عمران خان کا وہ خطاب جو نشر نہ ہو سکا


میرے پاکستانیو!

آج سب سے پہلے میں مرزا غالب کا ذکر کروں گا۔ نہیں نہیں میں ان کو کابینہ میں شامل نہیں کر رہا، کابینہ میں شمولیت کے لئے تو میرے بہت سے قابل دوست قطار میں کھڑے ہیں لیکن میں نے ان سے کہ دیا ہے کہ تمام فیصلے میرٹ پر ہوں گے ابھی ان کو انتظار کرنا ہو گا۔ پچاس دن میں چالیس سے زیادہ وزیر بنانا ہماری میرٹ پالیسی کے خلاف ہے۔ آج کا موضوع مہنگائی ہے۔ یہ جو بجلی اور گیس کی قیمت بڑھی، سونا 62000 روپے فی تولہ ہو گیا، روٹی مہنگی ہو گئی اور سب سے بڑھ کر ڈالر ہائی جمپ کر کے 137 روپے تک پہنچ گیا اس وجہ سے آپ چیخ اٹھے لیکن میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ چند دنوں تک اپنی چیخوں کو روک کر رکھیں کیونکہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے، ابھی تو ہلکا سا زلزلہ آیا ہے مہنگائی کا سونامی تو آنے والا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں 20 روپے فی لیٹر تک اضافہ ہو سکتا ہے جس کے بعد اشیائے خورد و نوش سمیت اہم اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ آپ کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گا۔

دراصل مرزا غالب میرے خواب میں آئے تھے مجھے وزیرِ اعظم کی کرسی پر براجمان دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور بولے،”عمران میاں کس حال میں ہو، کس خیال میں ہو، تم سے ملنے کے لئے ہم جب عالمِ بالا سے روانہ ہوئے تو قصے کیا کیا نہ ہوئے،جنرل ‘ضیاع ‘ بلائیں لیتے تھے اور جنرل ایوب دعائیں دیتے تھے، بھٹو صاحب مانندِ دیوار چُپ، جی چاہتا تھا چیخنے کو مگر ناچار چُپ۔ سوچا تھا تمہارے وزیر اعظم بننے کی خوشی میں تودہ قلا قند اور جلیبیاں بھی لاتے مگر وہاں کی کوئی چیز یہاں لانے کی اجازت نہیں لہٰذا فقط ہم ہی آئے ہیں تاکہ تمہیں چند مشورے دے سکیں۔ سنا ہے تم نے بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کا قصد کیا ہے، میاں دھیان رکھنا مخالفین کی باتوں سے مت گھبرانا اور ہاں بار بار تم کو خان کے بجائے میاں کہ رہے ہیں اسے طنز مت سمجھنا یہ تو ہمارا اندازِ گفتگو ہے جیسا کہ تمہارا انداز میں میں اور تُو تُو ہے۔ خیر مخالفین تمہاری راہ میں روڑے اٹکائیں گے، آئی ایم ایف کی رقم کو بھیک قرار دیں گے، مگر ہم مشورہ دیں گے کہ ہرگز نہ باور کیجیو اور مالِ مفت سمجھ کر لے لیجیو۔ دوسرا مشورہ یہ ہے کہ تم پر اور قوم پر جو مشکلیں آن پڑی ہیں ان سے مت گھبرانا بلکہ ہو سکے تو مہنگائی کچھ اور بڑھا دینا کیونکہ ہم تو ڈیڑھ صدی پہلے ہی یہ کہ گئے تھے کہ رنج سے خوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج، مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہو گئیں۔ ابھی ان کی بات جاری تھی کہ میری آنکھ کھل گئی اس کے بعد میں نے سونے کی بڑی کوشش کی تاکہ ان کے مشوروں سے مزید فیض یاب ہو سکوں لیکن خوشی سے نیند ہی نہیں آرہی۔

میرے پاکستانیو!

اسی لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ پر اتنی مشکلیں پڑیں کہ آساں ہو جائیں اور آپ پکار اٹھیں کہ میرے کپتان تُو نے مہنگائی کو اس قدر جو بڑھایا مزہ آگیا۔ ہاں ایک اور بات یاد آگئی ڈالر کے مہنگا ہونے کے باعث ملکی قرضوں میں تقریباً ایک ہزار ارب کا خود بخود اضافہ ہو گیا ہے۔ میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہا تھا یہ سب زرداری اور نواز کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے ان دونوں نے اپنے اپنے ادوار میں قرض نہیں اتارا اب مجھے یہ فریضہ سر انجام دینا پڑ رہا ہے۔ لیکن ایک فائدہ بھی ہوا ہے میری اصل طاقت سمندر پار پاکستانی جب ٖڈالر بھیجیں گے تو کروڑوں ڈالر اربوں روپوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ میرے پاس اسد عمر جیسا کھلاڑی بھی تو ہے جب سے میں نے اسے وزیر خزانہ بنایا ہے اس کی خزانہ بھرنے کی صلاحیتیں روز بہ روز نکھرتی جا رہی ہیں۔ ہم عوام پر نئے نئے ٹیکس لگائیں گے جیسے سڑک پر پیدل چلنے کا ٹیکس، زیبرا کراسنگ عبور کرنے کا ٹیکس، کھانا کھانے پر ٹیکس، ٹوائلٹ جانے پر ٹیکس وغیرہ وغیرہ۔ عوام یہ ٹیکس بڑی خوشی سے دیں گے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کا پیسہ چوری نہیں ہو گا میں اسی لئے تو بار بار کہتا ہوں کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے استخارہ کروایا تھا جس سے مجھے پتہ چلا کہ ملک کے سب سے بڑے چور زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف ہیں۔ نواز شریف تو جیل کی ہوا کھا چکا ہے، شہباز شریف پکڑا گیا ہے اب زرداری کی باری ہے لیکن وہ بڑا تیز ہے پکڑائی نہیں دے رہا۔ خیر ان تینوں سے چوری کے اربوں ڈالر نکلواؤں گا۔ ڈر بس اس بات کا ہے کہ کہیں یہ پیسے کھا پی کر ہضم نہ کر چکے ہوں۔ ایسی صورت میں ٹیکس بڑھانے پڑیں گے۔

آج میں عثمان بزدار کی تعریف بھی کرنا چاہوں گا۔ ایسا فرمانبردار وزیر اعلیٰ میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھا۔ عثمان بزدار کو میں نے ٹیوشن رکھوا دی ہے وہ روزانہ علیم خان سے ٹیوشن لے رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ میرے لئےسب سے اچھے وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گے، میرے لئے سے مراد ہے آپ کے لئے کیونکہ میں اور آپ تو ایک ہی ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے جب سے ڈالر مہنگا ہوا اور مہنگائی کا سیلاب آیا ہے بد تمیز صحافیوں کا دھیان میری طرف سے ہٹ گیا ہے ورنہ کبھی میرے ہوائی سفر کے قصے بیان کرتے تھے کبھی شیرو اور موٹو کی داستانیں سناتے تھے۔ موٹو سے یاد آیا کہ مصروفیات کی وجہ سے کئی دن ہو گئے ہیں میں موٹو کو بھی وقت نہیں دے سکا۔ نہیں وہ موٹو نہیں وہ تو ہر وقت میرے کان کھاتا رہتا ہے میں دوسرے موٹو کی بات کر رہا ہوں، بے چارہ کسی صوفے کے پیچھے بیٹھا رو رہا ہو گا۔ اب اپنے وزیراعظم کو اجازت دیجئے۔ انصافیے زندہ باد، مہنگائی پائندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).