ریاست سوتیلی ماں کیوں بن جاتی ہے؟


 

پاکستانی سیاست اور معیشت کے بعض اشاریے بالکل واضح ہیں البتہ اس صاف دکھائی دینے والی تصویر کو گنجلک اور پیچیدہ بنانے میں سیاسی بھاگ دوڑ، اقتدار کی ہوس میں نظر انداز کی جانے والی سچائیاں اور ریاستی مفادات پر اجارہ داری کے دعوؤں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کشمکش میں ملک کی اساس کو نظر انداز کرتے ہوئے بنیادی حقوق، آزادی رائے اور منصفانہ نظام کی ضرورت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ملک کی مختصر تاریخ کے مختلف ادوار میں اقتدار پر تصرف اور ایک خاص نظریہ کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف نعروں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ ان نعروں میں البتہ یہ حقیقت فراموش کی گئی ہے کہ یہ ملک اس خطے کی لوگوں کی خواہشات کی وجہ سے ووٹ کی طاقت سے وجود میں آیا تھا۔ اگر بانیان پاکستان کا جمہوریت پر پختہ ایمان نہ ہوتا اور ہندوستان کے مسلمانوں کو ان کے سیاسی و معاشی حقوق سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوششیں بارآور نہ ہوتیں اور برطانیہ کی نوآبادیاتی حکومت ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے لوگوں سے رائے لینے اور اس پر عمل کرنے کے اصول کو تسلیم نہ کرتی تو پاکستان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لئے اس ملک میں جمہوریت کو دیس نکالا دینے کی کوششیں دراصل اس کی بنیاد کو تسلیم کرنے سے انکار کے مترادف ہیں۔ لیکن خود کو عقل کل سمجھنے والے عناصر نے محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد سے اس سچائی کو ماننے سے انکار کیا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں پاکستان نے ہر مرحلہ پر نقصان اٹھایا اور ا س ملک میں سب کا احترام کرنے والا اور سب کو جینے کا حق دینے والا معاشرہ قائم کرنے کی قائداعظم کی خواہش اور کوشش کو ناکام بنایا گیا۔ تصویر کا یہ پہلو از حد المناک ہے کہ یہ کام جناح کے تصور ریاست کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کیا گیا۔

جمہوریت کے خلاف اختیار کی جانے والی سوچ اور سیاسی مؤقف ایک طرف اس اصول کو مسترد کرتی ہے جو برصغیر کی تقسیم کے وقت تسلیم کیا گیا تھا اور جس کے نتیجہ میں مسلمانوں اکثریت کی خواہش کے مطابق یہ ملک قائم ہؤا تھا۔ تو دوسری طرف اس قائد کے نظریات ، طرز سیاست اور اصولوں سے متصادم ہے جنہیں بابائے قوم قرار دے کر اعزاز تو دیا جاتا ہے لیکن ان کی زندگی کے اصولوں کو اپنانے کا تصور بھی محال ہوچکا ہے۔ اب پاکستان میں قائد اعظم ایک فرد اور اس کے اصولوں کا نام نہیں رہا بلکہ ایک ایسا نعرہ بنا دیا گیا ہے جسے بلند کرتے ہوئے ہر غیر جمہوری اقدام کو ڈھٹائی سے جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد سے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے کا اعلان کیا تھا اور قائد اعظم کو اپنا رہبر قرار دیا تھا۔ یہ باتیں کرتے ہوئے عمران خان نے البتہ یہ واضح کرنے کی کوشش نہیں کہ کہ وہ محمد علی جناح کے کون سے نظریات کو اپناتے ہوئے پاکستانی معاشرہ کی اصلاح کا کار عظیم سرانجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

 محمد علی جناح نام کے سیاست دان اور لیڈر کی پوری زندگی ہمارے سامنے ہے۔ جس کے مطالعہ سے مساوی حقوق، مذہبی رواداری، ریاست اور عقیدہ میں تفریق اور جمہوری حقوق کو فوقیت دینے کے بنیادی ریاستی اصول ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس کے برعکس بابائے قوم قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کی ایک تصویر سرکاری اور غیر سرکاری پروپیگنڈا مشینری اور مسخ شدہ نصاب کے ذریعے ذہنوں میں نقش کی گئی ہے جو ایک ایسےبزرگ کی شبیہ سامنے لاتی ہے جو مصلی پر بیٹھ کر قوم کی بہتری کی دعائیں کرتا رہتا ہے۔ جو قرآن کو ہاتھ میں لے کر اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس نے جو ملک بنایا ہے اس میں اس کتاب سے ہٹ کر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ یہ تصویر محمد علی جناح نام کے ایک ایسے لیڈر کے طرز زندگی سے متصادم ہے جس نے ساری عمر عملی جد و جہد کے ذریعے نہ صرف خود کو پیشہ وارانہ اور معاشی لحاظ سے مستحکم کیا بلکہ بعد میں عملی سیاسی جد و جہد کے ذریعے ہی ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے تصور کو حقیقت میں تبدیل کیا۔ اگر محمد علی جناح ان تھک محنت کرنے والے لیڈر نہ ہوتے تو پاکستان کے قیام کا ناممکن کام تکمیل تک نہ پہنچ سکتا۔ لیکن آج کے پاکستان میں محنت کرنے اور قدم بڑھانے کی بجائے، یہ اعلان کرنا کافی سمجھا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے روز یعنی 14اگست 1947 کو چونکہ 27 رمضان المبارک تھا لہذا اس ملک کو اللہ کی بالواسطہ تائد و اعانت حاصل ہے ۔ اسے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ اس رویہ نے ملک میں بے عملی کا وہ مزاج عام کیا ہے جو ملک کے بیشتر معاشی اور سیاسی مسائل کی بنیاد بن چکا ہے۔

اگر رحمتوں کا سایہ ہونے کی وجہ سے مملکتیں اور حکومتیں کامیاب ہوتیں تو خلافت راشدہ کا دور کبھی ختم نہ ہوتا اور مسلمانوں کو صدیوں سے زوال اور رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اگر پاکستان صرف رحمت خداوندی کی وجہ سے وجود میں آیا ہوتا تو دسمبر 1971 میں یہ ملک دو لخت نہ ہو گیا ہوتا۔ بنگلہ دیش کے لوگ عملی لحاظ سے پاکستان میں آباد لوگوں کے مقابلے میں بہتر مسلمان تھے ۔ اس خطے کے لوگوں نے قیام پاکستان کے لئے زیادہ قربانیاں بھی دی تھیں اور اس کی تشکیل میں ان کا کردار بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اسی خطے کے لوگوں نے قیام پاکستان کے صرف چوبیس برس بعد اپنا راستہ الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیوں کہ مساوی حقوق اور سب کے احترام کے بنیادی اصولوں کو فراموش کرنے کے علاوہ جمہوری فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیا گیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے عظیم سانحہ سے سبق سیکھنے کی بجائے پاکستان میں اب یہ تصور عام کیا جارہا ہے کہ اس ملک کو عوام کی طاقت اور ووٹ سے بننے والی حکومت نہیں بلکہ وہ نادیدہ قوتیں بچانے اور قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جن کے نان نفقہ سے لے کر ہتھیاروں کی فراہمی کا اہتمام تک عام لوگوں کے پیدا کردہ وسائل سے ممکن ہو پاتا ہے۔ ملک میں کبھی جمہور کی بہبود کے نام پر جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا جاتا ہے اور کبھی ملک کی سلامتی اور بھلائی کے نام پر جمہوری راستہ کھوٹا کرنے کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔

اس سال جولائی میں ہونے والے انتخابات کے ذریعے عوامی حکمرانی کے اسی تصور پر حملہ کیا گیا ہے۔ ووٹ لے کر حکومت بنانے والی تحریک انصاف کی قیادت نے اس ملک کے فیصلوں کو ان قوتوں کے پاس گروی رکھا ہؤا ہے جنہیں فیصلے کرنے کا نہیں ماننے کا پابند ہونا چاہئے۔ قومی فیصلوں میں عسکری اداروں اور قیادت کا کردار صرف اتنا ہو سکتا ہے کہ وہ پیشہ وارانہ صلاحیت کی وجہ سے بعض پہلوؤں کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ اس رائے پر غور کرنا ، اسے تسلیم یا مسترد کرنا ان لوگوں کا استحقاق ہے جنہیں اس ملک کے عوام فیصلے کرنے اور رہنمائی کے لئے چنتے ہیں۔ لیکن منتخب ہونے والے اداروں کو بے توقیر کرنے کا کام اب صرف عدالتوں اور عسکری اداروں کے ذریعے ہی نہیں ہوتا بلکہ ملک کی’ منتخب حکومت ‘ یہ سنہری کارنامہ بقلم خود کرنے پر بضد ہے اور اسے اپنے اس کردار پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے۔ اس اقدام کا واحد مقصد اقتدار پر قابض رہنا اور سیاسی مخالفین کو دبانا ہے ۔ اب یہ باور کروانے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے کہ جمہوریت ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والی کسی بااختیار حکومت کا نام نہیں ہے، بلکہ جمہوری عمل تو ایک کھلونا ہے جو اس ملک کے ’جاہل اور ان پڑھ‘ عوام کو وقتی طور پر کھیلنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ اقتدار و اختیار کا اصل منبع وہ غیر منتخب قوتیں ہیں جو قومی مفاد کے علاوہ سیاسی و معاشی معاملات کو بہتر طور سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر یہ قوتیں فیصلے کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں اور منتخب لیڈروں کو جمہوری ڈھونگ کی علامت کے طور پر بااختیار کہلوانے کا حق تفویض کرتی ہیں تو سب کو اس صلہ رحمی پر مشکور و ممنون ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف کی حکومت اس رویہ کا عملی نمونہ ہے۔

یہ تاثر عام کرنے کا خواہ کوئی مقصد ہو اور اسے مان لینے کے لئے سیاست دان، دانشور، معیشت دان اور صحافی خواہ کیسی ہی دلیلیں لائیں لیکن یہ تصور نہ تو پاکستان کی تاریخی حقیقت سے میل کھاتا ہے ، نہ اس کے بانیان کے نظریات کی عکاسی کرتا ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر مستحکم ہونے والی اس رائے کے مطابق ہے کہ کسی خطے میں بسنے والے لوگوں کو ہی اپنے برے بھلے کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس لئے کسی غیر جمہوری تصور کو اپنانے کے لئے خواہ کیسے ہی دلفریب اور گمراہ کن نعرے لگائے جائیں یا کیسی ہی مجبوریا ں بیان کی جائیں ، اس کی کامیابی کا امکان موجود نہیں ہے۔ ان غیر جمہوری اور غیر انسانی طریقوں سے ملک کو پہلے بھی توڑا جا چکا ہے اور اگر اب بھی تاریخ سے سبق سیکھنے اور عوامی خواہشات کو مسترد کرنے کا چلن تبدیل نہ کیا گیا تو ا س ملک کی بہبود تو دور ۔۔۔ خدا نخواستہ سلامتی کی ضمانت دینا بھی مشکل ہو جائے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali