حکومت کا نظام سقہ معاشی ماڈل


اوورسیز پاکستانیوں نے نئے پاکستان کے نہایت ہی صادق اور امین وزیراعظم کی اپیل کے باوجود ہزار ہزار ڈالر نہیں بھیجے۔ انہوں نے ووٹ بھی نہیں بنوائے جس کی وجہ سے اگلے انتخابات میں مزید نیا پاکستان بنانے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔ بہرحال پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے ذہن میں ایک بہترین منصوبہ ہے جس کے ذریعے ان سے نئے پاکستان کی خاطر معقول رقم نکلوا سکتے ہیں۔ بلکہ ہزار ڈالر کی جگہ ان سے ملین ڈالر چندہ لے لیں گے۔

ہمیں اعلی حضرت خلد آشیانی شہنشاہ نصیر الدین ہمایوں کی زندگی سے سبق لینا چاہیے۔ جب شہنشاہ ہمایوں کی سلطنت ان کے گھوڑے سمیت ڈوب رہی تھی تو انہیں ایک شخص نظام سقہ نامی نے اس مشکل سے باہر نکالا۔ شہنشاہ ہمایوں نے اس سے سروس فیس پوچھی تو اس نے ڈھائی دن کی بادشاہت مانگ لی۔

شہنشاہ نے یہ سوچ کر نظام سقے کو حکومت سونپ دی کہ وہ نہ صرف یہ کہ نہایت غریب ہے اور غریبوں کے مسائل سمجھتا ہے بلکہ اس کے گھر میں روشنی کا انتظام بھی نہیں ہے۔ شام سے ہی اس کا چراغ بجھا بجھا سا رہتا ہے۔

نظام نے محض ڈھائی دن کی حکمرانی میں اہم اصلاحات کیں۔ مثلاً غریب ہونے کی وجہ سے اسے احساس تھا کہ غریبوں کے پاس سونا چاندی نہیں ہوتا۔ سب ان کی کھال اتارتے ہیں۔ اس لیے اس نے چام کے دام چلا دیے۔ یعنی اشرفیوں کی جگہ چمڑے کے سکے۔ آپ خود سوچیں کہ ان ڈھائی دنوں میں ہی ٹینری والوں اور گجروں نے کتنے نوٹ چھاپے ہوں گے۔ وہ غریب ترین سے امیر ترین بن گئے ہوں گے۔ تبدیلی الگ آ گئی ہو گی۔ بلکہ ہمیں حیرت نہیں ہو گی اگر ان ڈھائی دنوں میں ڈنگر چوروں نے محض نوٹ چھاپنے کی نیت سے مویشی پار کرنے شروع کر دیے ہوں۔

بہرحال اگر اسی ماڈل پر عمل کرتے ہوئے بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی آفر کی جائے کہ وہ چاہیں تو معیشت کی ڈوبتی ہوئی نیا بچانے کے صلے میں ڈھائی دن کے لیے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ بولی لگا دی جائے کہ اگلے ڈھائی دن کے لیے کون وزیراعظم بنے گا۔ بولی کی رقم دس لاکھ ڈالر سے شروع کی جائے۔ شروع شروع میں تو کئی لوگ کروڑ کروڑ ڈالر بھی دے دیں گے تاکہ 55 روپے کے ہیلی کاپٹر وغیرہ جیسے عجوبے کی سیر کر سکیں۔ اور آخر آخر میں جب ان میں سے بعض کاروباری حضرات کو یہ سمجھ آ جائے گی کہ اس سیٹ پر اچھا بزنس کرنا بھی ممکن ہے اور وہ چمڑے کو سونے کے ریٹ پر بیچ سکتے ہیں تو وہ اربوں ڈالر بھی دے سکتے ہیں۔

بفرض محال یہ سکیم کامیاب نہ ہو تو پلان بی کے طور پر ایک ایک لاکھ ڈالر کے عیوض ایک گھنٹے کی وزارت عظمی کی سکیم بھی لانچ کی جا سکتی ہے۔ کام تو تھوڑا پرچون کا ہو جائے گا مگر زیادہ لوگ ملکی ترقی میں حصہ ڈال سکیں گے۔ اگر مزید بزنس بھی لانا ہے تو پھر شہریت کی شرائط میں بھی نرمی کی جا سکتی ہے۔ دوہری شہریت والوں کو بھی موقع دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

عوام کو بھی اس سکیم سے فائدہ پہنچے گا۔ کسی دن چام کے دام چل رہے ہوں گے تو اگلے دن چار ہزار میڈیکل کالجوں کے پروانے جاری ہو جائیں گے۔ اس سے اگلا حکمران گاڑیوں کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی اجازت دے دے گا تو اس سے اگلا نئی سرکاری زمینوں پر نئی رہائشی سکیموں کا اعلان کے پلاٹ بانٹ دے گا۔ کوئی وزیراعظم انڈے ڈبل روٹی کی تجارت کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا تو کوئی عوام کو گھی میں چپڑ دے گا۔ کوئی سگریٹ پر ٹیکس ختم کر دے گا تو کوئی بھنگ کی سردائی کو قومی مشروب قرار دے گا۔ یعنی امکانات کا ایک جہان ہے اور معیشت میں ایک تنوع پیدا ہو جائے گا۔

ان ڈھائی دن کے بادشاہوں کی لائیو کوریج کے لیے سہیل وڑائچ صاحب سے درخواست کی جا سکتی ہے جن کا پروگرام ”ڈھائی دن نظام سقے کے ساتھ“ کھڑکی توڑ مقبولیت حاصل کرے گا۔ نہ صرف پاک و ہند بلکہ مغربی دنیا میں بھی وہ اچھا بزنس کرے گا اور اہل مغرب کو گیم آف تھرونز وغیرہ کے سحر سے نکال کر اصل گیم دکھائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت ہماری تجویز پر سنجیدگی سے غور کر کے ”نظام سقہ معاشی ماڈل“ پیش کرے گی اور وطن عزیز کو آئی ایم ایف کے چنگل سے بچا لے گی۔ وزیراعظم کی بھینسیں بیچنے میں کامیابی کے بعد وزیراعظم کی سیٹ بیچنے کا منصوبہ بھی زیر غور لانا چاہیے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar