ہیرڈز سے 16 ملین پاؤنڈ کی شاپنگ کرنے والی خاتون کون؟


ہیرڈز سٹور

برطانیہ میں انسداِدِ بدعنوانی کے نئے قانوں کا پہلا نشانہ بننے والی اس خاتون کا نام ظاہر کر دیا گیا ہے جو لندن میں اپنا 11.5 ملین پاؤنڈ کا گھر بچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

ضمیرہ حاجی ایوا کا تعلق آذربائیجان سے ہے۔ وہ اپنا نام مخفی رکھنے کی قانونی جنگ ہار گئیں کیونکہ میڈیا کی طرف سے اصرار کیا گیا تھا کہ برطانیہ کے عوام کو مکمل حقائق کا علم ہونا چاہیے۔

مسز حاجی ایوا آذربائیجان کے ایک سرکاری بینکار کی اہلیہ ہیں اور انھوں نے دس برس کے دوران لندن میں واقع مشہور سٹور ہیرڈز میں 16 میلن پاؤنڈ خرچ کیے۔ انھوں نے سٹور کے قریب ایک گھر اور برکشائر میں ایک گالف کورس بھی خریدا۔

ہائی کورٹ نے انھیں حکم دیا کہ وہ بتائیں کہ ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ اگر وہ یہ ذریعہ نہ بتا پائیں تو ان کی جائیداد چھن جانے کا خطرہ ہے۔

برطانیہ کے نئے قانون ’ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر‘ (وہ دولت جس کی وضاحت نہ کی گئی ہو) کے تحت 55 سالہ مسز حاجی ایوا کو اب نیشنل کرائم ایجنسی کو واضح تفصیل فراہم کرنی ہے کہ انھوں نے اور ان کے شوہر جہانگیر حاجی ایوا نے لندن کے مہنگے علاقے نائٹس برج کے قریب اتنا بڑا گھر کیسے خریدا۔

مسز حاجی ایوا کے وکلا کہتے ہیں کہ نئے قانون کا مطلب یہ نہیں ہے کہ (ان کی موکلہ یا ان کے شوہر نے) کوئی گڑبڑ کی ہے۔ انھوں نے اس قانون کے خلاف اپیل کی بھی اجازت مانگی ہے۔

نیا قانون کیا کہتا ہے؟

اس قانون کا مقصد مشتبہ بدعنوان غیر ملکی اہلکاروں کو نشانہ بنانا ہے جنھوں نے ممکنہ طور پر برطانیہ کے ذریعے منی لانڈرنگ کی۔

نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقاتی ٹیم کا خیال ہے کہ کرپشن کی رقم سے برطانیہ میں اربوں پاؤنڈ کی جائیدادیں خریدی گئی ہے لیکن ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے ان جائیدادوں کے مالکان پر مقدمہ چلانا یا اثاثوں کو ضبط کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

نئے قانون کے مطابق ایسے مالکان کو بتانا ہو گا کہ ان کی دولت کا ذریعہ کیا ہے۔

اگر کوئی بدعنوان غیر ملکی اہلکار یا اس کا خاندان دولت کا جائز ذریعہ نہیں بتا سکے گا تو نیشنل کرائم ایجنسی ہائی کورٹ میں ایسی جائیداد کی ضبطی کی درخواست کر سکتی ہے۔

اس پہلی کارروائی کے مرکز میں کون سا جوڑا ہے؟

جہانگیر حاجی ایوا انٹرنیشنل بینک آف آذربائیجان کے سابق چیئرمین ہیں۔ انھیں سنہ 2016 میں دھوکہ دہی اور مال غبن کرنے کے مقدمے اور بینک سے کئی ملین پاؤنڈ غائب ہوجانے کے جرم میں 15سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ ججوں نے انھیں 39 ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

جہانگیر ہاجییوا

سات سال پہلے برٹش ورجن آئی لینڈ میں واقع ایک کمپنی نے لندن میں ہیرڈز سٹور سے چند قدم دور ایک بڑے گھر کی خریداری کے لیے 11.5 ملین پاؤنڈ ادا کیے تھے۔

ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ یہ جائیداد مسز حاجی ایوا اور ان کے شوہر کی ملکیت ہے۔

سنہ 2013 میں مسز حاجی ایوا کی ایک اور کمپنی نے برکشائر میں مل رائیڈ گالف کلب خریدنے کے لیے دس ملین پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم خرچ کی۔

واضح رہے کہ برطانوی ہوم آفس نے امیر سرمایہ کاروں کے لیے ویزا سکیم کے تحت اس جوڑے کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت دی تھی۔

جوڑا برطانیہ کتنی رقم لایا؟

جولائی میں ہائی کورٹ کو ایک سماعت میں بتایا گیا کہ مسز حاجی ایوا کے پاس بہت دولت ہے۔ انھوں نے دس سال کے عرصے میں ہیرڈز میں 16 میلن پاؤنڈ سے زیاہ خرچ کیے جو یومیہ چار ہزار پاؤنڈ بنتے ہیں۔

عدالت میں پیش کی گئی تفیصلات کے مطابق انھوں نے مہنگے زیورات، پرفیوم اور گھڑیوں کی خریداری پر ایک دن میں ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ خرچ کیے۔ اگلے روز انھوں نے 18 سو پاؤنڈ کی شراب خریدی جبکہ ایک اور موقعے پر انھوں نے کارٹیئر زیورات پر ایک لاکھ پاؤنڈ اور مردوں کے استعمال کی اشیا پر 20 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے۔

مسز حاجی ایوا نے اپنے شوہر کے بینک کی جانب سے جاری کردہ 35 کریڈٹ کارڈز اور تین سٹور کارڈ استعمال کیے۔

سرکاری ریکاڈ کے مطابق یہ جوڑا ہیرڈز کے مخصوص کار پارک میں گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے بنی حاشیے والی دو پارکنگز کا بھی مالک تھا جبکہ مسز حاجی ایوا نے 42 ملین ڈالر مالیت کا ایک پرائیوٹ جیٹ بھی خریدا تھا۔

کیا مسز حاجی ایوا نے تسلیم کیا کہ انھوں نے کچھ غلط کیا؟

نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور انھوں نے خود پر عائد کیے جانے والے الزامات کو فروری میں نافذ کیے والے ’ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر‘ کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔

مسز حاجی ایوا کے وکلا نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ ان کی موکلہ اور ان کے شوہر کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے۔

جہانگیر ہاجی ایوا نے اپنے بینک کے ساتھ دھوکہ کرنے کی تردید کی تاہم اپنی سزا کے خلاف اپیل کی جو ناکام ہو گئی۔

ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کا بدعنوان حکمران خاندان ان سے ناراض ہو گیا جس کی ان کو یہ قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔۔

جہانگیر حاجی ایوا نے انسانی حقوق کی یورپی عدالت سے کہا ہے کہ وہ ان کے کیس میں مداخلت کرے۔

مسز حاجی ایوا نے ہائی کورٹ میں اپنے مقدمے میں کہا کہ ان کے خاوند ایک جائز کاروباری شخص تھے اور بینک کے چیئرمین بننے سے پہلے ہی بہت امیر ہو چکے تھے۔

لیکن نیشنل کرائم ایجنسی نے عدالت کو بتایا کہ جہانگیر حاجی ایوا سنہ 1993 سے 2015 تک سرکاری ملازم رہے اور ایک سرکاری اہلکار کے طور پر ان کے پاس اتنی دولت اکٹھی کرنے کے وسائل نہیں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp