اپنے بچوں پر فوکس کیجیے


پچھلے دس دن سے میں انٹرنیشنل وزٹر لیڈرشپ پروگرام کے تحت امریکہ کے دورے پر ہوں جس کا مقصد پاکستان میں مقامی حکومتوں کی استعاد کار اور کارکردگی کو بہتر اور لوکل باڈیز کو مضبوط کرنا ہے اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے ہمسر لوگوں اور مختلف متعلقہ فلاحی و غیر سرکاری اور کچھ سرکاری اداروں سے ایک دوسرے کے تجربات پر تبادلہ خیال اور سیکھ کا عمل جاری ہے۔

ہمارا یہ دورہ واشنگٹن، لاس انجلس، سپرنگ فیلڈ اور شکاگو میں قیام اور وہاں متعلقہ لوگوں سے ملاقاتوں اور دوروں پر مشتمل ہے۔اور وہاں کے مقامی حکومتی نظام کہ پرکھ پر مبنی ہے۔ خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر بعد میں (دورہ کے اختتام پر) لکھوں گی۔ ابھی جو بات اور تجربہ میں آپ لوگوں کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہوں وہ شائید اس دورہ کہ سب سے پہلی سوچ اور مشاہدہ ہے جو میں نے اول روز ہی محسوس کیا۔

دورے کا پہلا دن واشنگٹن ڈی سی کے اہم مقامات اور عمارتوں کی سیر اور مشاہدے پر مشتمل تھا۔ جس کا مقصد وہاں کے لوگوں کی اجتماعی سوچ، قومی رحجان، اور شہر کے انتظام و انصرام کو سمجھنا تھا۔ پورے شہر کی اہم سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کی تعمیر اس طریقے سے کی گئی ہے کہ ان کی ہر اینٹ کوئی نہ کوئی پیغام دیتی ہے۔ یہاں کی ہر عمارت کی تعمیر کے پیچھے ایک تاریخ، ایک مثبت سوچ، ایک مقصد اور ایک خیر سگالی کا پیغام ہے۔ یہاں سرکاری عمارات کی تعمیر اس طریقہ اور طرز پر کی گئی ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اس زندگی میں کچھ بھی بے مقصد اور بے وجہ نہیں ہے اور کوئی بھی انعام و مقام بغیر جدو جہد کے نہیں ملتا۔ پورے شہر کی تعمیر اس طرح سے کی گئی ہے کہ اس میں اتحاد، تمام ریاستوں کی ثقافت و قومی شناخت، عزت، احترام اور اہمیت اور آذادی کے لئے کے کی گئی ان کی کوششوں اور جدو جہد کے اعتراف کی واضع جھلک نظر آتی ہے۔ جس کا واضع مقصد آنے والی نسلوں میں بھی یہ شعور منتقل کرنا ہے اور شائید امریکی ان عمارتوں کی زبان سمجھتے بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عمارتوں کے رخ سے کے کر ستونوں کی لمبائی، چوڑائی، گولائی، ڈیزاین، ان پر کندہ عبارتیں، غرض پورے شہر کا حدود اربعہ و چار جہتی پیمائش کی ایک زبان ہے اور اس زبان میں ایک پیغام اور مقصد ہے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ یہاں قائدین کی مثبت چیزوں کو یادگار بنا دیا گیا ہے۔ اور ان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے درخشاں لوگوں کی خدمات کے اعتراف کے طور پر جگہ جگہ ان کے مجسمے ہمیں نظر آتے ہیں۔ اور یقین کریں یہ مجسمے بھی بولتے ہیں۔ اور متعلقہ شخص کی تمام تر خصوصیات و خدمات کا اعتراف کرتے اور آنے والی نسلوں کو ان کے آباء کی مثبت خدمات کی داستان سناتے نظر آتے ہیں۔

مثال کے طور پر لنکن میموریل۔ علامتی آرٹ کی بہترین مثال ہے یہ عمارت بھی ایک داستان سناتی ہے۔ وسیع اور کشادہ برآمدہ نما عمارت کے ہال میں آپ کو ابراہام لنکن کا ایک بہت بڑا مجسمہ کرسی پر بیٹھا نظر آتا ہے۔ دیکھنے میں یہ محض ایک مجسمہ ہے۔ مگر مٹی اور پتھروں کی زبان سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ مجسمے نے اپنا بایاں ہاتھ مکے کے طرح بھینچ رکھا ہے جسکا مطلب لیڈر کے اجتماعی مینڈیٹ کی طاقت ہے۔ جبکہ اس کا دایاں ہاتھ سر پر پیار پھیرنے کے انداز میں کھلا ہوا ہے جو عوام کے لیے شفقت اور پیار کی علامت ہے۔ اگر اس مجسمے کے دونوں پاؤں پر غور کریں تو دایاں پاؤں آگے کی طرف ہے۔ جس کا مطلب آگے بڑھنا اور جدت اختیار کرنا ہے۔ جبکہ بایاں پاؤں مضبوطی سے پیچھے جما ہوا ہے جو قومی تاریخ، روائیت، ادب، ثقافت اور اپنی شناخت سے جڑے رہنے کی علامت ہے۔ اب اگر لنکن کے دور کو یاد کیا جائے کہ کیسے اس نے غلامی جیسی لعنت کو ختم کیا اور ریڈ انڈینز کو ان کے حقوق دلوانے کی ابتدا کی، بغاوت کو طاقت سے کس طرح کچلا، قومی اتحاد کو قائم رکھا اور ملک کو جدید دور کے تقاضوں سے روشناس کروایا تو یہ پوری کہانی، جدو جہد اور اس سے حاصل ہونے والا سبق آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اور روزانہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں اور اس سبق کو دہراتے ہیں۔ اور یہ ایک مجسمہ نہیں ہے بلکہ یہاں آپکو ایسے کئی مجسمے جگہ جگہ مختلف عمارتوں کے صحنوں میں ، پارکوں میں اور چوراہوں پر نظر آئیں گے۔ جن میں جیفرسن بلڈنگ، وائیٹ ہاؤس کی عمارت، جارج واشنگٹن کا مجسمہ، ویتنام میموریل، کیپیٹول بلڈنگ، مارٹن لوتھر کنگ میموریل، آئین سٹائین میموریل اور ایسی بے شمار مثالیں نظر آئیں گی۔ اور ساری کی ساری یا پھر نناوے فیصد عمارتیں اس وقت کسی نہ کسی سرکاری و فلاحی استعمال میں ہیں۔ نہ کہ بلا وجہ اور بے مقصد قلعے، مقبرے اور مینار۔

تیسری چیز یہاں قدرت سے محبت کا پیغام ہے۔ اور اس کو بھی مختلف لوگوں، کہانیوں، واقعات اور یادگاروں سے جوڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ یہاں آپ کو عوامی مقامات پر جگہ جگہ پھول ، پودے اور درخت نظر آئیں گے جن میں سے ہر ایک کی الگ داستان ہے کہ وہ یہاں کیوں اور کیسے ہے۔ مطلب جب بھی کسی اچھی بات کو امر کرنا ہو تو اس کے نام اور یادگار کے طور پر ایک پودا لگا دو۔

American Museum of Natural History

ایک اور بات جو مجھے بہت اہم لگی وہ یہاں بے شمار عجائب گھر ہیں۔ ہم نے تو شاید عجائب گھر کا مطلب عجیب غریب نمونے رکھنے والی عمارت لے لیا ہے مگر امریکیوں کی نظر میں میوزیم کا مطلب بامقصد و صحت مند تفریح، قومی تربیت اور تاریخ کو جاننا ہے۔ کیوں کہ امریکیوں کا ماننا ہے کہ عظیم قوم کی تشکیل کے لئے اپنی تاریخ اور قومی شناخت کوجاننا ،قبول کرنا، اور اس پر فخر کرنا ضروری ہے۔ چونکہ ہر کوئی خاص طور پر عام اور مصروف شہری اور بچے لائبریریوں میں سر کھپائی شائید نہ کر پائیں لہذا انہوں نے یہ مسئلہ بھی ان عجائیب گھروں میں حل کر دیا ہے۔ پورے شہر میں ان گنت میوزیم ہیں۔ مگر صرف نیشل مال پر ہی ایک قطار میں بائیس سے زیادہ میوزیم ہیں۔

ان میں سے اگر ائیر اینڈ سپیس میوزیم کی مثال لی جائے تو اس میں امریکی قوم کی خلا کو تسخیر کرنے کے لیے اول روز سے آج تک کی جانے والی تمام کوششوں ، نتائج اور ان میں استعمال ہونے والے الات، جہازوں، لیبز، اور دیگر سازو سامان پر مبنی تمام یادگاروں یا ان کی کاپیز اور نمونوں کو ان کی متعلقہ تاریخ کے ساتھ رکھ کر محفوظ کر دیا گیا ہے۔ یہاں آپ کو نیل آرمسٹرانگ کے جہاز کے نمونے بھی ملیں گے اور اس کی چاند پر لینڈنگ کے وقت کے الفاظ کی آڈیو بھی چلتی ہوئی۔ یہاں اپالو مشن کہ درجہ بدرجہ ترقی اور ہر گروپ میں شامل لوگوں کی معلومات اور تصاویر بھی ملیں گی۔اور مختلف خلائی مشنز اور خلا نوردوں کی تاریچ بھی۔ غرض ہوا اور خلا کی سائینس اور اس سے متعلق تمام امریکی تاریخ اپنے تمام پر آلات لوازمات سمیت اس میوزیم میں موجود ہے۔

یہاں چھوٹے چھوٹے کلاس روم اور ڈاکومنٹری رومز بھی قائم کیے گئے ہیں جہاں بچے چھوڑے استفادہ حاصل کرتے اپنی تاریخ کو جاننے کی جستجو میں لگے نظر آتے ہیں۔ والدین پر ہفتے کے اختتام پر اور فارغ اوقات میں بچوں کو ان آلات کی تاریخ، مقصد اور ان کا استعمال بتاتے اور سکھاتے نظر آتے ہیں۔اور بچے بڑے ہی شوق سے مختلف مشینوں پر کام کرتے اور ان کو سمجھتے نظر آتے ہیں۔

یعنی جب ہم اپنے بچوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا، چیزوں میں ملاوٹ، جھوٹ، کینہ، عدم برداشت، تنگ اور تھوڑ دلی، نفرت، انتہا پسندی، بد اعتمادی، احساس کمتری، حسد، بے جا غرور، تکبر، عدم مساوات، نسلی و معاشرتی برتری کی تربیت دے کر بہت سی بے بے شمار ذہنی و معاشرتی بیماریوں کی داغ بیل ڈال رہے ہوتے ہیں۔ ان کو فتوے لگانا اور دائرہ اسلام سے خارج کرنا سکھا رہے ہوتے ہیں تو امریکی تب اپنے بچوں کو یہ سب سکھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے اندر تسخیر اور مقابلے کی جستجو پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ انھیں آگے بڑھنے کا سبق سکھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کی ذہنی و جسمانی قابلیتوں کو مثبت استعمال کی طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں۔ان کو مشکلات سے ہار نہ ماننا اور ناکامیوں سے سیکھنا سکھا رہے ہوتے ہیں۔اور موجودہ سہولیات ، ترقی اور اس سے حاصل فوائد کی قدرو قیمت سے روشناس کروانے کے لئے ان کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششوں، قربانیوں، اور انتھک و لازوال جدو جہد کی کہانی کے ساتھ ساتھ اپنے متعلقہ ہیروز سے ان کا تعارف کروا رہے ہوتے ہیں۔ انھیں سکھا رہے ہوتے ہیں کہ کوئی بھی مقام، عزت، نام، ترقی بلا وجہ، بغیر محنت اور قیمت کے نہیں ملتا۔اور یہ کہ دنیا میں عزت اور وقارکے ساتھ جینا کتنا اہم ہے۔

یہاں تک کہ یہاں ایک ایسا میوزیم بھی ہے جو زراعت، خوراک، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بتدریج ترقی اور ٹرانفورمیشن کی تاریخ کو کور کرتا ہے۔ مقصد یہاں بھی وہی ہے جو پہلے بتایا گیا ہے۔
چونکہ امریکہ کثیر النسل ریاستوں پر مشتمل ایک فیڈریشن ہے لہٰذا بے شمار ثقافتیں و روایات، فنون لطیفہ و موسیقی، ادب و زبان اور تہذیب تمدن اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اور اس پہلو کو بھی انھوں نے ایک مثبت رخ سے دیکھتے ہوئے اسے قبولیت کا درجہ دے دیا ہے۔
اور اس طریقہ سے امریکی ثقافت کے مختلف رنگوں پر مبنی ایک دھنک کی شکل دے دی ہے۔ جس کا واضع اظہار یہاں مخصوص ایام میں جگہ جگہ کلچرل فیسٹیولز کی شکل میں کیا جاتاہے۔ جیسے ترک تہوار، انڈین امریکن تہوار، وسطی امریکن تہوار، یورپی امریکن تہوار وغیرہ۔ یہی نہیں مختلف اقوام کی قومی ثقافتی اور تہذیب و تمدن کی بتدریج فارمیشن کی تاریخ کو بھی میوزیم میں محفوظ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ انڈین امریکن میوزم، افریکن امیرکن میوزیم وغیرہ۔ جن پر واضح درج ہے کہ “خود کو جانو کہ تم کون ہو”.

کیونکہ زات کی شناخت انسان کو اصل میں انسان بناتی ہے۔ اس کو مٹی کی محبت میں مبتلا کرتی ہے۔ اسی میں قومی حمیت و غیرت پیدا کرتی ہے۔اس کو اجتماعی شعور دیتی ہے۔اور مٹی پر یقین رکھنے والے لوگ بہت عظیم قوم بنتے ہیں۔جبکہ مٹی کے باغی نہ گھر کے نا گھاٹ کے۔

یہاں کوئی کسی کی زبان، ثقافت، کلچر، تہذیب و تمدن، ایمان اور کسی کے قومی وجود سے نہ تو خوفزدہ ہے اور نہ عدم تحفظ کا شکار۔ان کے نزدیک ملکی اتحاد کا مطلب دوسروں کی پہچان، وجود اور حقوق کو روندنا اور مٹانا نہیں ہے۔ بلکہ دوسروں کے وجود کو تسلیم کرنا، انھیں راستہ دینا، برداشت کرنا، ان کے لئے دل کشادہ کرنا، ان کے حقوق کو قبول کرنا اور ان کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ناں کہ ساتھ باندھ کے چلنا۔
یہ لوگ پیدل چلنے پر فوکس کرتے ہیں اور ان کہ مارکیٹس ، دفاتر، بازاروں، اور گھروں کی تعمیر میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے۔یہ بت نہ صرف ایک صحت مند زندگی کے لئے ضروری ہے بلکہ ماحول دوست اور بچت پر مبنی بھی ہے۔ یہ لوگ اپنے کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ یہ بھی مساوات و عاجزی پیدا کر ے کا ایک سبب ہے۔

کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے میں آپ کو نائب قاصد، چائے والا، آفس بوائے، کلینر غرض کوئی درجہ چہارم کا ملازم نظر نہیں آئے گا۔ اور مہمان بھی پیچھے میز پر پڑا چائے پانی اور کھانے کا سامان جا کر خود لے گا اور واپسی پر اپنی ڈسپوزیبل کپ یا پلیٹ ڈسٹ بن میں ڈالنا یہاں کا لازم اخلاقی تقاضا ہے۔
آپ نے سڑک پر یا پبلک مقام پر کچھ کھایا ہے تو یا باقیات یا تو قریب لگی ڈسٹ بن میں ڈالنا ضروری ہے بصورت دیگر جیب میں ڈال کر ساتھ لے جائیں مگر یہاں کسی صورت پھینک نہیں سکتے۔
یہاں کسی ہوٹل میں کھانا کھائیں تو بچا کھانا ہر صورت لوگ خود ہی وہاں موجود ڈبے میں ڈال کر ساتھ لے جاتے ہیں اور اس میں کوئی باعث شرم بات نہیں ہے۔اور یہ سبق یہ لوگ اپنے بچوں کو بھی دیتے ہیں۔
اس طرح مساوات، قانون کی پاسداری، قومی بچت، ماحول دوستی، محنت اور بہت سی دیگر اخلاقی صفات کی تربیت و مشق ایک ساتھ جاری رہتی ہے۔
اس سفر کے تجربات و احساسات کو لے کر آپ لوگوں کے ساتھ بانٹنے کے لئے ایک پوری کتاب نہیں تو کم از کم ایک پورا سفرنامہ چاہیے ۔جس میں امریکیوں کے سیاسی، قومی، معاشرتی، سائنسی اور حکومتی اور گھریلو نظام پر تفصیلاً بحث درکار ہے۔ زندگی رہی تو ضرور لکھوں گی۔

ابھی مختصراً یہ کہ جو پہلی سوچ میرے ذہن میں آئی وہ یہ ہے کہ یہ لوگ نسلوں کی تربیت کے پلان بناتے ہیں ناں کہ افراد کی۔یہ لوگ بتدریج ، دیرپا اور پائدار تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ انقلاب پر۔اور اسکا واضع اظہار ان کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہے۔ یہاں تک کے روزمرہ زندگی کے عام معمولات میں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اگر ہم واقعی دیرپا تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں اجتماعی قومی سوچ بدلنا ہوگی۔اور یہ ایک دن میں ایک سال میں یا دو سال میں نہیں ہو گا۔ اس کے لئے کم ز کم دو دہائیاں درکار ہیں۔لہذا تبدیلی کی ناکامی کا رونا بند کیجیے اور اپنے بچوں پر توجہ دیجیے۔ ان کی باشعور اور معتدل ذہنی و اخلاقی تربیت کیجیے۔ان کو قومی ورثہ، ثقافت، زبان، تاریخ، آباء، مذہب، سائنس، فنون لطیفہ، کھیلوں، فطری رنگوں، برداشت، مساوات اور حب انسان سے روشناس کروائیے۔اگر آپ نے یہ کر لیا تو یقین کیجیے دس پندرہ سال بعد ہمارے پاس دنیا کی بہترین قوم ہوگی جس کی دنیا میں اک عزت اور نام ہوگا۔ مٹی کے سانچے میں گندھ کے مٹی سے جڑی قوم۔جس کو نہ کوئی سیاستدان الو بنا سکے گا اور نہ کوئی مولوی نہ کوئی اور۔جو اپنے فیصلے کرنے کا شعور بھی رکھتی ہوگی اور اختیار بھی۔جو عدم برداشت و انتہا پسندی سے کوسوں دور ہوگی۔ جو سائنس کو مذہب کی ہی ایک برانچ مانے گی۔جو جیو اور جینے دو پر یقین رکھے گی۔ جس میں مقابلے کی ہمت بھی ہوگی اور جیت کا جنون بھی۔ جس میں مثبت ریکارڈ قائم کرنے کی خواہش بھی ہوگی اور فطرت کی کھوج کی جستجو بھی۔ جس میں آگے بڑھنے کا جزبہ بھی ہوگا اور خود پر یقین بھی۔ جس میں قومی حمیت و غیرت ہوگی۔ اور جس کو اپنی پہچان پر فخر ہوگا احساس کمتری نہیں۔

 یاد رکھیے! تبدیلی قوموں سے آتی ہے فراد سے نہیں۔یہ بات خود کو سمجھا لیجیے اور ایک قوم پیدا کیجیے۔جتنی جلدی یہ بات سمجھ لیں گے اتنی جلدی سنبھل جائیں گے۔ ہو سکتا ہے بچوں کی تربیت کرتے کرتے آپ خود بھی تبدیل ہو جائیں۔

نہی تے فیر جتیاں وی اپنیاں تے سر وی۔ ماری رکھو۔ جگ دا تے ہاسا ای جے۔ رب تہاڈا بھلا کرے تے وسدے رہوو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).