حوا کی مسیحا بیٹیاں اور زوال پزیر معاشرہ


پاکستان میں سرکاری ڈاکٹر دو طرح کے مسائل کا شکار نظر آتے ہیں۔ محدود وسائل میں نوکری، لامحدود مریضوں کا مفت علاج معالجہ اور دو نمبر یا کمزور ادویات کے ساتھ طاقتور بیماریوں کا علاج کرنا ہے۔ ان دو کمزوریوں کے ساتھ کمزور سروس سٹرکچر، جس میں ڈاکٹر کے لئے کوئی سیکیورٹی نہیں۔ اور ترقی کا امکان نہیں۔ طاقتور بے لگام میڈیا اور بے صبر بے ضمیر معاشرہ ہے۔ گزشتہ ماہ رحیم یار خان کے شیخ زائد ہسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹر کو ریپ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہسپتال کے ایم ایس نے واقعہ دبانے کی کوشش کی۔ رپورٹ کرنے والے ڈاکٹر کی جواب طلبی کر لی۔

اس مذموم واقع کو ای سی جی مشین کی چوری بنانے کی گھٹیا حرکت کی۔ بعد ازاں حکومت نے ایم ایس اور پرنسپل کو معطل کر دیا۔ اس شیطان کا کیا بنا۔ اس کو سزا ہوئی یا ابھی تک انکوائری چل رہی ہے۔ جھنگ کے ایک رورل ہیلتھ سنٹر میں مرضی کا پرچہ نہ کاٹنے پر ایک ایم این اے کے ساتھیوں نے ڈاکٹر کو زدوکوب کیا۔ اس کا کیا ہوا کسی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت کے کسی چھوٹے یا بڑے لیڈر کا کوئی بیان آیا؟ کسی نے مذمت کی؟

راولپنڈی میں گزشتہ دس روز میں ڈاکٹروں پر تشدد کے کئی واقعات ہوئے ہیں۔ ایک حاملہ لیڈی ڈاکٹر کو زدوکوب کیا گیا ہے۔ حوا کی بیٹیاں جو انسانئیت کی خدمت کاجذبہ لئے معاشرے کے ان ناسوروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ان کے لئے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ سیاسی جماعتیں صرف لوٹ مار اور اپنے ذاتی انتقام کے علاوہ کچھ بھی سوچنے سے کیوں انکاری ہیں۔

پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ ایک مکمل ڈاکٹر ایف سی پی ایس بننے کے لئے اتنے پیسے درکار ہیں جتنے ایک مربع زرعی اراضی خریدنے کے لئے۔ اتنے پیسوں سے بندہ بحریہ ٹاون میں نیا گھر بنا لیتا ہے جتنے پیسوں میں کوئی باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کا ڈاکٹر بننے کا شوق پورا کرتا ہے۔ ذرا سوچیں اس ماں پہ کیا بیتی ہوگی جس نے اتنی مہنگی تعلیم دلا کر اپنی بیٹی کو ان درندوں کے حوالے کیا۔ قوم کی خدمت کے لئے نکلی ان بیٹیوں کا اس سے زیادہ عبرتناک انجام ممکن نہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جب سے میڈیکل کالجز میں اوپن میرٹ کیا ہے لڑکوں کی نسبت لڑکیاں زیادہ تعداد میں داخل ہونے لگی ہیں۔ پہلے لڑکیاں صرف امراض نسواں میں خدمات سر انجام دیا کرتی تھیں اب میڈیکل کے تمام شعبوں میں خواتین ڈاکٹرز کی بڑی تعداد نظر آنے لگی ہے۔ ہمارے ہسپتال زیادہ تر پرانے ہی ہیں ان میں امراض نسواں کے شعبے ذرا چھپے ہوئے اور مرد حضرات کے داخلے سے ذرا دور ہوتے ہیں۔ اس لئے اس شعبے میں مردوں کی مداخلت زراکم ہے لیکن باقی شعبوں میں ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر کے آرام کرنے کے کمرے یا ریٹائیرنگ روم وارڈز سے جڑے ہوتے ہیں۔ لہذا کوئی بھی شخص کسی بھی وقت اس کمرے میں داخل ہو کر کوئی بھی واردات کر سکتا ہے۔ یہاں سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ اکثر مریضوں کے لواحقین اس دفتر میں آزادانہ آ جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ اچھا بھی ہوتا ہے۔ مریض ڈاکٹر اور لواحقین میں اعتماد کا رشتہ قائم رہتا ہے۔

جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے لوگ بھی آزاد ہو گئے ہیں۔ ہمارہ میڈیا نہ کسی پردے کا پابند ہے نہ کسی ضابطے کا۔ ہمارے لوگ بھی مادر پدر آزاد ہو گئے ہیں۔ چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔ بچے اور والدین استادوں کی بے عزتی کرتے ہوئے ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ کسی زمانے معاشرے میں استاد اور ڈاکٹر کی بڑی عزت ہوا کرتی تھی۔ آج چور بازاری اور لوٹ مار کرنے والے معاشرے کے عزت دار افراد بنے بیٹھے ہیں۔

نوجوان ڈاکٹر بھی اسی بے چین بے روح اور زوال پزیر معاشرے کا حصہ ہیں۔ اپنے حقوق کے لئے وہ بھی اب دوسرے تبقات کی طرح اپنا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ جس معاشرے کے اعلی تعلیم اور ہنر مند افراد اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائیں سمجھ لیں وہ معاشرہ اپنے انجام سے دوچار ہونے والا ہے۔

پاکستان میں ڈاکٹروں کی کمی کیوں پوری نہیں ہو رہی اور خاص طور پر اچھے سپیشلسٹ ڈاکٹر کیوں ناپید ہیں۔ وجہ یہی معا شرتی ناسور ہیں جو کسی قابل اور ہنر مند کو عزت نہیں دے سکتے۔ پاکستان کے تمام بڑے اور چھوٹے ہسپتالوں میں کبھی بھی ڈاکٹر پورے نہیں ہوئے۔ حالانکہ پنجاب میں ہی پبلک اور پرائیویٹ میڈیکل کالج درجنوں کی تعداد میں ہیں۔ ہر سال تقریباً پانچ ہزار نئے ڈاکٹر بن رہے ہیں۔ مگر آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ گلف کے ممالک ہمارے ڈاکٹر کو عزت بھی دیتے ہیں اور پیسہ بھی۔ پاکستان میں جب ڈاکٹر مکمل ڈاکٹر بن جاتا ہے پاکستان چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ بچے کھچے سیانے تعداد میں کم رہ جاتے ہیں۔ ان کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ وہ منہ مانگے پیسے لیتے ہیں۔ آپ انھیں قصائی یا قاتل لٹیرا یا مجبور کچھ بھی کہ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).