شہباز شریف کی گرفتاری سے جمہوریت خطرے میں آ گئی یا کرپٹ مافیا


پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے تین بار وزیر اعلیٰ رہنے والے خادمِ اعلیٰ شہباز شریف آخر کار گرفتار کر لیے گئے۔ یہ وہی خادمِ اعلیٰ ہیں جو مکا لہرا کے کہا کرتے تھے کہ ”مجھ پر ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت ہوئی تو مستعفی ہو جاؤں گا“ ۔ خیر یہ کرپشن ایک یا دو روپے کی نہیں اربوں کی نکلی۔ اب میاں صاحب مستعفی ہوں یا نہ ہوں نیب انہیں ریٹائرڈ کر کے چھوڑے گی۔ ہمارے کئی کالم نگاروں نے تو خادمِ اعلیٰ کو قاتل، فاسد اور فاجر سمیت کئی اہم اور خطرناک القابات سے نوازا جو کہ میں بالکل نہیں کروں گا لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ چھوٹے میاں صاحب آپ خود ہی فرماتے تھے کہ کرپشن ثابت کرو اور آج اگر کرپشن کیس میں دھر لیے گئے ہیں تو اپنے پارٹی کارکنوں کو فرمائیں کو چیخنے چلانے کی بجائے آپ کو صفائی پیش کرنے کا موقع دیں، اگر آپ واقعی قوم کے سب سے بڑے مخلص اور خیر خواہ تھے توپاکستانی نیب کیا، دنیا کی کوئی احتساب عدالت آپ کا کچھ نہیں بگاڑسکتی مگر یہ معاملہ قانونی طریقے سے حل ہونا چاہیے۔

اگرآپ کی ہر پیشی پر اسی طرح نون لیگی ارکان عدالت کا گھیراؤ کریں گے، ڈنڈا اور پتھر چلیں گے تو پھر کون سی عدالت اور کون سا انصاف۔ اور اس پر مزید حیرت کی بات نون لیگی رہنماؤں کی پریس کانفرنس رہی جس میں یہ لوگ دھرنے اور احتجاج کی دھمکیاں دیتے رہے اگرچہ انہیں یاد ہونا چاہیے کہ دھرنے کے لیے عمران خان نے خود کنٹینرز بطور تحفہ دینے کی پیشکش کی ہوئی ہے۔ جب حکومت دھرنے کے لیے مکمل تعاون کی یقین دھانی کروا چکی ہے تو پھر ایسی تھرڈ کلاس دھمکیاں نہ تو نون لیگ کو زیب دیتی ہیں اور نہ ہی ان دھمکیوں سے عمران خان کے ارادوں کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔

عمران خان کی حالیہ پریس کانفرنس سے دلی تسلی ہوئی کہ جو دعوی انہوں نے اپوزیشن میں بیٹھ کے کیے تھے ان میں سے ایک بھی نہیں بھولے۔ سب سے پہلا اور بنیادی دعویٰ کرپشن کے خاتمے کا تھا اور اس پر کام تیزی سے جاری ہے۔ منی لانڈرنگ روکنے کا دعویٰ بھی پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے۔ کبھی فالودہ فروش ارب پتی بنا تو کبھی ایک طالب علم اور متوسط ڈرائیو کروڑ پتی بن گئے سو یہ واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ ان چوروں اور ڈاکوؤں کو کسی بند گلی میں گھسنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ یہ لوگ ڈر کے مارے جس گلی میں بھی جائیں گے نیب کی ٹیم ہتھکڑی کے ساتھ ان کا سواگت کرے گی لہٰذا ان سب کی بہتری اسی میں ہے کہ قوم کا لوٹا پیسہ بھی واپس کریں اور اعترافِ جرم بھی کریں اور سزا بھگتیں، ان کی پارٹی کی اور ان کی ذاتی بقا اسی میں ہے۔

اس ساری صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی کا رویہ حیرت انگیز تھا کہ ” شہباز شریف کی گرفتاری سے جمہوریت خطرے میں پڑ گئی“ ۔ بھئی کوئی ان سے یہ پوچھے کہ پچھلے چالیس سالوں سے اس ملک کی ہڈیاں تک بیچ کر کھانے والوں سے جمہوریت کو کئی خطرہ نہیں، آصف ذرداری ہمشیزہ سمیت منی لانڈرنگ کے یے جعلی اکاؤنٹس بنواتے رہے، اربوں کے گھپلے کرتے رہے مگر جمہوریت خطرے میں نہیں پڑی، بے نظیر کا قتل ہوا، اس کے ملزم خود پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بھی اسمبلیوں میں بیٹھے رہے مگر جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف پر کیس چلے، وہ جیل گئے، پیشیاں بھگتیں اور ضمانت پر رہائی ملی مگر جمہوریت خطرے میں نہیں آئی۔

پچھلے چالیس سالوں میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر طریقے سے آمر کی حمات کی، ہر طریقے سے اس ملک کو لوٹا مگر جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوا، سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسا اندوہ ناک واقعہ ہوا، اس کے لیے تین جے آئی ٹیز بنی اور تینوں شہباز شریف نے بنوائی تھیں، انہیں جے آئی ٹی نے چھوٹے میاں صاحب کوکلین چٹ بھی دے دی مگر جمہوریت خطرے میں نہیں آئی۔ ماڈل ٹاؤن کے مظلومین انصاف کے لیے ابھی تک عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں مگر جمہوریت ابھی تک مضبوط ہے۔ تھرپارکر میں ہزاروں کی تعداد میں بچے بھوک اور پیاس کی شد ت سے مر گئے مگر بلاول بھٹو اسلام آباد میں بیٹھ کر جمہوریت کا راگ الاپتے رہے۔

مراد علی شاہ اور قائم علی شاہ سمیت سندھ ہر دور میں استحصال کا شکار ہوا مگر بلاول بھٹو کو جمہوریت پر کوئی خطرہ منڈلاتا نظر نہیں آیا۔ بلاول بھٹو کے والد اور پھوپھو جان پر منی لانڈرنگ کے واضح ثبوت سامنے آئے مگر بلاول بھٹو نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ جمہوریت خطرے میں ہے لہٰذا بابا جان اور پھوپھو جان کو کٹہرے میں پیش ہونا چاہیے۔ مشرف سمیت جب کئی دوسرے ڈکٹیٹرز نے ملک پر شب خون مارا، جب مشرف نے سانحہ لال مسجد سمیت کئی ظلم کیے اس وقت تو جمہوریت اپنے قدموں پہ کھڑی رہی اورآج جب ایک اپوزیشن لیڈر پکڑا گیا تویکدم جمہوریت خطرے میں آ گئی۔ یعنی عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ انہیں صرف یہ ڈر ہے کہ آج اگر ہم نے جمہوریت کا راگ نہ الاپا تو کل کلاں ہمارے لیے کون شور مچائے گا، کل ہمیں کون مظلوم اور حقیقی جانثار کہے گا۔

بس یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف پکڑے گئے اور جمہوریت خطرے میں آ گئی۔ اگر چوروں، کرپٹ مافیا اور قومی مجرموں کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے جمہوریت خطرے میں آ جاتی ہے تو نون لیگی اور پیپلز پارٹی کے متشدد کارکن سن لیں کہ اگلے پانچ سال (جب تک تحریک انصاف کی حکومت ہے)جمہوریت خطرے میں ہی رہے گی کیونکہ اللہ اللہ کر کے اب پاکستان کو ایسا لیڈر میسر آ ہی گیا کہ جو پچھلے ستر سالوں میں اس ملک کے ساتھ دغا کرنے والوں کا حساب لے سکے سوایسے میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے مصلہ بچھا کر اپنے بچنے کی دعا کریں اور کسی بزرگ سے وظیفہ پوچھ کر دن رات کریں کیونکہ اب جمہوریت کو تو کئی خطرہ نہیں، ہاں البتہ ان کے وجود کو خطرہ ضرور لاحق ہو گیا ہے جو بالکل بھی ٹلنے والا نہیں۔

بلاول ذرداری سمیت دیگراپوزیشن رہنما اور بالخصوص چور، ڈاکو اور لٹیرے اب جمہوریت کا راگ الاپنا بند کر دیں کیونکہ عمران خان نے واضح کر دیا ہے کہ کسی کو این آر او نہیں ملے گا ورنہ پیپلز پارٹی کے کتنے اراکین نے گزشتہ این آر او میں قرضے اور کیسز معاف کروائے اس کی تاریخ گواہ ہے۔ اگر اپوزیشن کے لوگ اُس کیس کا مطالعہ کر لیتے تو شاید انہیں آج یہ سٹیٹ منٹ نہ دینی پڑتی کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ پچھلے ستر سالوں میں کسی نہ کسی طرح سے ملک کو لوٹنے والے بیوروکریٹس، جمہوریت پر شب خون مارنے والے لٹیرے سیاستدان، مفادات کی جنگ لڑنے والے ہمارے اینکرز اور بکاؤدانشور، اپنی جیبیں گرم کرنے والے مغربی ایجنٹ، لبرل ازم کا واویلا کرنے والے پڑھے لکھے جاہل اور دین فروش ملاں (جنہوں نے ہمیشہ اپنا مفاد سامنے رکھا اور اسلام کا چولا پہن کرصرف وہ اسلام پھیلایا جس میں ان کا ذاتی مفاد چھپا تھا) اب کوئی بھی نہیں بچنا چاہیے۔ اور ایسے میں اگر کسی کو لگتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے تو پھر وہ سمجھ لیں کہ اگلے پانچ سال جمہوریت کو خطرہ ہی رہے گا کیونکہ بقول عمران خان ابھی پچاس مرغے باقی ہیں جن کی فہرست مرتب کی جا چکی ہے سو اب جمہوریت بچے گی یا یہ کرپٹ مافیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).