کیا پاکستانی قوم تبدیلی کے لائق ہے


عمران خان کو وزیراعظم بنے 45 دن سے زیادہ ہوگئے۔ لیکن عوام جس تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ وہ تبدیلی نہیں آئی۔ وہ تبدیلی جس کی امید میں 1 کروڑ 68 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیے۔ وہ تبدیلی جس کی خاطر پاکستانیوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کو رد کرتے ہوئے، 22 سالوں سے سیاسی جدوجہد کرنے والے عمران خان کو منتخب کیا۔ وہ تبدیلی جس کے دعوے عمران خان اور ان کے ساتھی رہنما جلسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں دعوے کرتے تھکتے نہیں تھے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس تبدیلی کی آس پاکستان کی عوام عمران خان سے لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ آئے گی کیسے اور کتنے عرصے میں آئے گی۔ صرف پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو رد کرنے سے تبدیلی نہیں آسکتی۔ پاکستانی قوم عمران خان سے تبدیلی کی امید ایسے ہی لگائے بیٹھے ہیں۔ جیسے پاکستانی کسی چیز کا آن لائن آرڈر دیتے ہیں اور پھر اس کی ڈلیوری کے انتظار میں آنکھیں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

ہم پاکستانی سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہم نے کوئی بھی چیز پیسے دے کر خریدنی ہے۔ لہذا مطلوبہ چیز فوراً اُن کے سامنے پیش ہونی چاہیے اور چونکہ پاکستانی اپنی خون پسینے کی کمائی سے اس چیز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس لئے مطلوبہ چیز آرڈر دینے والوں کی خواہشات اور ضروریات کے عین مطابق ہونی چاہیے۔ کیونکہ انھوں اس کے پیسے دینے ہوتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ معاملہ تبدیلی کے ساتھ بھی ہے۔ اس بار پاکستانیوں نے پیسے تو نہیں دیے۔ لیکن تبدیلی کی خاطر اپنے قیمتی ترین ووٹ دیے ہیں۔ لہزا پاکستانی قوم اس بار بھی فوری تبدیلی کی امید سے ہیں اور اتنے دن گزر جانے کے بعد تبدیلی نا آنے پر اتاوّلی ہورہی ہے۔

ماضی قریب میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانیوں نے ماضی کی روایات کو توڑتے ہوئے اپنے پر حکمرانی کرنے کے لئے تبدیلی کی خاطر دو پارٹی نظام کو رد کیا اور ایک قدرے نئی جماعت کو منتخب کیا۔

لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جس تبدیلی کی راہ میں پاکستانی پلکیں بچھائیں بیٹھے ہیں۔ کیا پاکستانی اس تبدیلی کے لائق بھی ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانیوں کی اکثیریت نے تبدیلی کی خاطر عمران خان کو منتخب کیا۔ لیکن کیا عمران خان کو منتخب کرنے سے تبدیلی آجائے گی؟

اگر ہم پاکستان کے ماضی اور حال کا احوال دیکھیں۔ تو پتہ چلے گا پاکستان میں تبدیلی حکمران تبدیل کرنے سے نہیں آئے گی۔ بلکہ اصل تبدیلی تب آئے گی جب پاکستان عوام تبدیل ہوں گے ۔ ووٹ دینے سے حکمران تو تبدیل ہوسکتے ہیں۔ مگر حالات نہیں۔ وہ حالات جن کے ذمہ دار عوام خود ہے۔ نا کہ حکمران۔

پاکستانی قوم اکہتر سالوں سے ایسی سُستی، کاہلی اور کام چوری کا شکار ہے کہ کوئی بھی حکمران برسر اقتدار آجائے۔ پاکستانی قوم کے حالات بدلنے والے نہیں اور اس کی وجہ یہ کہ پاکستانی قوم حکمران تو بدل سکتے ہیں۔ لیکن اپنی عادات، خیالات اور حرکات نہیں۔

مثلاً جس قوم کی خواتین ماچس کی تیلی بچانے کے لئے گھنٹوں گیس کا چولہا جلا رہنے دیں۔
جو قوم ٹریفک اشاروں پر کھڑا ہونا اپنی توہین اور اشارے توڑنے پر فخر محسوس کرتی ہو۔
جس قوم کے موٹر سائیکل سوار سڑکوں کو اپنے باپ کی سڑک سمجھتے ہوئے دائیں لین میں موٹر سائیکل دوڑائیں۔
ریلوے پھاٹک بند ہونے پر جس قوم کے سائیکل سوار سائیکلیں کندھوں پر اٹھا کر پھاٹک کراس کریں۔

جو قوم پیدل چلنے والوں کے لئے لاکھوں روپوں سے تعمیر کردہ پُل کو استعمال کرنے کی بجائے ٹریفک کے بیچ میں سے سڑک عبور کرے۔
جس قوم کے گھر صاف اور گلیاں گندی ہوں۔
جس قوم کے موٹر سائیکل سواروں کو بذریعہ بھاری جرمانہ پابند کیا جائے کہ ہیلمٹ لازمی پہننا ہے۔ جو کہ ان کی اپنی حفاظت کے لئے ہی ہے۔
جو قوم ٹریفک قوانین کی پابندی کرنے سے قاصر ہو اور بھاری جرمانوں کی وجہ سے اپنے رکشے اور موٹر سائیکل جلا دے۔

ایسی قوم کے حکمران تبدیل ہونے سے تبدیلی کبھی بھی نہیں آسکتی۔ کیونکہ تبدیلی حکمرانوں کی تبدیلی سے نہیں، عوام کی تبدیلی سے آتی ہے۔ عوام کی سوچ، ان کے برتاؤ، ان کے رہن سہن اور عوام کے آپس میں روّئیے اور لین دین کے معاملات میں دیانتداری سے آتی ہے۔ دوسروں کا احساس کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھا کر آتی ہے۔ قوانین کی پابندی اور عوام کی بہتری کے لئے بنائے گئے اصولوں کی پاسداری سے آتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ صرف 45 دنوں میں عمران خان سے تبدیلی کی امید کرنا بیوقوفی ہے۔ لیکن تبدیلی کے طلبگاروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف حکمران تبدیل کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تبدیلی آجائے گی۔ حقیقی تبدیلی تب آئے گی۔ جب وہ اپنے آپ کو تبدیل کریں گے۔ ہم نے حکمران تو تبدیل کرلئے۔ ایک بار اپنے آپ کو بھی تبدیل کرکے دیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).