جیل جانے والے ستر سے پچاسی سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کی فہرست تیار ہے


گیارہ لاکھ گندے انڈے ایک ساتھ دیکھنے کا اتفاق پہلے شاید کبھی نہیں ہوا۔ ابھی حیرانی کی کیفیت سے باہر نہ نکلا تھا کہ اس کھانے پینے کی شوقین قوم کو گدھے، مردہ بھینسیں، کتے اور مردہ مرغیاں کھلانے والے دولت کی ہوس میں حیوانیت کے گہرے جوہڑ میں اتنا بھی گر سکتے ہیں۔ اگلے ہی روز ایک اور بریکنگ نیوز نے بجلی ہی گِرا دی۔ ٹی وی سکرین پر سرخ رنگ کے گھومتے چوکھٹے میں جلی حروف میرا اور انسانیت کا منہ چڑا رہے تھے ” تیس لاکھ گندے انڈوں کی بڑی کھیپ پکڑی گئی‘‘ اف توبہ۔ ساتھ ہی فوٹیج بھی پلے کر دی گئی۔ کچھ انڈوں کے چھلکوں سے چوزے بھی سر نکالے بے سدھ پڑے تھے۔ گندے انڈوں کی اِس انتہائی ناخوشگوار بو کے تعفن زدہ ماحول سے ذہن باہر نہیں نکلا تھا کہ اچانک خبر مِلی کہ شہباز شریف کی گرفتاری پر حمزہ اور اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی کے باہر دری دھرنا دیدیا ہے، ڈالر روپے کو ناک آؤٹ کرنے کے در پے ہے، مہنگائی کا طوفان حکومت کے لئے آٹھ اکتوبر کے زلزلے سے بھی زیادہ خوفناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے، سوشل میڈیا پر ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے، خواجہ آصف کے ٹویٹ جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں، طعنے دیے جا رہے ہیں، لگ تو یہی رہا ہے کہ کپتان کوارٹر فائنل بھی نہیں کھیل پائے گا۔

مایوسی پھیلائی جا رہی ہے، معاشی دلدل سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا سب کو کھٹک رہا ہے۔ تیروں، نیزوں، بھالوں کا دور گیا، میزائلوں کا رخ بنی گالا کی جانب ہے۔ چیف جسٹس بھی وزیر اعظم کو کبوتر گھرکے درشن کرا رہے ہیں۔ صورتحال دیکھ کر ذہن پھر گندے انڈوں میں اٹک گیا۔ ایک اور بو کا بھبھوکا اڑا اور دماغ کا سارا رومانس بھی بھک سے جل کر بھسم ہو گیا۔ جنہیں جمہوریت کی بد ہضمی ہے وہی لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کا مزاج رکھتے ہیں۔

ماضی کے واقعات کی ایک فِلم چلنا شروع ہو گی۔ اسلام آباد کے کانسٹی ٹیوشنل ایونیو میں اس ملک کی سب سے بڑی بیکری۔ پرائم منسٹر ہاؤس اور منسٹر انکلیو کے پر فضا ماحول کے ” کولڈ سٹوریج ‘‘ میں برسوں سے سٹور ہوئے قیمتی ترین انڈے اور سرخ کلغیوں اور تنی گردنوں والے اصیل ککڑ اور ککڑیاں۔ میرے جیسے تو ان کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ کجا کہ اس بارے میں سوچیں کہ کہاں۔ بے جان اور بے سدھ برائلر مرغیوں جیسے عوام۔ کہاں یہ کروفر اور طنطنے والے اصیل ککڑ جو مکھن بادام کھا کر پروان چڑھتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی نظر بھی چمچماتی گاڑیوں اور چند بھینسوں پر پڑی۔ جو انڈے ان کی ٹرے میں ہیں انہیں بھی پانی میں ڈالیں کتنے تیرتے ہیں اور کتنے ڈوبتے ہیں۔ وزیراعظم خوب پہچانتے ہیں کہ انہوں نے کس کس گودام کے ضبط شدہ انڈوں سے نئے پاکستان کی اس بیکری کا افتتاح کیا ہے۔ کرپٹ نظام کے گودام سے کچھ ‘‘ ری کنڈیشن” انڈے نکال کر پالش کیے گے ہیں۔ ان پر نئے لیبل اور پرائس ٹیگ لگائے گئے اور 2018 کی نئی خوبصورت جمہوری پیکنگ میں پیش کر دیا گیا۔

خیر وہ وقت بھی بہت قریب ہے جب انڈے ٹکرائیں گے بھی اور انڈے اچھالے بھی جائیں گے۔ کیوں کہ مجھے کیوں نکالا کی پسِ پردہ کہانیوں، کرپشن کی ہزار داستانوں نے اسٹیبلشمنٹ کو جمہوری اصیل ککڑوں کو ذبح کیے بغیر ”کھڈے ‘‘ میں بند کرنے کا گر سکھا دیا ہے، جو زیادہ کڑ کڑ کرے یا بے وقت کی بانگیں دے اس کی گِچی کیسے بند کرنی ہے۔ یہ گر بھی اب بدل گیا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اس ملک کی بساط پر شاطر اپنی اپنی چالیں چل رہے تھے، للکار بھی رہے تھے اور پھنکار بھی رہے تھے اور دھاڑ بھی رہے تھے، اب بھی بساط بچھی ہے۔ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے کیا لڑائی ہے اور نواز شریف سے چھٹکارا پانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے کیا کیا پاپڑ بیلے۔

کہانی جنرل جہانگیر کرامت کی جبری ریٹائرمنٹ سے شروع ہوتی ہے، پرویز مشرف دورمیں یہ جنگ نقطہ عروج پر پہنچ جاتی ہے، جنرل راحیل شریف بظاہر خاموش طبع مگر عسکری پالیسی سے انحراف نہ کرنے والے جرنیل جو ڈان لیکس کے بعد اسی لائن آف ایکشن پر چلتے ہیں جس کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ اب تھنک ٹینکس کی سوچ کا محور ضیا الحق یا مشرف کی طرح میرے عزیر ہموطنو کی تقریر پی ٹی وی کی آرکائیو سے نکلوا کر نئے جرنیل سے ریکارڈ کروانا ہر گز نہیں بلکہ گذشتہ دو عام انتخابات سے واضح ہوتا ہے کہ سب کو کھل کھیلنے کا موقع دے کر انہیں بے قصور بے قصور کے نعروں کی گونج میں صاف بچ نکلنے، مظلومیت کی آڑ میں ہمدردی سمیٹ کر ہر بار اقتدارکے مزے لوٹنے، مقتدر اداروں کو آنکھیں دکھانے، انہیں یہ باور کرانے کہ” تم نے تین سال رہنا ہے ہم نے ہمیشہ رہنا ہے ‘‘ انہیں ایمپائر، محکمہ زراعت، خلائی مخلوق جیسے القابات سے نوازنے والوں کو بھی سبق سکھانا تھا اور خود پر لگے جمہوریت پر شب خون مارنے کے گہرے داغ صاف کرنے کا چیلنج بھی درپیش تھا۔

اسٹبلشمنٹ کے گملے بہت مشہور ہیں، ذرا اس نرسری کی سیر بھی کر لیں اسٹیبلشمنٹ ہے کیا، ریاست کے چار ستون۔ عدلیہ، پارلیمان، سول و ملٹری بیورو کریسی اور میڈیا جسے چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے۔ ان سب کو مربوط حکمت عملی کے تحت ایسے نظام میں لانا بہت مشکل اور جان جوکھوں کا کام ہے جو ریاست کے ناپسندیدہ، بھٹکے عناصر کو سبق سکھا سکے۔ عدلیہ کے ذریعے ہمیشہ اداروں نے من پسند فیصلے مسلط کرائے۔ بھٹو کا عدالتی قتل، جسٹس قیوم ہو یا نسیم حسن شاہ، نواز شریف کی طیارہ کیس میں عمر قید، کرپشن پر آصف زرداری کی طویل قید، بے نظیر بھٹو کی نظر بندی۔ عدلیہ نے ریاست بچانے کے نام پر جمہوریت کی بساط لپیٹنے والوں کا ساتھ بھی دیا اور نظریہ ضرورت کے تحت آمروں کے اقتدار کا قانونی تحفظ بھی دیا۔

افتخار چوہدری کے ساتھ چپقلش اور عدلیہ بحالی تحریک نے مشرف کو نقصان پہنچایا۔ مگر اسی افتخار چوہدری نے یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف کو گھر بھیجا ۔ پارلیمان کا کردار بھی ہمارے سامنے ہے اور انڈوں کی تمثیل سے واضح ہو چکا، بیورو کریسی جسے بے لگام گھوڑا قرار دیا گیا۔ سیاست دانوں کو کرپشن کے طریقے سکھانے اور صاف بچ نکلنے کے طریقے سکھانے کا الزام بھی بیورو کریسی پر لادا جاتا ہے۔ یہ خاصی حد تک درست بھی ہے نواز شریف نے بیورو کریسی میں اپنے مخصوص افسران کے ذریعے تیس برس سے زائد اقتدار کے مزے لوٹے۔ یہی نہیں انہوں نے عدلیہ سے بھی من پسند فیصلے حاصل کیے۔

بات کرتے ہیں میڈیا کی یہ تو ربڑ کی ناک ہے سیاست دانوں نے اشتہارات اور مراعات دے کر میڈیا کو خریدا۔ سکوٹر والے اینکر مرسڈیز پرآگئے۔ پلاٹوں، پلازوں اور غیر ملکی دوروں میں من پسند اینکرز اور رپورٹرز کو ترجیح دی جانے لگی۔ میڈیا پوری طرح اداروں اور شخصیات کے تابع ہو گیا۔ جس نے آنکھیں دکھائیں اسے سبق سکھایا گیا، میڈیا ہاؤسز پر علانیہ اور غیر علانیہ پابندی لگائی گئی، پیمرا کی تلوار سونت لی گئی تو کبھی کیبل آپریٹرز کے تیروں نے چھلنی کیا۔ میڈیا کنٹرول کرنے کے لئے میڈیا سیل بن گئے۔ لیکن اگر مریم نواز کا میڈیا سیل ایکٹو ہو سکتا ہے، ایم کیو ایم میڈیا کو کنٹرول کر سکتی ہے، زرداری میڈیا کو استعمال کر سکتے ہیں تو ریاست کے لئے بے لگام میڈیا کو نکیل ڈالنے میں کیا قباحت ہے جو اداروں نہیں شخصیات اور ایجنڈوں کے تابع ہو۔

چنانچہ ٹاک شوز میں مخصوص نقطہ نظرکے ریٹائرڈ جرنیلوں، ائر مارشلز، بریگیڈئرز کی بطور تجزیہ کاروں کی بھرمار ہونے لگی جن کا کام ہی سیاستدانوں کی کرپشن بے نقاب کرنا اور اپنے سابقہ ادارے پر اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرنا تھا۔ کچھ کام سوشل میڈیا پر ٹوئٹس نے بھی کیا ( جو واپس بھی لئے گئے ) میڈیا میں کچھ ایسے اینکر بھی ہیں جن کو رائے عامہ ہموارکرنے کے لئے مخصوص انداز سے خبریں فراہم کی جاتی ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2