پاکستان میں کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل بھی وکیل یا صحافی بن سکتی ہے


پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں موٹر سائیکل یا کار پر ایڈوکیٹ، پریس، پولیس، ایسائیز پولیس، ڈپٹی کمشنرآفیس کا کلرک، انٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ وغیرہ لکھ کر لگالیں، آپ پر قانون لاگو نہیں ہوگا اور اگر کسی قانون کے رکھوالے نے آپ سے نمبر پلیٹ نہ ہونے، کالے شیشے ہونے، کاغذات نہ ہونے یا مکمل نہ ہونے، ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے، ٹریفک رولز توڑنے پر روک لیا تو پھر اس قانون کے رکھوالے کی جو شامت آئے گی وہ خدا کی پناہ!

میں دنیا کے کافی ملکوں میں رہا ہوں، کچھ ملکوں سے تعلیم بھی حاصل کی ہے، امریکا، یورپ تو چھوڑیں تھائی لینڈ اور عرب امارات جیسے ملک میں بھی مجھے نظر نہیں آیا کہ کوئی کار یا موٹر سائیکل بھی“ ایڈووکیٹ ” ہو سکتی ہے۔ میں نے تو دنیا میں صرف ایمبولینس، گاڑیوں پہ لکھا ہوا دیکھا ہے یا پھر سرکاری گاڑیوں پہ پولیس لکھا ہوا ہوتا ہے، مگر ہمارے ملک میں کار پر بڑے دبدبے والی، پیتل سے بنی بلکل گورنر یا وزیر اعلیٰ کی سرکاری گاڑی کی، یا ہائی کورٹ کے جج صاحب کی سرکاری گاڑی کے طرز کی بنی پلیٹ، نمبر پلیٹ کی جگہ یا اس کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہے جس پر ایڈوکیٹ ہائی کورٹ لکھا ہوتا ہے، اگر وکیل صاحب ابھی ہائی کورٹ میں انرول نہیں ہوئے تو صرف ” ایڈوکیٹ ” لکھ کر لگا دیا جاتا ہے، پھر ٹول ٹیکس سے لے کر کالے شیشے تک، ہر قانون شکنی اس کو لیگل ہو جاتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ، صحیع معنوں میں معتبرسینئر وکیل حضرات ایسا نہیں کرتے ہیں۔

کارسے زیادہ خراب حشر موٹرسائیکل کا ہے، غریب کی سواری کہہ کہہ کر اس سواری کو چیکنگ سے مبرا کر کے کرمنلز کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، اب تو موٹر سائیکل کا لائسنس شاید ہی کسی کے پاس ہو، نمبر پلیٹ بھی ہونا، نہ ہونا برابر ہے، بس پولیس روکے گی اور پچاس روپے لے کر چھوڑدے گی اور اگر کسی موٹر سائیکل پر پریس لکھا ہو اور کسی پولیس والے نے اگر اسے غلطی سے روک لیا تو پھر تو پولیس والے کی شامت آئے ہی آئے فریڈم آف ایکسپریشن یعنیٰ اظہار کی آزادی جو متاثر ہوتی ہے۔

ملک میں گاڑی خواہ کار ہو، موٹر سائیکل یا کوئی اوراس پر سرکاری حاصل شدہ ٹائیٹل کے علاوہ اور گاڑی کی نمبر پلیٹ کے علاوہ ہر قسم کی پلیٹ لگانے کو خلاف قانون قراردیکر قابل سزا جرم قرار دیا جائے اور اگر ایسا قانون پہلے سے موجود ہے تو اس پر عمل کرایا جائے۔ خاص کر موٹر سائیکل کو چیک میں لایا جائے، کم عمر لڑکے، موٹر سائیکل ڈوڑاتے پھر رہے ہیں جن کی عمر لائسنس کی بھی نہیں ہوتی ہے۔ حکومت لائنسن کو سختی سے لاگو کرے تو کروڑوں روپے ریونیو حاصل ہوگا۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب اورسپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے درخواست ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لیں اور ملک میں گاڑیاں یا موٹرسائیکل صرف، گاڑیاں یا موٹرسائیکل ہی رہنے دینے کا حکم صادر کریں، ان کو ایڈوکیٹ، یا پریس جیسے تمغے لگا کر روڈ پر قانون رودنے اور دبدبہ قائم کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ گاڑی کی پہچان صرف اس کی نمبر پلیٹ ہونی چاہیے اور اس کی سواری کی پہچان اس کا ذاتی یا کام کا شناختی کارڈ ہونا چاہیے اور پھر بھی اگر کسی کو شوق ہو تو وہ اپنا شوق ایک چھوٹا سا اسٹکر لگا کر پورا کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).