قصہ کنواری فاحشہ اور ایماندار سیاستدان کا


فرخ میاں کیسے مزاج ہیں؟ اتوار کے روز بھی گلے میں بستہ لٹکائے کدھر دوڑے چلے جارہے ہو؟ اشرف انکل نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ وہ ہمیشہ سے یوں ہی کیا کرتے۔ فجر سے پہلے اٹھ جاتے۔ غسل کرتے نماز پڑھتے، ننگے پاوں گھاس پر چہل قدمی کرتے اور پھر فلیٹ کے گیٹ پر گل خان کیساتھ گپ میں مصروف ہوجاتے۔ اس ہی درمیان ہر آتے جاتے شخص کو آواز دیکر اسکا مزاج پوچھنا اپنا فرض جانتے۔ اگر کوئی غریب غلطی سے دوگھڑی رک کر جواب دے دیتا تو اسے صبح جلدی اٹھ کر گھاس پر ننگے پاوں چلنے کی آفادیت پر لیکچر دیتے۔ فرخ میاں اشرف صاحب کی اس حرکت سے نالاں تھے اور کچھ اتوار کے روز دفتر جانا پڑ رہا تھا تو پارا چڑھا ہو تھا۔ چڑ کر بولے۔ جناب کتوں کا کوئی اتوار نہیں ہوتا۔ بلکہ میں تو سوچتا ہوں یہ اتوار بنایا ہی کس کتے نے ہے؟ سارا ہفتہ باس کے تلوے چاٹو اور ایک دن چھٹی مل بھی جائے تورہو گے تو اس دن بھی غلام ہی نہ۔ اب دیکھیں چپ چاپ دم ہلاتے ہوئے دفتر جارہا تھا کہ آپ نے روک لیا۔

صبح اٹھنے، اور گھاس پر ننگے پاوں چلنے کے فوائد سے میں آشنا ہوں۔ کسی جگہ مضمون لکھنے کو آیا تو بیان کرکے اول آسکتا ہوں۔ اور یہ غسل کے فرائض و فوائد پر اس طرح کون لیکچر دیتا پھرتا ہے؟ اب کیا ہمیں نہانا بھی آپ سکھائیں گے؟ فرخ پھٹ پڑا۔ اشرف صاحب کی ایک سانس اوپر دوسری نیچی رہ گئی۔ الفاظ جیسے کہیں گم ہوگئے۔ ہڑبڑا کر بولے۔ بیٹا غصہ کیوں ہوتے ہو۔ وہ میں پوچھ رہا تھا آج آپکو میں دفتر چھوڑ آوں؟ گاڑی کا تازہ تازہ کام کرایا ہے، تھوڑی سی رواں بھی ہوجائے گی۔ یہ سننا تھا کہ فرخ خوشی سے اچھل پڑا۔ ساتھ ہی اشرف صاحب کو پچھتاوا کھانے لگا۔ یہ کیا کردیا۔ کہنا کیا چاہتا تھا اور کہہ کیا گیا؟ دراصل وہ فرخ سے ایک اشتہار لکھوانا چاہتے تھے۔ ان کو اپنی گاڑی کیلیے ڈرائیور درکار تھا۔ خیر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب دل بڑا کیا اور گاڑی لے آئے۔ وہ فرخ بیٹا ایک کام تھا تم سے۔ کہیے۔ بیٹا مجھے ایک ڈرائیور درکار ہے۔ تم اشتہار لکھ دو گے؟ جی وقت ملا تو لکھ دوں گا۔ فرخ نے منہ بنا کر بولا۔ آپکو کیسا ڈرائیور چاہیے۔ اب سوال کی باری اسکی تھی۔ دیکھو بیٹا۔ گاڑی چلانی آتی ہو، لائسینس یافتہ ہو، گاڑی دھیمی چلاتا ہو۔ یہ کہہ کر وہ کچھ سوچ میں پڑ گئے اور ہاں ایماندار ہو اور نوجوان بالکل نہ ہو۔

انکل آپکو ڈرائیور چاہیے یا مسجد کا امام جو ایماندار ہو اور نوجوان بھی نہ ہو؟ کیسے جانچیں گے آپ ایمانداری ؟ اور جو شخص ڈرائیور کی نوکری کیلیے آئے گا ظاہر ہے گاڑی چلانے کے فن سے واقف ہی ہوگا۔ بھئ کیوں نہ جانچیں ایمانداری؟ اگر پیٹرول کے پیسوں میں سے پیسے مارنے لگا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ کہہ کر وہ داد طلب نگاہوں سے فرخ کی جانب دیکھنے لگے جیسے کوئی معرکہ فتح کرلیا ہو۔ ہاں تو ٹھیک ہے، سو ڈیڑھ سے روپے مارلینا کہیں پر پوری گاڑی ماردینے سے تو بہتر ہے نہ۔ جلدی فیصلہ کریں ڈرائیور ایماندار چاہیے یا تجربہ کار۔ کسی ایک کو چننا ہوگا۔ ارے بھئ ایسے کیسے!! ہم نے تو اپنے ملک کا ڈرائیور بھی ایماندار چنا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اس انداز میں ہنسے جیسے اب فرخ کو لوٹ لیا ہو۔ ہاں تو اب ایماندار ڈرائیور چن ہی لیا ہے تو جاگتے رہیے گا۔ کہیں پیٹرول کے پیسے بچانے کے چکر میں وہ پوری کی پوری گاڑی ہی نہ دے مارے۔ اتنے میں دفتر آگیا۔ وہ فاتحانہ انداز میں گاڑی سے اترا۔ دروازہ بند کرکے کھڑکی سے جھانکا اور بولا۔ اشرف صاحب فاحشہ کنواری اور سیاستدان ایماندار نہ تو ہوا کرتے ہیں، اور نہ ہی رہا کرتے ہیں۔ اشرف صاحب سمجھنے کی کوشش ہی میں تھے کہ ڈھز کی آواز آئی، اور جھٹکا لگا۔ شاید کوئی ایماندار، میرا مطلب ہے ناتجربہ کار ڈرائیور پیچھے سے کھڑی گاڑی میں گاڑی مار چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).