استنبول دھماکہ: امن ابھی دور ہے


\"VIDEO

آج صبح جب لوگ کام کاج پر پہنچنے میں مصروف تھے، استنبول کے بایزید چوک میں بم دھماکہ میں گیارہ افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ علاقہ شہر کا تجارتی مرکز ہے اور سیاحوں میں بھی مقبول ہے۔ استنبول کا گرینڈ بازار اور استنبول یونیورسٹی بھی یہاں سے دور نہیں ہیں۔ کسی گروہ نے اس دھماکہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے ۔لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران استنبول اور ترکی کے دوسرے شہروں میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری دہشت گرد گروہ داعش یا دولت اسلامیہ نے قبول کی ہے۔ ترک حکومت بعض دھماکوں کی ذمہ داری کرد علیحدگی پسندوں پر بھی عائد کرتی ہے۔

ترکی میں دہشت گردی کے واقعات میں گزشتہ دس ماہ کے دوران اضافہ ہؤا ہے۔ ان دھماکوں اور دہشت گرد حملوں کا تعلق شام کی خانہ جنگی اور اس کے بارے میں ترک پالیسیوں سے بھی ہے۔ دولت اسلامیہ نے جولائی 2015 میں ترک سرحدی قصبے سوروک میں نوجوانوں کے ایک اجتماع پر حملہ کرکے 33 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ اس سے پہلے نہ ترک حکومت داعش کے خلاف جنگ میں باقاعدہ شریک تھی اور نہ ہی دولت اسلامیہ نے ترکی میں دہشت گردی کا آغاز کیا تھا۔ سوروک کے سانحہ کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی اور ترک حکومت نے اتحادی افواج کو اپنے ائیر بیس استعمال کرنے کی اجازت دے دی تاکہ داعش کے خلاف حملوں کو مؤثر بنایا جا سکے۔ لیکن اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر اردگان کی حکومت نے ترک فضائیہ کو بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا ۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اتحادی ممالک یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان حملوں میں ذیادہ تر کرد علیحدگی پسندوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس دوران صدر اردگان نے کردوں کے ساتھ دو سال قبل کئے جانے والا امن معاہدہ ختم کرکے گویا کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کردیا۔

اس حکمت عملی سے ترکی نے داعش کے علاوہ کردوں کے ساتھ بھی جنگ کا آغاز کردیا۔ کردوں کے خلاف ترک فوجی کارروائی کو عالمی حمایت حاصل نہیں ہے کیوں کہ شام اور عراق کے کرد اپنے اپنے طور پر دولت اسلامیہ کے خلاف مزاحمت کرنے والی مؤثر قوتیں ثابت ہوئی تھیں۔ اگرچہ اتحادی طیاروں نے دولت اسلامیہ کے خلاف ستمبر 2014 سے حملوں کا آغاز کردیا تھا لیکن زمین پر کرد میلشیا نے ہی شام اور عراق میں داعش کی پیش قدمی کو روک کر اپنی عسکری صلاحیت کا لوہا منوایا تھا۔ امریکہ اور اتحادی کردوں کو داعش کی سرکوبی کے لئے اہم فوجی قوت سمجھتے ہیں لیکن ترکی کا خیال ہے کہ ہمسایہ ملکوں میں کردوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ سے ترکی کے علیحدگی پسند کردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اسی لئے ترکی کردوں کے خلاف فوجی کارروائی کرتے ہوئے انہیں کمزور اور غیر مؤثر کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح ترکی نے اپنے ہمسایہ میں بیک وقت دو بڑی عسکری قوتوں داعش اور کرد علیحدگی پسندوں کو جنگ کی دعوت دی ہے۔ اسی کے نتیجہ میں ترکی میں دہشت گردی میں اضافہ بھی ہؤا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ دولت اسلامیہ کو شام اور عرق میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے قبضے سے تیس فیصد علاقہ واگزار کروا لیا گیا ہے ۔ اگرچہ یہ علاقہ ذیادہ تر صحرا اور بے آباد رقبہ ہے لیکن اس سے دولت اسلامیہ دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے۔ روس کی اس تنازعہ میں مداخلت اور صدر بشار الاسد کی حمایت میں فوجی کارروائی سے شام کی فوج نے بھی نئے حوصلہ سے جنگ کا آغاز کیا ہے۔ اس وقت عراق کی فوج دولت اسلامیہ کے قبضہ سے فلوجہ کو آذاد کروانے کے لئے حملے کررہی ہے تو دوسری طرف شام کی سرکاری فوج روسی فضائیہ کے تعاون سے دولت اسلامیہ کے ’دارالحکومت‘ رقہ پر حمہ آور ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورت حال میں داعش دہشت گرد حملوں کے ذریعے اس دباؤ کو کم کروانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ دوسری طرف یہ اندازہ بھی قائم کیا جا رہا ہے کہ اگر دولت اسلامیہ کے جنگجو شام اور عراق سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے تو وہ مختلف ملکوں میں دہشت گردی کے ذریعے تباہی پھیلانے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شام اور عراق کے بعد ان کا سب سے اہم ہدف ترکی ہوگا۔ ترکی میں وقفے وقفے سے ہونے والے حملے اس اندازے کی تصدیق کرتے ہیں۔

شام کے لاکھوں پناہ گزین ترکی میں مقیم ہیں۔ داعش آسانی سے پناہ گزینوں کے بھیس میں اپنے دہشت گرد ترکی میں داخل کرتی ہے جو حملہ کرنے کے بعد مقامی آبادی میں ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ آج استنبول میں ہونے والا دھماکہ بھی ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا تھا ۔ خبروں کے مطابق اس بم دھماکہ کا اصل ہدف پولیس کی ایک گاڑی تھی۔ بم ایک کار میں نصب کیا گیا تھا۔ سیکورٹی فورسز پر حملہ کی صورت میں ترک حکام اسی کارروائی کو کرد علیحدگی پسندوں کا اقدام سمجھتے ہیں۔ تاہم آج کا حملہ کسی نے کیا ہو، اس کا تعلق شام کی خانہ جنگی سے ہی ہے اور یہ اس بات کا پیغام دیتا ہے کہ اس علاقے میں امن ابھی بہت دور ہے۔ بلکہ انتشار اور جنگ پھیلنے کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments