جب سعودی نقاب اور تیل کا ٹھیلا دونوں اُلٹ گئے



یہ کوئی مذاق یا آسان سی بات نہیں ہے کہ چالیس سال سے بہرحال ایک سپر پاور کے ساتھ اور اس کے ایک انتہائی سفاک اور طاقتور حلیف اور مڈل ایسٹ کے بدنامِ زمانہ بنیادی مکروہ کردار اسرائیل کے ساتھ، مستقل مزاحمت، مقاومت، پابندی در پابندی اور دھمکیوں کا سامنا کرنے کے باوجود ایران نے مڈل ایسٹ کی آئل فیلڈ میں امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ سعودیوں کا آئل ٹینکر یا تیل کا ٹھیلا تقریباً پورا ہی الٹ کے رکھ دیا ہے اور ان سب کا نہ صرف تیل نکال دیا ہے بلکہ کچھ چیزیں تو ایسی بھی نکالی ہیں جن کو بوجوہ لکھا یا بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ تیل ہی تیل ہو جانے والے حالات میں سب کے ساتھ اس بہت بڑے انسانی المیے میں افسوس ناک حد تک ایرانی تیل بھی خوب نکلا ہےاور ساتھ ساتھ بہت سارا قیمتی انسانی خون بھی نکلا ہے جو سرمایہ داری اور اسلحہ کے بزنس اور انڈسٹری کے فروغ کے لیے تیل سے شاید کم قیمت تھا ۔

سعودیوں کا تیل کا ٹھیلا جو الٹا سو الٹا رہی سہی کسر عالمی جوکر اور مسخرے ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ باریک سی رسمی نقاب بھی الٹ کے پوری کر دی جس نے عالمِ اسلام کے خوش گمانوں کو سخت غلط فہمی کا شکار کیا ہوا تھا ۔ سعودی پردہ نشین بادشاہت اور ریاست، اپنے قیام سے ہی، آج تک بھی، اپنے تحفظ اور سلامتی کے لیے، ڈھکی چھپی برطانیہ اور امریکا کے دست وبازو اور دروغ و فریب کی ہی مرہونِ منت رہی ہے ۔ غیر سرکاری طور پر یہ بات سب جانتے تھے کہ اسرائیل کی طرح سعودی بادشاہت بھی امریکی طاقت کے بھروسے اور مدد سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئےہے مگر ٹرمپ نے اپنے مخصوص بہکے بہکے انداز میں دو ہفتے کی اوقات بتا کر اس سعودی کہانی کی سچائی اور حقیقت کی سرکاری طور پر تصدیق کردی ہے ۔

سعودی اپنی پوشیدہ اور صرف شاہی خاندان کے مفادات کی حفاظت کی سیاست کے حوالے سے مشہور ہیں ۔ پرانے کھلاڑی اپنی اصلی حقیقت سے خوب اچھی طرح واقف تھے اور لگے بندھے اپنی عزتِ سادات کو بچا کے اچھے بھلے اپنی عیاشیوں میں مصروف تھے، اور عالمِ اسلام کی نگرانی کا، اپنے مغربی آقاؤں کی خواہشات کی ہدایت کے مطابق حقِ دربانی بھی ادا کررہے تھے ۔ساتھ ہی ساری دنیا کے مسلمانوں سےخادمِ حرمین شریفین کا احترام بھی سمیٹے ہوئےتھے ۔لیکن آخر کب تک اس کہانی سےگزارہ کرتے۔ ایسے میں نجانے کیسے ایک شیعہ اور عجمی ایران نے انقلاب کے بعد اسلام اور مسلمانوں کو در پیش مسائل کا دوسرا رخ بھی دکھانا شروع کردیا تھا ۔ کافی لمبے عرصے کی مقابلے بازی میں بات بڑھتے بڑھتے شام میں خانہ جنگی تک پہنچ گئی ۔

شام میں عبرت ناک شکست سے مجبور اور مایوس ہو کر اپنی ساکھ کو بچانے کی خاطر کچھ مسلکی اور کچھ قومی عربی غیرت وجوش میں جواں سال، ناتجربہ کار، جوشیلا شہزادہ جوانی کے زور میں اپنے بزرگوں کی روایتی روش چھوڑ کر کچھ نیا کرنے کے زعم میں بہک کے یمن کی جنگ کی آگ میں کود گیا ۔ بس پھر کیا تھا وہ دن اور آج کا دن ساری الٹی ہوتی تدبیرو ں کا خراج گھر کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی، یہی بتیس سال کی نوجواں دانش وصول کررہی ہے ۔

ریاست کے اندرونی مسائل، شہزادوں کی آپس کی اقتدار کی کھنچاتانی اور پھر قدامت پرست ریاست میں بہت تیز رفتار تبدیلیوں کے شوشے اور تماشوں نے الگ سے ایک حشر برپا کردیا جن کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جواں سال مہم جو شہزادہ امریکی مشورہ پر اپنی جان بچانے کے لیے اپنے دن اور رات پبلک مصروفیات سے جان چھڑا کے سمندر میں لگژری بحری کشتیوں میں گزارنے پر مجبور ہوگیا ہے اور کبھی کبھی منظرعام پر نظر آتا ہے ۔ دشتِ بے نخیل میں بادِ بے لحاظ نے ایسی خاک اڑائی ہے کہ کچھ بھی سوجھتا نہیں ۔

ایرانی نظامِ حکومت، ولایتِ فقیہ، جمہوریت اور پالیسیوں سے لاکھ اختلاف اور تنقید کے باوجود کوئی بھی باخبر فرد اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ مڈل ایسٹ میں ایران کا اثر و نفوز اس قدر بڑھ گیا ہے کہ عالمی میڈیا بھی یہ باتیں کررہا ہے کہ ایران مڈل ایسٹ میں براہ راست لبنان، عراق شام اور یمن کو کنٹرول کررہا ہے اور ایرانی بھی اس بات کا کھلم کھلا اعتراف کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اب دنیا کی کوئی بھی طاقت مڈل ایسٹ میں ایرانی مرضی کے بغیر اپنی مرضی کا فیصلہ مسلط نہیں کرسکتی شام کی صورتِ حال نہ صرف سودی عرب بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے بھی انتہائی پریشانی اور تکلیف کا باعث ہے ۔

امریکی صدر کے حالیہ توہین آمیز بیان کے بعد ایران کا حوصلہ اور ہمت کہ سعودی عرب سے سخت کشیدہ تعلقات کے باوجود ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے، سعودی عرب کو ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر، اسلام اور مسلمانوں کے بہترین مفاد میں تعلقات کو آپس میں بہتر بنانے کی پیشکش کی ہے اور مل کر مسلمانوں اور مسلم ممالک کے حالات بہتر بنانے کی کوششوں پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔

اگرچہ سب جانتے ہیں کہ یہ آسان کام نہیں ہے کیوں کہ ایرانی اور سعودی تعلقات صرف چالیس سال کی چپقلش اورعداوت کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ ان میں صدیوں پرانا شیعہ اور سنی مسلکی رخنہ بھی پڑا ہوا ہے ۔ اسلامی تاریخ میں اس فرقہ واریت سے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور آج بھی اٹھا رہے ہیں جس کا اثر سب جگہ اور خاص طور پر پاکستان میں بالکل واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ سعودی، ایرانی، پاکستانی، شیعہ یا سنی مسئلہ نہیں ہے بلکہ پہلے ایک انسانی المیہ ہے اور پھر اسلامی حوالے سے قبلۂ اول ہے جو بہر حال مسلمانوں کے نزدیک بہت مقدس ہے ۔اس مسئلہ پر ایرانی پالیسی اور کاوشیں مسلمانوں کی اکثریت کی خواہش سے قریب نظر آتی ہیں ۔ شام کی خانہ جنگی بھی فلسطین کے مسئلے سے جڑی ہوئی ہے ۔ بشارالاسد حکومت اسرائیل کے خلاف ایران اور حزب اللّہ کے درمیان واسطہ بنی ہوئی ہے، جو امریکہ اور اسرائیل کےلیے حلق کا کانٹا ہے اور وہ اسے نکال دینا چاہتے ہیں ۔ ایران کی مدد اور کوشش سے لبنان کی فعال تنظیم حزب اللّہ نے اسرائیل کو ٹف ٹائم دیا ہوا ہے ۔ شام کے بہتر ہوتے ہوئے حالات اور بشارالاسد کی کامیابی میں ایران اور حزب اللّہ کا بڑا کردار ہے ۔ اسی مزاحمت کی وجہ سے اب روس بھی مڈل ایسٹ میں ایران، شام اور حزب اللّہ کے ساتھ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے سامنے کھل کے کھڑا ہواہے ۔

جنگ اور خون ریزی کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتے اگر چہ اسلحہ کے بزنس اور انڈسٹری کے لیے جنگیں اور تنازعات ملکوں اور قوموں کے درمیان اشد ضروری ہیں اور اسلحہ کے بڑے بڑے ڈیلرز جنگ اور تنازع سے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اور مال بنا کے مزید جنگ اور تنازعات کی آگ بھڑکاتے ہیں ۔ مگر مزاحمت، احتجاج اور سخت موقف بھی دشمن سے اپنے مفادات کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ ہوتے ہیں ۔فلسطین اور قبلۂ اول مسجدِ اقصیٰ اور مسلمانوں کے دوسرے عالمی مسائل کے حوالے سے ایرانی اقدامات میں یہ کوشش اور کاوش نظر آتی ہے ۔

اگر برادر اسلامی ملک سعودی عرب بھی دنیا کے حالات اور واقعات پر نظر ڈال کر مسلمانوں اور اسلام کے مفادات کی خاطر اپنی سیاسی اور سفارتی پالیسیوں پر نظرِثانی کرے تو شاید یہ بھی ایک اہم مسلمان ملک ہونے کی حیثیت اور مقام کو ٹرمپ جیسے مسخروں اور جوکروں کی توہین سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ورنہ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).