بہنوں سے بالوں میں لگانے والے کلپ اور ماں کے لیے مٹھائی لانے کا وعدہ کر گیا تھا۔ علی میر کو اب سٹوڈیو آکر روزانہ کھلا جوتا مانگنا پڑتا ہے، یوسف ہر وقت کام میں جتا رہتا ہے اور ماں اب کبھی مٹھائی نہیں کھا سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).