’آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر غیرمتنازع مگر سخت افسر‘


لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ملک کے اہم ترین خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلی جنس ایجنسی یعنی آئی ایس آئی کے نیے سربراہ کی ذمہ داری سونپی گئی ہیں۔

فوج میں فُٹ انفینٹری یعنی پیادہ فوج کو سخت ترین سمجھا جاتا ہے اور آئی ایس آئی کے نئے تعینات ہونے والے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نیازی نے بھی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔

انھوں نے 23 ایف ایف کی کمان بھی سنبھالی اور بطور لیفٹیننٹ کرنل وہ سعودی عرب میں بھی تعینات رہے۔

کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں درس و تدریس کی، آپریشنل ایریا میں بریگیڈ کمانڈ کی۔

انھوں نے سیاچن میں ڈویژن کمانڈ کی اور انڈیا کی جانب سے مبینہ سرجیکل سٹرائیک کے دعوے سے چند روز قبل ہی وہ جی ایچ کیو پوسٹ ہوئے تھے۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران فوجی انٹیلیجنس یعنی ایم آئی کے سربراہ تھے اور اس دوران جب فوج کو بعض حلقوں کی جانب سے انتخابی عمل میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے تنقید کا سامنا رہا تو عاصم منیر غیرمتنازع رہے۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر پاکستان ملٹری اکیڈمی یعنی پی ایم اے کے فارغ التحصیل نہیں بلکہ انہوں نے آفیسرز ٹریننگ سکول سے فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا۔

فوج میں وہ ایک سخت افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں، اہم عہدوں، خاص طور پر ڈی جی ایم آئی رہنے کی بدولت ان کے بارے میں سمجھا جا رہا ہے کہ آئی ایس آئی میں بھی فوج کی پہلے سے جاری پالیسیوں اور اقدامات کو مزید تقویت حاصل ہو گی۔

اگرچہ آئی ایس آئی کو فوج کے اہم ترین اداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے تاہم اب تک صرف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی وہ واحد فوجی سربراہ ہیں جنہوں نے آرمی چیف بننے سے پہلے آئی ایس آئی کی کمان بھی کی ہو۔

لیکن کیا آئی ایس آئی کے سربراہ کی تبدیلی سے ادارے کی پالیسی پر کوئی فرق پڑتا ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین کہتے ہیں کہ فوج کی پالیسی سربراہان کی تبدیلی سے نہیں بدل سکتی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان میں بہت کم ادارے ہیں جو ایک ادارہ جاتی یا انسٹی ٹیوشنل پالیسی کو فالو کرتے ہیں، ان میں فوج اور آئی ایس آئی شامل ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ نیا آرمی چیف، نیا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی یا نیا آئی ایس آئی سربراہ آئے اور وہ کوئی نیا راستہ دریافت کر کے اس پر چلنا شروع کر دے۔ یہاں مربوط قومی حکمت عملی کے تحت راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور فوج اور آئی ایس آئی اس کا حصہ ہوتی ہے۔ اس لیے پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہ تو نیا سربراہ لا سکتا ہے اور نہ ہی وہ لاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ملک کے اندر سکیورٹی کے معاملات میں بھی آئی ایس آئی کا اہم کردار ہے جبکہ پاکستان میں اس کے کردار میں گذشتہ دو دہائیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور پالیسی سازی میں دیگر اداروں کی طرح فوج کا یہ حصہ بھی اپنا اِن پُٹ(رائے) دیتا ہے۔

‘یہ ایجنسی پالیسی ڈرائیور( پالیسی مرتب نہیں کرتی) نہیں بلکہ پالیسی فیسیلیٹیٹ کرتی ہے۔ اس کی اِن پٹ پر حکومت پالسی بناتی ہے’۔

آئی ایس آئی کی جانب سے سیاست میں مداخلت کے الزامات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ سیاست میں یہ مداخلت دنیا بھر میں ہوتی ہے، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاست میں فوج کے کردار میں کمی آرہی ہے، جس کی وجہ جمہوریت کی مضبوطی ہے’۔

فوج میں عام طور پر یہ تاثر ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز یعنی ڈی جی ایم اور اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس یعنی ڈی جی ایم آئی کو فوجی سربراہ کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وزیراعظم نے آرمی چیف کے قریب ترین افسران میں سے ایک کو اس عہدے پر تعینات کیا ہے۔

واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری وزیر عظم کی صوابدید ہے اور ادارہ بھی قانون کے تحت وزیر اعظم کے ماتحت ہے۔

اس طرح ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم اور فوجی سربراہ دونوں کو ہی جوابدہ ہوتے ہیں۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے دورِ حکومت میں دو بار فوجی سربراہ کا انتخاب کریں گے۔

موجودہ آرمی چیف 2019 میں ریٹائر ہوں گے جبکہ ان کی جگہ آنے والے فوجی سربراہ 2022 میں ریٹائر ہوں گے۔

سبکدوش ہونے والے سربراہ آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو موجودہ آرمی چیف نے عہدہ سنبھالنے کے بعد 2016 میں خفیہ ایجنسی کا سربراہ مقرر کیا تھا جبکہ اس سے پہلے وہ کور کمانڈر کراچی تعینات تھے اور تقریباً پونے دو سال اس منصب پر فائز رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp