سعودی صحافی جمال خاشقجی زندہ ہیں یا سعودی کونسل خانے میں قتل کردیے گئے؟


گزشتہ ہفتے سے عالمی میڈیا خصوصاً امریکی میڈیا پر سعودی صحافی جمال خاشقجی کی نیوز کے چرچے ہیں۔ جمال خاشقجی کی اصل میں کہانی کیا ہے؟ کیا وہ زندہ ہیں یا انہیں قتل کردیا گیا ہے؟ آج اس حوالے سے تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ جمال خاشقجی ایک سعودی صحافی ہیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ دو اکتوبر کے دن سعودی صحافی جمال خاشقجی ترکی کے شہر استنبول میں سعودی کونسل خانے میں گئے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق شاید انہیں کچھ ڈاکومنٹس کی تصدیق کرانی تھی۔ جمال خاشقجی کے ساتھ ان کی بائیس سالہ منگیتر بھی تھی۔ خود وہ سعودی کونسل خانے کے اندر چلے گئے اور اپنی منگیتر کو کہا کہ وہ سعودی سفارتخانے کے باہر اس وقت تک موجود رہے جب تک وہ اپنا کام کرا کے کونسل خانے کے باہر نہیں آجاتے۔

سعودی کونسل خانے کے باہر موجود جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز

جمال خاشقجی نے اپنا موبائل فون بھی منگیتر کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی کونسل خانے میں موبائل ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کونسل خانہ کے اندر جانے سے پہلے جمال خاشقجی نے اپنی منگیتر کو کہا کہ اگر وہ سعودی کونسل خانہ کے اندر بہت دیر تک رہتے ہیں تو حکام سے رابطہ کرے۔ اب منگیتر باہر کھڑی ہوگئی اور جمال خاشقجی اندر چلے گئے۔ جب جمال خاشقجی گیارہ گھنٹے تک سعودی کونسل خانے سے باہر نہ آئے تو بیچاری منگیتر کو پریشانی لاحق ہو گئی کہ جمال خاشقجی صاحب آخرکار گیارہ گھنٹے سے کیوں باہر نہیں نکلے۔ جمال صاحب کی منگیتر نے ترک حکام سے رابطہ کیا۔ اس کے بعد ترک پولیس اور انٹیلی جنس حکام سرگرم ہوگئے۔

ترکی کے اعلی حکام سعودی کونسل خانے کے اندر گئے اور سعودی حکام سے پوچھا کہ جمال خاشقجی کہاں ہے؟ سعودی کونسل والوں نے کہا کہ جمال خاشقجی اپنے کام کے سلسلے میں آئے تھے اور کام کرا کے چلے گئے۔ ہمیں کیا معلوم کہ اب وہ کہاں ہیں؟ منگیتر نے کہا کہ وہ تو پچھلے گیارہ گھنٹے سے سعودی کونسل خانے کے باہر کھڑی ہیں۔ جمال خاشقجی اگر کونسل خانے سے باہر آتے تو سب سے پہلے ان سے ملاقات ہوتی کیونکہ جمال صاحب کا موبائل فون بھی ان کی منگیتر کے پاس تھا۔ اس کے بعد کیا تھا کہ ترک پولیس حکام نے سعودی کونسل خانے میں ڈیرہ ڈال دیا اور تفتیش شروع کردی۔ عالمی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے جمال خاشقجی کی منگیتر کا کہنا تھا کہ جب وہ باہر کھڑی تھی تو اسی دوران پندرہ سعودی حکام بھی سفارتخانے کے اندر گئے تھے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق دو اکتوبر کے دن دو خصوصی طیاروں میں سعودی عرب کے 15 خصوصی اہلکار استنبول پہنچے تھے اور یہ لوگ سفارتخانے کے اندر بھی گئے تھے۔

عالمی میڈیا یہاں تک کہہ رہا ہے کہ ان خصوصی اہلکاروں نے جمال خاشقجی کو قتل کیا اور اس کے بعد ان کی لاش ٹکڑوں کی شکل میں باہر منتقل کی۔ ترک پولیس حکام کے مطابق جمال خاشقجی کو سعودی کونسل خانے کے اندر قتل کیا گیا ہے اور اس کے بعد بڑی ہوشیاری سے ان کی لاش کو ان پندرہ خصوصی اہلکاروں نے باہر منتقل کرکے غائب کردیا۔ عالمی میڈیا کے مطابق جمال خاشقجی کی سعودی کونسل خانے میں جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے لیکن باہر آنے کی فوٹیج نہیں ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے کہا کہ جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کی مکمل تحقیقات ہوگی۔ ادھر سے کچھ امریکی سنیٹرز اور امریکی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ باب واکر نے کہا ہے کہ اگر جمال خاشقجی کی گمشدگی میں سعودی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ثابت ہوگیا تو یہ سعودی عرب کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ اس کے لئے سعودی حکومت کو نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے بھی جمال خاشقجی کی گمشدگی یا قتل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جمال خاشقجی دنیا کی معروف اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لئے کالم لکھتے تھے۔ واشنگٹن پوسٹ انتظامیہ نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے خصوصی کردار ادا کرے۔ جمال خاشقجی کا شمار دنیا کے بڑے صحافیوں میں ہوتا ہے۔ 1980کی دہائی سے انہوں نے صحافت کا آغاز افغان جنگ سے کیا۔ اسی سلسلے میں وہ پشاور میں مقیم رہے۔ انہوں نے افغان جنگ کی رپورٹنگ کی۔ اس کے علاوہ اسامہ بن لادن کے بھی کئی انٹرویوزکیے ۔

اس کے علاوہ جمال خاشقجی عرب نیوز کے ڈپٹی اڈیٹر رہے۔ الوطن کے ایڈیٹر رہے۔ جمال خاشقجی سابق سعودی انٹیلی جنس چیف ترکی بن عبدالعزیز کے میڈیا ایڈوائز بھی رہے۔ پچھلے سال سے وہ کہہ رہے تھے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ان کو قتل کرانا چاہتے ہیں۔ جمال خاشقجی سعودی ولی عہد کی پالیسیوں اور سعودی بادشاہت کی اندرونی لڑائیوں پر ناقدانہ مضامین لکھتے رہے ہیں۔

انہو نے لکھا کہ سعودی عرب میں انتہا پسندوں کے خلاف جو کریک ڈاون ہورہا تھا حقیقت میں اس کریک ڈاون میں انتہا پسندوں کو محفوظ کیا جارہا تھا اور ان ایکٹیویسٹوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا جو اپنے حقوق کے حوالے سے آواز بلند کررہے تھے۔ سعودی ولی عہد نے معروف اخبار الحیات میں جمال خاشقجی کا کالم دباؤ ڈال کر بند کرادیا تھا۔ دو اکتوبر کو سعودی کونسل خانہ میں جانے سے پہلے جمال خاشقجی نے گیارہ اکتوبر کو کالم لکھنا تھا واشنگٹن پوسٹ نے جمال خاشقجی کی تصویر شائع کرکے کالم کی خالی جگہ چھوڑ دی ہے۔ اب معلوم نہیں جمال خاشقجی صاحب زندہ ہیں یو انہیں قتل کردیا گیا ہے۔ اگر انہیں لاپتہ کیا گیا ہے تو سوال یہ کہ وہ کہاں ہیں۔ اگر جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ ان کی لاش کہاں ہے؟ کیا مسلم دنیا میں حکومتوں کی پالیسیوں پر طنز کرنا یا تنقید کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے صحافیوں کو قتل کردیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).