ناموں سے آگے کا ادب


بہت پہلے سے لیکرآج تک ہم صرف نام پڑھتے ہیں اس کے علاوہ شاید ہماری ذہانت ہمارا ساتھ نہیں دیتی یا ہمارا ضمیر خود اپنے ہی استعمال سے ناراض ہوجاتا ہے! ہم برانڈ سے آگے سوچتے ہی نہیں بس برانڈ کا نام دیکھا، آنکھیں بند کیں اور شاپنگ کارٹ میں ڈال لیا۔ پھر برانڈ ہوتی بھی مہنگی ہے لیکن بھئی ہمیں تو چاہیے ہی وہی۔ کیا کریں نا ہم لکیر کے فقیر جو ہوئے۔ ہم میں ہٹ کے چلنے کا شعور نہیں اگر شعور ہے بھی تو اس کے ادراک کا شدید فقدان ہے۔ ہمارا اختیار کردہ شعور ہمیں آگہی کی عمیق کیفیات سے دور رکھتا ہے کیونکہ آگہی میں سب سے پہلی منزل خود احتسابی ہے جس کےلئے ہم میں سے کوئی بھی اپنی ذات کے اندر نہیں جھانکنا چاہتا۔ جھانک ہی نہیں سکتا۔ زمانے کی جھوٹی ملمع کاری کی ایک موٹی تہہ ہماری سوچ پہ جمی ہوئی اور خودپسندی کی گرد سے آنکھیں اٹی ہوئی ہیں۔ اس تکلیف کا کوئی مداوا نہیں کہ ہر کوئی نفسانفسی میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ کوئی تابناک سورج طلوع ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ سارے ایک ہی دھوپ میں جلتے پگھلتے نظر آتے ہیں۔

اور یہ حال سب سے برا لکھنے والے طبقے کا ہے۔ اچھا لکھنے والے تو درکنار اچھا پڑھنے والوں کا تو وہ فقدان ہے کہ بس۔ ہم صرف نام دیکھ کے کتاب خرید لیتے ہیں، کبھی یہ نہیں سوچتے کہ کتاب کے اندر کیا ہے۔ کیا یہ واقعی کچھ نیا ہے یا پھر وہی سب جو سب بہت لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے ایک حد کے اندر قید ہوکے۔ نیا کیا ہے۔ اچھا یہ نیا نام جگمگا رہا ہے تو چلیں پھر اسی نام کو فالو کرتے ہیں۔ بنا سمجھے اس پہ لمبے لمبے مقالے ہوجاتے ہیں۔ کیسے۔ کیونکہ نام کی بنیاد پر مقالہ ہوجاتا ہے۔ لکھنے والے لکھ نہیں رہے۔ مارکیٹنگ کررہے ہیں۔ میڈیا مارکیٹنگ خاص کر سوشل میڈیا پہ بے تحاشہ مارکیٹنگ۔ کبھی خود تو کبھی کسی اور بڑے چمکتے نام کے سہارے سے۔ یہ مارکیٹنگ آج کی نئی پیداوار نہیں۔ ایسی مارکیٹنگ تو ہمیشہ موجود رہی۔ طریقے بدلتے رہے۔ اینوئیں تو شاعرات کی شاعری سے زیادہ خوبصورتی پر ہمیشہ سے نظر نہیں رکھی جاتی رہی ہے اور پھر جب ایک خوبصورت شاعرہ سب کے سامنے انتہائی بے باک انداز میں اپنی شاعری سنائے تو ستائش کے نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں اور اگر پھر غزل ہو، قافیہ ہو، بندش ہو۔

مگر ان بندشوں سے بہت پرے، مارکیٹنگ سے ہٹ کر کچھ لوگ صرف وہ لکھتے ہیں جو اندر کی آواز ہے۔ ادب کا معاشرے سے رابطہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ادب انسانی زندگی، نفسیات اور معاشرت کے بیچ میں زندہ ہوتا ہے تو پھر ہر عام و خاص کو بلا تخصیص نام کے کیوں نہیں پڑھا جارہا ہے؟

شیلف پر پڑی کتاب یا سوشل میڈیا پر شئیر کردہ پوسٹ کا مواد کیوں نہیں پڑھا جاتا۔ صرف ناموں کو اہمیت کیوں دی جاتی ہے۔ ادب اور تنقید کی کوئی بھی کتاب اٹھا کے دیکھ لیں تو ادب اور تنقید کے کسی اصول کا نام سے کوئی لنک نہیں۔ تخلیق صرف سوچ، خیال کی زمین پر اگتی ہے۔ اگر ایک ادیب، شاعر اچھا لکھتا ہے تو صرف اس ادب پارے پر تعریف و تنقید کی جائے نہ کہ لکھنے والے پر۔ اگر ہم ادب پارے کو تنقیدو توصیف کے پلڑے میں رکھ کرنہیں تولیں گے تو مزید نکھار کدھر سے آئے گا۔ نام میں تو نکھار آبھی نہیں سکتا۔ یہ لکھنے والے پہ بھی ظلم ہے کہ ہم اس کے نام کی پوجا کرکے اسے تخلیق کے عمل سے پرے پھینک دیتے ہیں۔ لکھنے والا اور پڑھنے والا دونوں ایک ہی لکیر کو پیٹتے رہتے ہیں اور جو اس لکیر سے اوپر نیچے ہوتا اس کے تخلیق کار کو تسلیم نہیں کرتے حالانکہ جتنی زندگی کی راہیں انوکھی ہیں اتنی ہی انوکھی اور دل دہلانے والی کہانیاں گردوپیش میں موجود ہیں۔

اور کائنات کی وسعتوں کے برابر استعارے ہیں جو مصرعوں میں ڈھلنے کو بیتاب پڑے ہیں۔ کہیں نظم کسی مورت میں ڈھلنے کو راہ تکتی ہے تو کوئی کرب کے ہزاروں معانی ایک نظم کے اختصار میں اکٹھے ہونے کو آنکھیں بچھائے بیٹھے رہتے ہیں۔

میں نے بہت سے گمنام لکھنے والوں کی تڑپ دیکھی ہے میرا اپنا شمار بھی مارکیٹ فری لکھنے والوں میں آتا ہے کہ میں نے آج تک کسی سے اتنا تک نہیں کہاکہ براہ مہربانی میری پوسٹ شئیر کر دیں نہ ہی کسی بڑے رائٹر کی بے تکی پوسٹوں پہ جاکے واہ واہ کی کہ کی صرف ان کے نام کی وجہ سے میں ہر خرافات پہ ان کی تعریف میں آسمان کے قلابے ملاؤں گی تو بدلے میں مجھے بھی یہی ستائش ملے۔ میں چاہتی ہوں کہ لوگ میرے نام اور چہرے سے ہٹ کر مجھے تحریر میں موجود پائیں تو مجھے لگے گا کہ حق ادا ہوا۔

فلم ”ماہ میر“ دیکھنی شروع کی تو خیال آیا کہ گمنامی اور بلاوجہ کی نیک نامی کی کشمکش ہی اصل میں زندگی اور ادب کے تنوع کا باعث بنتی ہے کہ لکیر سے ہٹ کے چلنا مشکل تو ہےمگر حقیقتاً تخلیق کو جو نئے زاویے اترتے ہیں وہی افق تک کی پرواز کی صلاحیت رکھتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).