پی ٹی آئی حکومت کے خلاف پہلا وائٹ پیپر


ملک کو ہرمحاذ پر اس وقت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن عاقبت نا اندیش حکومت کی لا ابالی طبیعت، متلون مزاجی، حماقتوں اور غیرسنجیدگی کا سلسلہ ختم ہونے کو ہی نہیں آرہا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حکمران اس سوچ اور وژن سے عاری ہیں جو ملک کو چلانے یا مشکل حالات سے نکالنے کے لئے درکارہوتا ہے تب ہی تو یہ عالم ہے کہ حکومت تشکیل پانے کی ففٹی مکمل ہونے کے بعد بھی کچھ کرنے کے بجائے سنچری یعنی سو روز مکمل ہونے تک انتظار کی دہائی دی جارہی ہے۔

اقتدارمیں آنے کے پہلے ہی روز دو سو ارب ڈالر ملک واپس لانے اور آئی ایم ایف کے منہ پرمارنے کی سوچ رکھنے والی حکومت کشکول اٹھائے اسی آئی ایم ایف کے سامنے کھڑی ہے اور قرض کی بھیک مانگ رہی ہے شاید اندر کہیں تھوڑی بہت شرم محسوس ہورہی ہے جو کھل کر مذاکرات کرنے کے بجائے عالمی مالیاتی ادارے سے خفیہ بات چیت چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی وہ معاشی ٹیم جو اپنا ہوم ورک مکمل کرکے بیٹھی تھی اور ملک کو دنوں میں بحرانوں سے نکال سکتی تھی خود بحران میں گھری ہوئی ہے اور اس بھنور سے نکلنے کے لئے کسی تنکے کے سہارے کی متلاشی ہے۔

گیس کی قیمتوں میں ایک سو سینتالیس فیصد اضافے کے بعد آئی ایم ایف کو بجلی کے نرخوں میں اضافے اور ڈالرکی قیمت کو ایک سوپینتیس تک لے جانے کی یقین دہانی ماہرین کی مہارت ثابت کررہی ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے فروغ، ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کے ذریعے معاشی صورتحال بہتربنانے کے دعویدار کوئی تخلیقی، اختراعی اور اچھوتا منصوبہ یا مراعاتی واصلاحاتی پیکیج سامنے لانے میں قطعی طورپر ناکام رہے صرف یہی نہیں انہوں نے مسلم لیگ ن کی دشمنی میں گزشتہ حکومت کی معیشت دوست، عوامی ریلیف پر مبنی اور قومی شرح نمو میں اضافے کا باعث بننے والی حکمت عملی کا بھی حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جس سے عوام اور کاروباری حلقے شدید پریشانی، بے چینی اور اضطراب کا شکار نظرآتے ہیں اور سرمایہ کی بیرون ملک منتقلی کی اطلاعات خطرے کی گھنٹی بجارہی ہے۔ سٹاک ایکسچینج مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں ایسے میں حکومت کی جانب سے ’چندہ مانگنے‘ کو قومی اقتصادی پالیسی کے طور پر اپنایا جانا ملک کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

نا اہل حکومتی ٹیم نے خارجہ محاذ کو بازیچہ اطفال بنارکھا ہے۔ ایک طرف پاکستان کے دیرینہ دوستوں کے ساتھ بے اعتنائی برتی جارہی ہے سٹرٹیجک اہمیت کے حامل منصوبوں پر کنفیوژن پھیلائی جارہی ہے تو دوسری طرف بھارت جیسے روایتی حریف اور امریکہ سمیت عالمی ٹھیکیداروں کے سامنے ناتجربہ کاری اور غیر سفارتی برتاؤ سے جگ ہنسائی کرائی جارہی ہے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کو ملک کی تقدیر بدلنے کامنصوبہ بھی کہا جارہا ہے اور اسے روکنے، ازسر نو ترتیب دینے جیسی باتیں کرکے عدم اعتماد کے بیج بھی بوئے جارہے ہیں۔ ڈاکٹرشکیل آفریدی کی حوالگی سے متعلق سودے بازی، کلبھوشن یادیو اور کشمیر پر پرسرار خاموشی بھی سفارتی محاذ پرتنہائی کا عندیہ دے رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم کوخفیہ خط لکھنے اور متوقع جواب نہ ملنے پرٹویٹ کے ذریعے کوسنے دینے جیسی غیرسفارتی اور غیراخلاقی مثالیں نئے ’راجا‘ کا نام روشن کرنے کے لئے کافی ہیں۔

وہ لوگ جو کہتے تھے کہ ان کے پاس بہترین ماہرین کی ٹیم ہے جب کابینہ تشکیل دے بیٹھے ہیں تو پتہ چلا ہے کہ وہ دراصل کن امورکے ماہر ہیں۔ کابینہ کی تعداد پر ہرتقریر میں تنقید کرنے والوں کی اپنی کابینہ پچھلی حکومت سے بھی بڑھ چکی ہے اور اس میں اضافہ تاحال جاری ہے

پنجاب میں ایسے شخص کو تبدیلی کا نشان بناکر پیش کیاجارہا ہے جو انتخابات سے محض دو روز قبل اس ناؤ پرسوارہوا تھا۔ انتظامی امور، فیصلہ سازی، اور خوداعتمادی جیسی کمزوریوں کے باوجود اسے بہترین وزیراعلیٰ کا ایوارڈ دلانے کی کوششیں جاری ہیں اور بعید ازقیاس نہیں کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کی طرح یہ کامیابی کسی روز ان کی جھولی میں ڈال ہی دی جائے۔

پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرانے والے آج بیوروکریسی کو دھمکا رہے ہیں کنٹینرپرکھڑے ہوکرعوام کواشتعال دلانے، سول نافرمانی پرمائل کرنے اور افسروں کواحکامات ماننے سے انکار کی ترغیب دینے والے اب ایسا کچھ کرنے پران کے خلاف سخت تادیبی، انتظامی اور انتقامی کارروائیوں کا اعلان کررہے ہیں۔

وہ جو کہتے تھے کہ وزارت اطلاعات کو ختم کرکے پی ٹی وی کو آزاد کردیں گے انہوں نے اپنے کمزوراقتدارپرگرفت رکھنے کے لئے پوری صحافت کا بازومروڑ رکھا ہے۔ میڈیا پرسنسرشپ اور زباں بندی کا ایسا ماحول ہے کہ الاماں الحفیظ۔ صحافت اور صحافی دونوں مررہے ہیں

حکومت سنبھال کر بھی اطوار بدلے ہیں نہ انداز۔ حتیٰ کہ طرزتخاطب تک میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کنٹینروالی زبان پارلیمنٹ میں استعمال کی جارہی ہے۔ انتظامی سربراہ بن کربھی ملک وقوم کی بہتری، ترقی، خوشحالی اور اصلاحات کے ایجنڈے پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی وں پرفوکس ہے۔

انیس سونوے کی دہائی میں اگرچہ میں صحافت میں نہیں تھا لیکن سال دوسال کی حکومتوں کے ادواردیکھے ضرورہیں آج بھی صورتحال اس سے قطعی مختلف نہیں۔ نوازشریف کے خلاف کرپشن کے الزامات اس سے پہلے بھی لگے لیکن شواہد، ثبوت کبھی نہ ملے۔ نوازشریف نے کرپشن کی ہوتی توپرویزمشرف ان کا بدترین مخالف تھا وہ تمام تراختیارات، طاقت اور خواہش کے باوجود ایسا کیوں نہ کرسکا؟

کسی ذی شعورکویہ سمجھنے میں ذراتامل نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت پسند اور جمہوریت مخالف قوتوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری جنگ کی د استاں کے نئے باب میں الفاظ بدلے ہیں کہانی کا مرکزی خیال، کردار اور حالات آج بھی وہی ہیں۔

دو ہزار چودہ میں تحریک انصاف نے دھرنے سے جس سیاست کا آغاز کیا تھا اسے چینی صدر کا دورہ روکنے، سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے اور ترقی کی منزل کھوٹی کرنے کی سازش قرار دیا گیا لیکن کوئی اس سازش کے پس پردہ حقائق بے نقاب نہ کرسکا۔ پس پردہ قوتیں خوش تھیں کہ سانپ مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی لیکن ان کے وہم وگمان میں بھی تھا کہ جسے وہ اقتدارکی مسند پربٹھا رہے ہیں ان پرانگشت نمائی کا سب سے بڑا سبب وہی بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).