قصہ دو پُلوں کا: چٹاگانگ کا لیفٹنٹ اور چنیوٹ کا ایگزیکٹو انجنیئر


پل کے پرلے کنارے کے قریب پہنچ کر سب سے بڑا انکشاف ہوا۔ وہ یہ کہ تیس منٹ ہونے کو ہیں اور اب چٹاگانگ کی جانب سے گرین ایرو ایکسپریس فراٹے بھرتی آتی ہی ہوگی اور تقریباً آدھی پلٹن اس نامراد پل پر گرین ایرو سے کٹ مرنے کو تیار کھڑی تھی۔ سٹیشن چھوٹا تھا اور ایکسپریس ٹرین یہاں رکتی نہ تھی۔ جونہی ہم پل کے سرے پر پہنچے فورًا مڑکر دیکھا۔ دور سے گرین ایرو کی روشنی دکھائی دی جو لحظہ بلحظہ قریب ہوتی جارہی تھی۔ یا اللہ خیر۔ اب توکوئی معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ روشنی قریب تر ہوتی گئی اور ہمارے دلوں کی دھڑکن سست تر۔ یہاں تک کہ روشنی میں ہمیں اپنے جوان نظر آئے جو پوری پل پرپھیلے آنے والے خطرے سے بےخبر پھٹوں کی پھسلن سے دودوہاتھ (بلکہ دو دو ہاتھ دو دو پاؤں) کرنے میں مصروف تھے۔

ہمارے مونہہ سے عجیب عجیب دعائیں نکلنے لگیں۔ یا الہی ان غریب الوطنوں کی بیویوں کو دوسری شادی کے خرچے سے بچا۔ انہیں سمندر میں غرق ہونے سے بچا۔ اگر یہ مجاہد مارے گئے تو کبھی کوئی مغربی پاکستانی مشرقی پاکستان میں الاؤنس لینے نہیں أئےگا نہیں آئے گا۔ ایک دم احساس ہوا یہ کیا بیہودہ لایعنی دعائیں ہورہی ہیں۔ استغفراللہ۔ دعاؤں کی بیہودگی کا احساس کسی اندرونی روشنی یا دلی تسلی کے باعث نہیں تھا بلکہ جو دل کو فوری تسلی سی ہوئی اس کا باعث گرین ایرو کی تیزی سے قریب ہوتی روشنی کا پہلے آہستہ اور پھر بہت آہستہ ہونا تھا۔ یہاں تک کہ یہ نیک بی بی عین پل کے کنار ے پہنچ کر رک گئی۔ اب ہم واپس افسرانہ ہوش و حواس میں آجکے تھے۔ اور گرین ایرو کی روشنی میں جوانوں کو جلد جلد مگر احتیاط سے پل عبور کرنے کی ہدایات دے رہے تھے۔ گویا کہ گرین ایرو کا یوں رکنا ہمارے پلان کا حصہ اور ہمارے ہی حکم سے تھا۔

اور حقیقت جس کا ہمیں بعد میں پتہ چلا یوں تھی کہ لفٹننٹ امان اللہ خان نے خطرے کا ادراک ہوتے ہی دوڑ کرسٹیشن ماسٹر صاحب سے رابطہ کیا اور کچھ کرنے کی درخواست کی۔ اس وقت تک ٹرین بیرونی سگنل سے اندر یا بہت قریب آچکی تھی۔ چنانچہ انہوں نے دوڑ کر خود اندرونی سگنل کو اوپر کیا۔ اس پر گرین ایرو کے ڈرائیور نے ہنگامی بریکیں لگائیں اور ٹرین کو پل کے منہ پر پہنچنے تک مہارت سے روک لیا۔

چنانچہ پلٹن کے باقی ماندہ افراد بھی گرین ایرو کی روشنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جلد جلد پل عبور کرنے لگے۔ مشکل بلکہ انتہائی مشکل وقت اتنے چھوٹے سے وقفے میں گزرجانے پر ہم نہایت شادان اور مسرور تھے اور اب اللہ کا شکر واضح اور بامعنی الفاظ میں کر رہے تھے۔ جو پل کی جانب نظر کی توصورت حال نہایت دلچسپ نظر آئی۔ جوان اپنی رفتار سے لاڈلے بچوں کی طرح پورے معاملے سے بےخبر گرین ایرو کی روشنی میں پل عبور کر رہے تھے اور گرین ایرو شفیق ماں یا فرض شناس گڈریے کی طرح آخری ٹولی کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ چلی آرہی تھی!

ایکدم میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا اور میں نے قدرے گھبراہٹ سے میجر لودھی سے کہا‘ سر دو تین میل آگے چھوٹا فینی دریا بھی تو ہے۔ ہیں؟ ہاں تو پھر؟ ان کے لہجے میں بھی پریشانی تھی۔ سر وہاں بھی یہی مسائل ہوں گے ۔ میں نے یاد دلایا۔ کہنے لگے تو پھر کیا کیا جائے۔ میں نے کہا سر فاصلہ اور وقت بچاتے بچاتے پہلے ایک مشکل کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایسے کرتے ہیں پوری پلٹن کو گرین ایرو میں سوار کرلیتے ہیں اور چھوٹے فینی دریا کے بعد والے سٹیشن پر اتر جائیں گے۔ پھر مارچ شروع کردیں گے۔ کچھ تذبذب میں آگئے۔ اتنے میں گرین ایرو پلٹن کو ہانک کر دریا پار کرا چکی تھی اور پل کے دوسرے کنارے تک پہنچ چکی تھی۔ یہاں سے پیدل سوار پیادہ فوج نے اپنی راہ لینی تھی اور گرین ایرو ایکسپریس نے اپنی رفتار پکڑنی تھی کہ مجھے کچھ سوجھی اور میں ریلوے لائن کے درمیان روشنی میں کھڑا ہوگیا اور گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ جونہی ٹرین رکی میجر لودھی بڑھ کر انجن کے قریب ہوئے اور اوپر سے لٹکتے ہوئے ڈرائیور کو اپنے ’پلان‘ سے آگاہ کیا۔ وہ خوش دلی سے مان گیا۔ اب اگلا مرحلہ بکھری ہوئی پلٹن کو جو وائرلیس کے کنٹرول سے بھی آزاد تھی ٹرین پر سوار کرنا تھا۔ ہم انجن میں سوار ہو گئے اور ہر تھوڑی دیر بعد ٹرین رکوا کر کھڑکی سے باہر لٹک کر جوانوں کی قریبی ٹولی کو سوار ہو جانے کا حکم دیتے۔ جوان پہلے تو حیران ہوتے پھر آواز پہچان کر خوشی خوشی ٹرین پر سوار ہو جاتے۔ اس طرح ہم نے ٹولیوں کی ٹولیوں کو سوار کر لیا۔ اور جب ٹرین کی رفتار خاصی تیز ہو چکی تھی تو لفٹننٹ اقبال ( بعد میں میجر اور اب مرحوم)۔ تیز تیز مارچ کرتے نظر آئے۔

ٹرین کو پھر رکوایا گیا اور جب انہیں آواز دی گئی تو حیرت سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچے۔ انہیں بھی سوار کرنے کے بعد اس ایکسپریس ٹرین کی یہ اومنی بس والی سروس ختم ہوئی اور اگلے ستٹیشن پر جب ہم اترے تو ٹرین کا عملہ جو پہلے جھنجھلایا پھر حیران ہوا اور آخر میں لطف اندوز‘ ہمارا دوست بن چکا تھا۔

یہ کہانی ختم کرکے ہم نے داد طلب نظروں سے اپنے بزرگ دوست کی طرف دیکھا جو بغور ساری کہانی سننے کے بعد ایک اپنی کہانی سنانے کو تیار بیٹھے تھے۔ اور ان کی کہانی سن کر ہمارے تو چھکے ہی چھوٹ گئے!

کہانی دوسرے اور آخری درویش کی

کہنے لگے میں ایگزیکٹو انجینئیر تھا تو مجھے ایک دن سرکاری ڈیوٹی پر چنیوٹ جانا ہوا جو دریائے چناب کے کنارے پر ہے۔ ۔ انسپکشن ختم کرکے میں نے بتایا کہ مجھے ایک میٹنگ کے سلسلے میں دریائے چناب کےدوسری طرف ربوہ جانا ہے۔ ان دنون بسیں تو اتنی چلتی نہیں تھیں اور کسی ٹرین کا وقت تھا نہیں۔ (قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1963 یا 1964 کا واقعہ ہوگا)۔ اسسٹنٹ انجینئیر (ورک انچارج) کہنے لگے اپنی انسپکشن ٹرالی(ٹھیلہ) جو ہے۔ آپ لیٹ ہورہے ہیں تو اسی پر چلے چلتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اسی پر چلتے ہیں تم لائن کلیرنس لے لو۔

تھوڑی دیر میں ورک انچارج نے بتایا کہ ٹرین تو کوئی آ جا نہیں رہی البتہ ایک خالی انجن چلا ہوا ہے لالیاں سے۔ (چنیوٹ سے دوسرا سٹیشن ہے)۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد میں نے کہا پھر پتہ کریں انجن کا۔ میں میٹنگ سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ تھوڑی دیر میں ورک انچارج آئے اور کہنے لگے چلیں سر چلتے ہیں انجن تو ابھی تک ربوہ بھی نہیں پہنچا۔ چنانچہ ہم ٹھیلے پر چل پڑے۔ ( یاد رہے یہ وہ زمانہ تھا کہ ٹھیلے پر انجن نہیں ہوتا تھا۔ چار قلی اسے باری باری دھکیلتے تھے اور بوقت ضرورت ٹھیلے کو پٹڑی سے اتار کر نیچے بھی رکھ لیتے تھے ) ہمارے ساتھ ورک انچارج کے دو نوعمر بیٹے بھی تھے۔ چنیوٹ کے قریب دریائے چناب پہاڑیوں میں سے ہوکر دو شاخوں میں بٹ کر گزرتا ہے۔ دونوں پر پلیں بنی ہوئی ہیں۔ جب ہم پہلی پل میں داخل ہوچکے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے سے وہ موذی انجن پوری رفتار سے چلا آرہا ہے۔ اس کے بعد کچھ یاد نہیں اگلے چند سیکنڈ میں کیا ہوا۔ انجن کے ٹھیلے سے ٹکرا کر اسے اڑا پھینکنے کی آواز سنی اور پھر سکون ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ میں پل کے ایک گارڈر سے چمٹا ہوا تھا اور ورکس انچارج ایک دوسرے گارڈر سے۔ میرے دل میں سب سے پہلے لڑکوں کا خیال آیا۔ دیکھا تو وہ بھی ایک گارڈر سے چمٹے ہوئے تھے۔ اس سے اطمینان پا کر قلیوں کی فکر ہوئی۔ نظر دوڑائی تو نیچے سردیوں کے پرسکون پانی پر ان کی سرخ پگڑیاں تیرتی نظر آئیں۔ کنارے پر موجود کچھ لوگ ان کی مدد میں مصروف پا کر ادھر سے بھی تسلی ہوگئی۔

ان کی کہانی سن کر میں تو سناٹے میں آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی یہ واقعہ یاد کرکے اور اپنے آپ کو ان کی جگہ رکھ کے سوچوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ایمان کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ’بزرگ‘ دوست کی کہانی بزرگ تر رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2