قصہ دو پُلوں کا: چٹاگانگ کا لیفٹنٹ اور چنیوٹ کا ایگزیکٹو انجنیئر


ہمارے ایک بزرگ دوست ہیں۔ یعنی ہم سے بھی ’بزرگ‘۔ اللہ کے فضل سے سنچری مکمل کرنے والے ہیں۔ (خدا کرے ’ناٹ آؤٹ ’ ہی رہیں) ریلوے سے چیف انجنیئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ نہایت وضعدار اور نستعلیق۔ ملتے ہی پہلا سوال ہوتا ہے تو آپ اپنی کلاس فیلوز سے مل آئے؟ اور اگلا سوال ہوتا ہے‘ تو آپ کی ریاست میں سب امن امان ہے؟ (یہ انہوں نے ہماری زمینوں کا نام رکھا ہوا ہے) کھانا جو تھوڑا سا کھاتے ہیں ابھی تک چھری کانٹے سے اور گود میں نیپکن پھیلا کر۔ کھانے کے میز پر بیٹھتے ہیں تو ہماری بیگم کے لئےکرسی کھینچ کر۔ پرانی باتوں کے چٹکلے چھوڑتے رہتے ہیں۔ ان کا بچپن میں کسی جلسے وغیرہ میں قائد اعظم کے قدموں میں بیٹھ کر آپ کو دیر تک دیکھتے رہنا اور ان کی خوبصورتی اور خوش لباسی سے بےحد متاّثر ہونا۔ مشاعروں کا احوال اور ایک مشاعرے میں شاعروں میں سے سب سے کم شکل جگر مراد آبادی صاحب کا سب خوش رو شاعروں سے زیادہ داد وصول کرنا بلکہ مشاعرہ ہی لوٹ لینا اور پھر ان کی ایک غزل :

دل میں کسی کے راہ کیے جارہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کیے جارہا ہوں میں

کا زبان زد عام ہونا اور اس کی تضمین:

موٹر لگی ہوئی ہے میری سائیکل کے ساتھ
پھٹ پھٹ پھٹا پھٹاہ کیے جارہا ہوں میں

کا اس سے بھی زیادہ معروف و مشہور ہونا‘ سب انہیں یاد ہے۔ حلقۂ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں وائی ایم سی اے کے اوپرجانا جہاں ان کے علاوہ الطاف گوہر بھی وقت پر آتے تھے اور دونوں کا اپنی اپنی کرسیوں سے گرد جھاڑ کر بیٹھنا۔ انہیں یاد ہے وہ ذرا ذرا۔ (کیونکہ اب ان واقعات کے ماہ و سال کا تعین ان کے لئے مشکل ہے)۔

آپ دوران ملازمت مشرقی پاکستان بھی رہے تھے۔ وہاں کے واقعات بھی سناتے ہیں۔ جنرل اعظم خان کا بذریعہ ہیلی کاپٹر لال منیر ہاٹ میں ان کے بنگلے کے صحن میں اترنا ( کیونکہ اور کوئی جگہ نہ تھی جہاں اتر سکیں) پھر وہان سے بچھی چھوٹی سی لائن پر بذریعہ ٹرالی ( المعروف ٹھیلا) سٹیشن اور شہر جانا اور پھر ان کا اپنی نوبیاہتا بیگم کے ساتھ آسام کے دارالحکومت شیلانگ بذریعہ ریل جانا اور وہاں پیسےبوجہ سخت ایکسچینج کنٹرول بروقت نہ پہنچنا اور وہاں ایک معزز مسلمان جوڑے کی ان کی ازخود مدد کرنا اور وہاں کی شدیدسردی میں کاٹن کے کپڑے پہنے ہوئے ہونا وغیرہ وغیرہ جیسے واقعات ہمیں ازبر ہو چکے ہیں۔

ایک روز ہمیں خیال آیا کہ ’ون وے ٹریفک‘ کافی ہوچکی آخر ہم بھی تو مشرقی پاکستان رہے ہیں۔ کچھ ہم نے بھی وہاں جھک ماری ہے۔ یہ نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں کا سلسلہ کب تک۔ چنانچہ ایک دن ان کے فرمودات کے دوران تھوڑا سا وقفہ پا کر ہم نے بھی انہیں ان کے ریلوے کے پس منظر کی مناسبت سے ایک ریلوے پل کی کہانی سنائی۔ کہانی کچھ یوں تھی۔

ٖFeni River

ستمبر کا مہینہ بنگال میں سب سے سخت ہوتا ہے۔ چھ ماہ کی مسلسل بارشوں کے بعد نمی کی کوئی حد ہی نہیں اور ہوا تو گویا بالکل ہی چپ اور ساکن۔ گویا کولرج کے ’قدیم جہازی‘ کی مانند ایک ساکن تصویر کی صورت۔ پسینے کا کسی ندی کی طرح بہنا اور فنگس کے مارے جسموں پر کھجلی کی شدید خواہش۔ یہ اس ماہ کی خصوصیات ہیں۔ سن 1968 کے اگست کے آخر میں ہماری یونٹ بیس بلوچ کومیلا میں پہنچی اور چند دن کے اندر چٹاگانگ کے جنگلات میں موسم اور علاقے سے ’ہم آہنگ‘ ہونے کے لئے ایک ماہ کے لئے بھیج دی گئی۔ اس مہینے کے واقعات بذات خود ایک کہانی ہیں۔ اس جانگداز ماہ کے اختتام پر ایک تین روزہ ایکسرسائز تھی جس میں بریگیڈ کمانڈر صاحب خود تشریف لاکر اور ہمارے پاس قیام فرما کر ہماری ’آزمائش‘ کرتے رہے۔ ایکسرسائز کا موقع چٹاگانگ سے قریباً چالیس میل شمال اور کومیلا چھاؤنی سے غالباً اڑسٹھ میل جنوب کے فاصلے پر تھا۔ چٹاگانگ سے شمال اس موقعے تک قریباً دو میل چوڑی ایک پٹی چلتی ہے جس کے مشرق میں چھوٹی پہاڑیوں کا سلسلہ ہے اور مغرب میں خوبصورت گہرا نیلا خلیج بنگال۔ اور اس پٹی میں ریلوے لائن اور سڑک واقع ہیں۔ اس پٹی کے خاتمے پر سمندر سڑک اور ریل مغرب کو مڑ جاتے ہیں جہاں فینی کا شہر ان کا استقبال کرتا ہے۔ وہاں سے ریل اور سڑک شمال کومیلا کو چل پڑتے ہیں اور ان کا تیسرا ساتھی انڈیا کا بارڈر ہو جاتا ہے۔

اس ’باموقع‘ جگہ پر شام کا دھندلکا ہورہا تھا کہ ایکسر سائز کا اختتام ہوا اور بریگیڈئیر صاحب اپنی گاڑی مین بیٹھ کر الوداعی کلمات کہہ رہے تھے اور ہم سب ان کی جلد رخصتی کی دعا کرتے ہوئے بظاہر غور سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ کیونکہ اب اگلا ناخوشگوار مرحلہ یعنی کومیلا تک کا مارچ سامنے نظر آرہا تھا۔ ایک دم سے جیسے کہ بریگیڈئیر صاحب کو کچھ یاد آیا‘ چونک کر کہنے لگے تو کرنل راشد آپ لوگ کومیلا کب پہنچو گے؟ کرنل صاحب نے بلا جھجھک جواب دیا سر پرسوں صبح۔ آزمودہ کار بریگیڈئیر صاحب کے ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ آئی انہوں نے اشارہ کیا جیپ چل دی اور ہم سب نے کھٹاک سے سلیوٹ مارا۔ میرے تو کرنل صاحب کے جواب سے اوسان خطا ہوچکے تھے۔ کیونکہ اڑسٹھ میل کا فاصلہ ہم نے چھتیس گھنٹے میں مارچ کرکے طے کرنا تھا جبکہ بہترین اور فٹ انفنٹری یونٹ چوبیس گھنٹے میں بیس میل مارچ کرتی ہے۔ یہ وجہ تھی بریگیڈئیر صاحب کی مسکراہٹ کی۔ ہمارے کرنل صاحب کا یونٹ کا تجربہ بہت کم تھا نیز صرف ایک گردے کے مالک تھے (دل کا تو حال چھوڑئیے) مارچنگ وغیرہ کے قائل نہ تھے۔ چنانچہ چند منٹ بعد آپ بھی اپنی جیپ میں بیٹھے سلیوٹ وصول کیے اور چلد یئے۔ چلتے ہوئے سیکنڈ ان کمانڈ میجر لودھی (بعد میں بریگیڈئیر ہوئے) سے کہتے گئے اوکے لودھی یونٹ کو لے کر پرسوں صبح کومیلا پہنچو۔ انہوں نے بڑی خوشی سے بالکل سر کا جواب دیا سلیوٹ داغا اور میری طرف متوجہ ہوئے جو چند منٹ سے انہیں نظر آرہا تھا کہ کچھ کہنے کے لئے بےتاب ہے۔

ہم ابھی لفٹننٹ ہی تھے اور کام تھا نقشہ بینی‘ سی او کے ساتھ رہنا اور انہیں چھوٹے موٹے مشورے دینا۔

میجر لودھی میری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے انہیں فاصلے اور وقت کا نکتہ گوش گزار کیا۔ تب وہ سمجھے اور پریشان ہوگئے۔ باقی افسروں نے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے جوان پہلے ہی مہینے بھر کی مشقوں سے بے دم ہورہے ہیں نیا علاقہ نیا اور سخت موسم اوپر سے فنگس کی ’تباہ کاریاں‘اور ستم بالائے ستم بریگیڈئیر صاحب کی تین روزہ ’مقیمی‘ شفقت۔ اگر بغاوت نہ ہوئی تو باغیانہ خیالات تو ضرور ہی پرورش پائیں گے! میجر لودھی بھی افسردہ سے ہوگئے۔ چند منٹ کے بعد کہنے لگے اب تو جو ہونا تھا ہوگیا۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ پرسوں صبح کومیلا میں ہوں۔ ورنہ پلٹن کی سخت بدنامی ہوگی اس پر ہم سب بھی خاموش ہوگئے۔ سوچنے لگے اس مشکل کا کیا حل ہو۔

میں نے مشورہ دیا کہ ایک دو میل فاصلے کے بعد راہ میں جو دریا (دریائے فینی) آتا ہے اس کی سڑک کی پل تین میل مشرق کو جاکر بنائی گئی ہے سڑک پل کے بعد پھر تین میل واپس مغرب کو آجاتی ہےاس طرح چھ میل فاصلہ زیادہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر ہم ریل کی پل سے دریا عبور کریں تو یہ چھ میل تو بچ جائیں گے۔ سب کو یہ مشورہ پسند آیا۔ چنانچہ مزید وقت ضائع کیے بغیر احکامات جاری ہوگئے اور میجر لودھی اور میں سیدھا ریلوے پل کو روانہ ہوگئے۔ جب قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ ٹرینوں کی آمد ورفت معمول سے زیادہ ہے۔ پل کے بالکل ساتھ ایک ریلوے سٹیشن تھا۔ وہاں سٹیشن ماسٹر سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ قریباً تیس منٹ بعد آدھے گھنٹے کا وقفہ ہے اگر ہم اس دوران پل عبور کرلیں تو ٹھیک ورنہ پھر بہت ٹریفک ہے۔ میجر لودھی کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ پل نقشے کے مطابق تین سو گز لمبا ہے۔ کہنے لگے پھر تو عبور ہو ہی جائے گا۔ مجھے بچپن سے ہی ریل اور گاڑیاں اچھی اور دلچسپ لگتی تھیں۔ میرے تجربے کے مطابق ریل کے پھٹوں کے درمیان کھلی جگہ ہوتی ہے اور ہر پانچ یا چھ پھٹوں کے بعد ایک ڈبل پھٹہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے چلنے کی تال قائم نہیں رہتی۔ یہ تو ایسی بڑی بات نہیں تھی۔ آدھے گھنٹے میں آٹھ سو آدمیوں کو گزر جانا چاہیے۔ اتنے میں پلٹن بھی آن پہنچی۔ لفٹننٹ امان اللہ خان (بعد میں میجر اور مزید بعد میں اسلام آباد سٹاک ایکسچینج کے پہلے صدر) کو پل کے منہ پر ڈیوٹی دی گئی کہ کالم کو ترتیب سے بھیجتے رہیں۔

جب آدھے گھنٹے کا وقفہ آیا تو ہم نے بسم اللہ پڑھ کر پل پر پاؤں دھرا اورجلد ہی اصلی مسائل سامنے اآگئے جو کافی گمبھیر تھے۔ پھٹوں پر چھ ماہ کی مسلسل بارشوں سے أدھا انچ کائی جمی تھی جو سلطان محمد فاتح (فاتح قسطنطنیہ) کو میسر آتی تو اسے کشتیاں خشکی سے گزارنے کے لئے پھٹوں پر چربی جیسی بےہودہ چیز استعمال نہ کرنا پڑتی۔ اور تب ہمارے بوٹوں کے تلے چمڑے کے ہوتے تھے اور اس پر ستم یہ کہ ان کے نیچے تیرہ عدد چوڑے مونہہ والے کیل لگے ہوتے تھے۔ یعنی پھسل کر غرق دریا ہونے کے مکمل انتظامات موجود تھے نیز نہ کوئی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا کی خواہش بھی پوری ہورہی تھی کہ نیچے کا دریا مدو جزر کی آماجگاہ بھی تھا اور کوئی دو میل بعد خلیج بنگال سے بغل گیر بھی ہو جاتا تھا۔ ایک جگہ ہم نے رک کر مڑ کے پل کی طرف دیکھا (جو ہمارے لئے بھی کوئی آسان فعل نہ تھا) تو نظر آیا کہ جوان چارون ہاتھوں پاؤں پر چلنے کی کوشش کررہے تھے اور بمشکلل اپنے باقی سازوسامان کے ساتھ بھاری ہتھیار سنبھالے پھٹوں پر قدم جما رہے تھے۔ ا یسے میں کوئی سا حادثہ ہو جانا بعید از قیاس نہ تھا۔ ایک بھی ہتھیار کا دریا میں گر جانا پلٹن کے لئے پرسوں صبح تک کومیلا نہ پہہنچ سکنے سے کہیں زیادہ سنگین معاملہ تھا۔ اگلا انکشاف یہ ہوا کہ بیٹریاں ایکسر سائز کے دوران استعمال ہو جانے کے باعث وائرلیس سیٹ استراحت میں تھے اور اگلوں پچھلوں کا رابطہ صفر۔

یہ سارے انکشافات ہمیں اس وقت ہوئے جب ہم پل پر تھے اور رکنے یا واپسی کا کوئی امکان نہ تھا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2