سوویت یونین کے ایک مسلمان جرنیل کی زندگی کی پہلی نماز جمعہ


دوسرے میلینئم کے آخری سال کے آخری مہینوں کے دوران ایک دن اسپین کے جزیرے طینیریفے میں شوروم پر کلائنٹس کے ایک سیاح جوڑے نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ روسی حلئے کی خاتون نے گلے کی گولڈ چین میں ہاتھ کی شکل کا ایک طلائی کالگینٹ ہینگ کیا ہوا تھا۔ پنجہ نما یہ چیز پاکستان میں بھی اکثر دیکھی ہوئی تھی جسے ہمارے یہاں غالبا ”پنجہ پنج تن پاک“ کہتے ہیں۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ”دستِ فاطمہ“ ہے۔ چونکہ شیعہ مسلم ہیں، اس لئے تبرک کے طور پر گلے میں لٹکاتے ہیں۔

انکا تعلق روس سے آزاد ہونے والی ایک مسلمان ریاست سے تھا۔ آدمی نے بتایا کہ وہ ایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل ہے۔ یونیفارم، پروویژنز اور میس میں استعمال کی دیگر اشیاء فوج کی مختلف یونٹس کو ترسیلات کا شعبہ اس کی کور کے سپرد تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آجکل ایک فیکٹری میں افسر لگا تھا جہاں میزائل اور سیٹلائٹ کے لیے موٹریں بنتی تھیں۔ اس نے بطور سووینئر مجھے ایک بال پین اور سگریٹ لائٹر دیا جن پر اس فیکٹری کا نام کندہ تھا۔

باتوں باتوں میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر جگہ کی طرح کمیونسٹ روس میں بھی کرپشن پورے زور و شور کے ساتھ موجود رہی اور فوج کا انتہائی ڈسپلنڈ ادارہ بھی اس سے پاک نہیں تھا۔ میں نے جب انہیں بتایا کہ میں بھی مسلمان ہوں اور پاکستان سے میرا تعلق ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ چونکہ ان کے ملک میں کمیونسٹ غلبے کے بعد عرصہ دراز تک مذہبی آزادی نہیں تھی، لہذا وہ کبھی مسجد نہیں گئے تھے اور مذہب سے وابستگی کی واحد علامت خاتون کے گلے میں لٹکنے والا دستِ فاطمہ لاکٹ تھا۔

میرے یہ بتانے پر کہ یہاں ایک مسجد بھی ہے جس میں مختلف ممالک کے مسلمان اکٹھے نماز پڑھتے ہیں، پہلے تو انہوں نے پر مسرت حیرت کا اظہار کیا اور پھر وہاں جانے کی خواہش ظاہر کر دی۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر آپ جمعہ تک ادھر ہیں تو جمعہ کی نماز ہم وہاں پڑھیں گے۔

غالباً دو دن بعد جمعہ تھا اور وہ مقررہ وقت پر شوروم پر پہنچ گئے۔ میں نے ٹیکسی رکوائی اور انہیں ہمراہ لے کر مسجد جا پہنچا۔ آہستہ آہستہ اندر داخل ہوتے ہوئے ان کے چہروں پر ایک الگ طرح کا نظارہ دیکھنے کو ملا، کرب و طمانیت کا ملا جلا احساس وہاں رقم تھا۔

بظاہر تو وہ وہاں موجود تھے مگر احساسات و تصورات میں کسی اور ہی دنیا میں گم تھے۔ شاید زندگی میں پہلی بار مسجد آنے کے روحانی تجربے سے بھرائے ہوئے تھے مگر وقار کے ساتھ داخل ہوئے۔ اللہ کے گھر مہمان بننے کے اندرونی جذبات و احساسات گویا ایک روحانی تلاطم برپا کر رہے تھے جو ان کے چہروں سے عیاں ہو رہا تھا۔ فرطِ جذبات سے مغلوب خاتون کی آنکھوں میں تیرتے ہلکے آنسو چُھپائے بھی چُھپ نہ سکے۔

خطبے کے دوران میں تصور ہی تصور میں روس سے علیحدہ ہونے والی ریاستوں کی تاریخِ اسلامی کے سنہری ادوار میں جھانک رہا تھا۔ بخارا کا اسلامی کلچر، مساجد اور ان کے اونچے میناروں کے علاوہ دیگر تاریخی عمارات و اسلامی ورثہ بخوبی دیکھ رہا تھا۔ وہاں اسلامی علوم کے سرچشمے پھوٹتے دیکھ رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ امام بخاری نے کبھی گمان بھی کیا ہو گا کہ ایک دن بخارا جیسے علومِ اسلامی کے مراکز میں ان ریاستوں کے مسلمان باشندوں پر مساجد کے دروازے بند کر دیے جائیں گے یا ان مساجد کو عبادات کی بجائے دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

کمیونزم کے ناخداؤں نے غریب مزدور کو سبز خواب دکھا کر اشتراکی فلسفے کی بنیاد پر ان ریاستوں پر تسلط قائم کر لینے کے بعد مذاہب پر ناروا پابندیاں لگائیں اور عوام کو زبردستی ان کے خدا سے لاتعلق کر دیا تھا۔ مگر بانوے میں غاصب اشتراکیت کے اچانک انہدام کے بعد وہاں کے لوگوں نے کمیونزم کے بت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاش پاش کر دیا ہے۔ اور اب کوئی بھی مارکسزم کا نام لیوا نہیں ملتا، بلکہ عوام اپنے اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اپنے خدا، الہ، اپنے اللہ کے ساتھ تعلق واپس جوڑ رہے ہیں۔

اشتراکی نظام کی ناکامی کے بعد دنیا بھر میں مذہب کی طرف رجحان بڑھنے لگا تو اس کا فائدہ اٹھا کر کچھ قوتوں نے مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ایک مربوط پلان بنایا۔ بھارت میں ہندوازم کا احیاء اور مذہبی عدم برداشت کی پرچارک بنیاد پرست حکومتوں کا قیام اور برما و ہند میں اقلیتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اپنے قبیح ایجنڈے کی تکمیل کے لیے امریکہ مذہب کو بنیاد بنا کر دنیا بھر میں اکھاڑ پچھار کی ایک نئی حکمت عملی لایا ہے جس کے مطابق ہیرے کو ہیرا کاٹے کے مصداق مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا رہا ہے۔ اس طرح دونوں طرف نقصان دراصل مسلمانوں کا ہی ہو رہا ہے۔ داعش، طالبان بوکوحرام اور نجانے کتنی خفیہ تنظیموں کو پتلیوں کی طرح نچا کر امریکہ ایک ایک کر کے اسلامی ممالک کو تاراج کر رہا ہے۔ ان تنظیموں کے ظلم و زیادتیوں کو ہوا بنا کر الٹا مسلمانوں کو ہی بدنام کر رہا ہے تاکہ مغرب میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو بھی روکا جا سکے۔

عراق، لیبیا، شام اور افغانستان کے بعد اس کے اگلے اہداف پاکستان ترکی، ایران اور سعودیہ ہو سکتے ہیں۔ سوویت یونین کے یک دم اچانک ڈھے جانے سے امریکہ نے شاید سبق نہیں سیکھا۔ ایک افغانستان کو سوویت یونین ہضم نہیں کر سکا اور خود ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور کمیونزم کا بھی جنازہ نکل گیا۔ دنیا کے امن کو غیر مستحکم کر کے امریکہ کی بھی تمنائیں پوری ہرگز نہیں ہوں گی ۔ بلکہ امریک بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گا اور اس کے طاغوتی سامراجی نظام کا بھی جلد تابوت نکلے گا۔

یاد رہے، روس کے ٹوٹنے کی پیشین گوئی کرنے والے عالمی سطح کے معروف مصنف نے اپنی ایک دوسری کتاب میں امریکہ کے ٹوٹنے کی بھی اڈوانس تفصیلات دیدی ہیں۔ اس کے بقول امریکی معیشت بیجا جنگی اخراجات کی تاب نہ لا سکے گی اور اس کی بیشتر ریاستیں خود کنفیڈریشن سے الگ ہو جائیں گی۔ اور یوں عالمی دھشتگرد امریکہ اپنے ہی بوجھ سے بخرے بخرے ہو جائے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کئی ریاستوں نے کنفیڈریشن سے علیحدگی کی درخواستیں پہلے ہی دے رکھی ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!
وہ (امریکہ) اپنے پلان بنا رہا ہے، اور اللہ اپنے پلان بنا رہا ہے، اور اللہ یقینا بہترین پلاننگ کرنے والا ہے۔ القرآن۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).