پیسہ ہے تو وہ لڑکی زندگی انجوائے کیوں نہیں کرتی؟


کئی بہاروں اور خزاوں پرانی بات ہے کہ ہمیں انگریزی ادب پڑھنے سے بڑا گہرا شغف تھا۔ اپنے اسکول کی لائبریری کی کوئی ایسی کتاب نہ تھی جو ہم نے نہ پڑھی ہو۔ یہ زمانہ آج سے کم سے کم اکیس سال پرانا تو ضرور تھا۔ شاید بیس پچیس ہی ہو لیکن ہمیں اچھا لگتا ہے ذرا باریک سا ہندسہ بیان کرنا۔ بات کی توقیر بڑھ جاتی ہے۔ معاملہ کچھ آتھینٹک سا لگتا ہے۔

خیر تو یہ زمانہ اسکول کا تھا جب ہماری عمر کم تھی اور کتابوں کا بوجھ زیادہ۔ اس زمانے میں اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ تو تھا نہیں۔ کتابیں ہی واحد تفریح تھیں۔ گرمیوں کی طویل دوپہریں ہوں یا سردیوں کی یخ بستہ لمبی لمبی راتیں، واحد ساتھی کتاب ہی تھی۔ جس طرح آج کل والدین بچے کے فون اور آئی پیڈ سے عاجزی رہتے ہیں اس وقت ہم جیسوں کے والدین ہر وقت کتابیں پڑھنے کو وقت کا زیاں سمجھتے تھے۔ جیسے آج کل انٹرنیٹ کو نوجوان نسل کے بگاڑ کا موجب سمجھا جاتا ہے اس وقت یہی کارستانی کہانیوں کی کتابوں کے سر منڈھی جاتی تھی۔ وقت وقت کی بات ہے۔ وہ جیسے ممتاز مفتی کہا کرتے تھے ’سب سمے کا چمتکار ہے مہاراج، سب سمے کی لیلا۔ ‘ جی کچھ وہی سا معاملہ ہے۔

خیر اب تو عرصہ ہوا کوئی کتاب دل سے پڑھے۔ خدا غارت کرے اس سوشل میڈیا کو جس نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ فیس بک کی پوسٹس پڑھ کر سمجھتے ہیں سارے جہاں کا درد اور علم بٹور لیا۔ شاید ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔ نئے دور کو کوس جو رہے ہیں۔ اپنے زمانے کی تعریفیں کر رہے ہیں اور نئے سمے کا حصہ ہونے کے باوجود اسی کو لعن طعن کر رہے ہیں۔

اب طرح طرح کی تفریحات میسر ہیں۔ اس خالی خالی کتاب میں کیا رکھا یے۔ دوستوں کے ساتھ دن رات ہوٹلنگ، چیٹنگ، فارن ٹرپ، شمالی علاقہ جات کے ٹریول گروپ، تھیٹر کے ڈرامے، پارٹیز۔ کیا کچھ نہیں ہے ہمارے پاس۔ خاندان کے نام کی علت سے تو کب سے ہی چھٹکارہ پا چکے۔ اب تو زندگی یہی ہے کہ پیسہ کماؤ اور پھر اسی پیسے کو ٹھکانے لگانے کی تدبیریں ڈھونڈو۔ ہفتے کے پانچ دن کام اور دو دن فل انجوائے۔ زندگی جس زندہ دلی کا نام ہے اس کا پتہ تو اب چلا۔ بس پیسہ ہونا چاہیے اور کھل کے ہونا چاہیے۔ باقی سب خود بخود مل جاتا ہے۔ ہمارا اور ہمارے دوستوں کا تو یہی ماننا ہے۔

اسی لئے ہمیں وہ لوگ بہت بے وقوف اور عجیب لگتے ہیں جو زندگی انجوائے نہیں کرتے۔ پیسہ خرچ کرنے کا ہنر نہیں جانتے۔ دنیا میں موجود مختلف شہروں کی خوبصورتی سے آشنا نہیں۔ جن کی قسمت میں تمام بدیشی ریستورانوں کی روسٹ بطخ نہیں۔ جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ اچھا مینی کیور کہاں سے ہوتا ہے۔ جن کی آنکھوں کے نیچے حلقے ہوتے ہیں حالانکہ وہ رات کو پارٹی بھی نہیں کرتے۔ جن کی رنگت پیلی ہوتی ہے۔ شاید وہ کبھی بھولی جوس کارنر نہیں گئے ہوتے۔

ابھی کچھ ہی دیر پہلے ایسی ہی عجیب لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ امیر گھرانے کی بہو لیکن خالی آنکھیں، ہاتھ سونے کی چوڑیوں سے بھرے ہوئے لیکن ان میں کوئی کھنک نہیں۔ جسم پر مہنگا جوڑا لیکن طبیعت کی درماندگی میں پھر بھی کوئی کمی نہیں۔ کمر سے ایک چھے مہینے کی گل گوتھنی بچی لٹکائے یہ لڑکی کچھ عجیب سی تھی۔ پیسہ ہے تو زندگی انجوائے کیوں نہیں کرتی؟ فرینڈز کے ساتھ ریستورانوں میں تلی مچھلی آلو کے قتلوں کے ساتھ کیوں نہیں اڑاتی؟ روم کے کلیسا کیوں نہیں دیکھ آتی؟ عجیب لڑکی تھی۔ خوشی تو انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ پتہ نہیں یہ اسے پکڑتی کیوں نہیں تھی۔

ہم نے ہوچھا۔ وہ اپنی خالی آنکھوں سے کسی غیر مرئی نکتے کی طرف گھور کر بولی
’ہمارے گھر کی بہوئیں چار دیواری سے نہیں نکلتیں۔ ‘
ہم پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ جس پیسے کو ہم خوشی کا رکھوالا سمجھ بیٹھے تھے وہ اب آزادی کا ٹنٹا مانگنے کی ضد کرنے لگا۔ ایڑیاں رگڑنے لگا۔ ہمیں زمین میں دفن کرنے لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).