کاش پانی کے نل سے تیل نکلنے کا معجزہ ہو جائے


اکتوبر2011 میں لاہور کے مینارِ پاکستان کے پرشکوہ سائے میں ہوئے جلسے کے بعد عمران خان صاحب کو ”انقلابی عوامی رہنما“ بنانے کا سفر شروع ہوا تو اشتہاری کمپنیوں کے ساتھ کئی دہائیوں سے وابستہ رہنے والے نابغے بھی ان کے قافلے میں شامل ہوگئے۔

ان لوگوں کی ذہانت نے تحریک انصاف کو اپنے دشمنوں کو عزت بچانے کے خوف سے خاموش ہوجانے پر مجبور کردیا۔ خان صاحب کی ”صابن ہو تو 707“جیسے سادہ اور ذہنوں میں گھر کرجانے والے Messagesکے ساتھ ایک ایسے مسیحا کے طور پر پروجیکشن شروع ہوئی جو بلھے شاہ کی بتائی ”چرخے کی کوک“ سن کر لوگوں کی پریشانیاں دور کرنے پہاڑوں سے اتر آیا ہے۔

بالآخر25 جولائی 2018 کے روز ان سب کی بنائی Product Sell ہوگئی۔ عمران خان صاحب اس ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔

وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے کئی ہفتے گزر جانے کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے مگر ”اُمت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت“ کے حامل ملک کا وزیراعظم ماﺅزے تنگ کی طرح محض اپنے وطن میں ٹک کر ہی قوم کو خوش حالی کی راہ پر ڈال نہیں سکتا۔

سعودی عرب اور چین دو ایسے ملک ہیں جن سے اس کڑی دُنیا میں ہر صورت بناکررکھنا ہماری مجبوری ہے۔ سعودی شاہی خاندان سے ملنے جاﺅ تو ہمارے حکمرانوں کے لئے خانہ کعبہ کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ روضہ رسول پر حاضری کی سعادت نصیب ہوجاتی ہے۔

”انقلابی“ کولہذا ”سرکاری“ ہونا پڑا۔ ”انقلابی“ جب ”سرکاری“ ہوجائے تو خلقِ خدا کو اس سے ویسے ہی شکایات پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں جو بے تحاشہ آبادی اور کم وسائل والے ہر ملک کے حکمرانوں سے ہوا کرتی ہیں۔ ہمارے خان صاحب تو ویسے بھی معجزے برپا کرنے نمودار ہوئے تھے۔اپنی کرامات دکھانے کے بجائے انہوں نے مگر مرزا شہزاد اکبر متعارف کروادیا جو وعدہ کئے چلے جارہا ہے کہ ”اک ذراصبر….“۔

ہمارے ”چور لٹیرے سیاستدانوں “ کی جانب سے قومی خزانے سے چرائی دولت سے خریدی جائیدادوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ ان کے غیر ملکی بینکوں میں اکاﺅنٹس کی تفصیلات بھی جمع ہوگئیں۔ اب فقط چند معاہدوں پر دستخط ہونا ہیں اور ہمارا قومی خزانہ زرمبادلہ سے لبریز ہوجائے گا۔

مرزا صاحب کی ذہانت وفطانت پر دل وجان سے اعتبار کرتے ہوئے بھی ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہر بیماری دور کردینے والا ”کشتہ“ بہت ہی ہلکی آنچ پر تیار ہوتے ہوئے بہت دیر لگاتا ہے۔ حکومتِ وقت کو اس کشتے کے تیار ہونے تک مگر لوگوں کو بجلی فراہم کرنا ہے گھروں اور صنعتوں کو گیس کی ضرورت ہے۔

قومی خزانہ خالی ہو تو محض ان دو شعبوں میں گردشی قرضہ جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ قرضہ ناقابل برداشت بن جائے تو بجلی اور گیس پیدا کرنے اور فراہم کرنے والے اپنی دُکان بند کردیتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر صاحب کو لہذا بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا پڑیں۔ لوگ مہنگائی کی لہر سے پریشان ہوگئے۔

مہنگائی کی لہر سے پریشان ہوئے عوام لاہور کے گورنر ہاﺅس کے لان میں گھوم کر اپنی پریشانیوں کا مداوا نہیں ڈھونڈ سکتے۔ بھینسوں کی فروخت بھی ان کی تسلی کے لئے ناکافی ہے۔ بالآخرشہباز شریف کی گرفتاری سے ”چوروں اور لٹیروں کو عبرت کا نشان“ بنانے والا ”ایک اور وعدہ“ بھی پورا ہوگیا۔ ڈالر مگر یہ کالم لکھنے تک 140پاکستانی روپے کی حد تک پہنچنے والا ہے۔

بین الاقوامی منڈی میں تیل کے ایک بیرل کی قیمت فی الوقت 80 ڈالر ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین کو یہ خوف لاحق ہے کہ صدر ٹرمپ کی بدزبانی کے باوجود سعودی عرب اور دیگر OPECممالک نے تیل کی پیداوار موجودہ سطح سے کہیں زیادہ بڑھاکر بین الاقوامی منڈی کو فراہم نہ کی تو نومبر کے اختتام تک تیل کا ایک بیرل کم از کم 100ڈالر کا ہوجائے گا۔

تیل کی قیمت کے حوالے سے نومبر 2018اس لئے سنگین اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ٹرمپ نے یہ دھمکی دے رکھی ہے کہ 4 نومبر2018کے بعد امریکا کا جو بھی ”دوست“ ایران سے تیل خریدے گا امریکی کمپنیاں اس سے لین دین بند کردیں گی۔

ان ممالک کی مصنوعات کو امریکی منڈی میں بکنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور پاکستان کئی دہائی سے امریکہ کا ”دوست“ ہے۔ہماری برآمدات ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ٹیکسٹائل نمبرون ہے اور ہماری کپاس سے بنی مصنوعات -کپڑے، تولیے اور بیڈ شیٹس وغیرہ۔کا سب سے بڑا خریدار امریکہ ہے اور اس کے بعد نمبر آتا ہے یورپی ممالک کا۔

ایران اگرچہ ہمارا ہمسایہ ہے مگر اس کے تیل اور گیس کے ہم بڑے خریدار نہیں۔ برادر عرب ممالک اس ضمن میں ہمارے تجارتی شریک ہیں اور ان ممالک میں پاکستانی مزدور اور ہنرمند بھی لاکھوں کی تعداد میں خون پسینہ ایک کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی کفالت کے لئے رقوم بھیجتے ہیں۔

ان کی بدولت ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تھوڑی رونق بھی لگ جاتی ہے۔تیل مگر ”برادر عرب ممالک‘ کو بھی عالمی منڈی کے تقاضوں کے مطابق انہی نرخوں پر بیچنا ہوتا ہے جو لندن کا برنٹ (Brent)طے کرتا ہے۔ ایک بیرل کی قیمت 100ڈالر تک پہنچی تو اسے خریدنے کے لئے 1400پاکستانی روپے دینا ہوں گے۔

ٹرانسپورٹ کا خرچ ڈال کر حکومت کوئی اضافی ٹیکس نہ بھی لگائے تو آئندہ سال کے فروری/مارچ تک ہمیں اپنے موٹرسائیکل یا کار کی پیٹرول کی ٹینکی فل کروانے کے لئے آج سے دگنی رقم دینا ہوگی۔ اس مہنگائی کے اثرات بجلی اور گیس کے علاوہ روزمرہّ زندگی کے ہر شعبے میں نظر آئیں گے۔

مہنگائی ناقابل برداشت ہوجائے گی۔لوگ چلا اٹھیں گے۔وزیر اعظم عمران خان صاحب مگر اب بھی بضد ہیں کہ ان کی میڈیا ٹیم پاکستانی عوام کو یہ باور کروائے کہ مختلف النوع وجوہات کی بنا پر ان کی زندگی کو عذاب بنانے والی مہنگائی کا واحد وحتمی سبب آصف زرداری اور نواز شریف جیسے ”چوروں اور لٹیروں“ کے وہ 15سال ہیں جن میں وہ اقتدار میں ”باریاں“ لیتے رہے ہیں۔

میڈیا ٹیم کے لئے یہ پیغام بیچنا مگر اب ناممکن ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری بہت بلکہ ضرورت سے زیادہ فعال ہیں ۔ Spin Doctoringمگر ذلتوں کے مارے افراد کو تھپکیاں دے کر سلا نہیں سکتی۔ ان کی معاونت کو اب بہت ہی ذہین وفطین فرخ سلیم صاحب کو معیشت اور توانائی کے معاملات پر گفتگو کرنے کا فریضہ سونپاگیا ہے۔

فرخ سلیم صاحب مگر اعدادوشمار کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ان کا علم تو مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹر کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔ اَن پڑھ یا عام پڑھا لکھا آدمی اسے کیا سمجھے گا۔فواد چودھری صاحب کے علاوہ وزیر اعظم کی میڈیا کے حوالے سے براہِ راست معاونت کے لئے افتخار درانی صاحب بھی ہیں۔ انہیں مگر چند ”لفافہ صحافیوں“ کو نوکریوں سے نکلوانا ہے۔

اپنی پسند کے رپورٹروں کو وزیر اعظم ہاﺅس کی Beatدلوانا ہے۔ میڈیا کو حکومتی اشتہارات کی تقسیم کے ذریعے قابو میں رکھناہے۔ مختصراََ PR نہیں تھانے داری کرنا ہے۔ ذاتی طورپر اگرچہ وہ خاموش طبع اور دھیمے مزاج والے حلیم الطبع آدمی ہیں۔ رویہ فلسفیوں والا ہے۔ تھانے داری ان کے بس کا روگ نہیں۔

فیض الحسن چوہان اس ضمن میں زیادہ کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ عثمان بزدار صاحب ان کی صلاحیتوں سے براہِ راست فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔ ایمان داری کی بات ہے کہ مجھے عمران خان صاحب کی میڈیا ٹیم پر بہت رحم محسوس ہورہا ہے۔

ربّ کریم سے فریاد ہے کہ وزیراعظم کے غضب سے انہیں محفوظ رکھے۔ کوئی ایسا معجزہ برپا ہوجائے کہ ہم گھروں میں پانی کانل کھولیں تو وہاں سے تیل نکل آئے جسے پائپ لگاکر ہم اپنی موٹرسائیکلوں کی ٹینکیاں بھرلیں اور امریکی مارکیٹ اتنی کریش کر جائے گی کہ ایک پاکستانی روپے کے بدلے سو ڈالر ملیں۔ ”معجزوں“ کی منتظر قوم نے بہت انتظار کرلیا۔ اب کرم کی برسات ہوہی جائے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).