معاشی بحران، حوصلہ مند وزیر اعظم اور آئی ایم ایف


سوموار کو وزیر خزانہ کی طرف سے آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کا اعلان کرنے سے پہلے اتوار کے روز ہی وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ابھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ نہیں کیا گیا کیوں کہ پاکستان تین دوست ملکوں سے فوری طور سے وسائل فراہم کرنے کی بات چیت کررہا ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذرائع کو سہارا دیا جاسکا۔ انہوں نے ان ملکوں کا نام تو نہیں لیا لیکن یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان ملکوں میں چین کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہوں گے۔ اس قسم کے اعلانات سے یہ تاثر زیادہ قوی ہوتا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے مالیاتی پیکیج لینا کوئی بہت ہی شرمناک بات ہے۔ حالانکہ پاکستان کی تقریباً ہر حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے لئے ہیں۔ ماضی میں پاکستان اس عالمی فنڈ سے ایک درجن بار امداد لے چکا ہے۔ سابقہ پروگرام6.4  ارب ڈالر پر مشتمل تھا جسے 2016 میں مکمل کیا گیا تھا۔ تاہم کوئی بھی حکومت چونکہ ملک کے مالی معاملات کو درست کرنے، پیداواری صلاحیتوں میں ضرورتوں کے مطابق اضافہ کرنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی اس لئے اسے بار بار آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان ابھی تک ملک کے دگرگوں مالی حالات کا تعین کرنے، اس کے اسباب سمجھنے اور ان کے لئے ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ وہ ابھی تک سابقہ حکومتوں کو اس بحران کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے صورت حال سے سیاسی مسئلہ کے طور پر نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کل جب پاکستان کے وزیر خزانہ کرسٹینے لاگارڈے سے مالی امداد کی باقاعدہ درخواست کررہے تھے تو عمران خان ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے کہ ’عوام پریشان نہ ہوں ۔ میں انہیں اس بحران سے نکال لوں گا۔ یوں باتیں کی جارہی ہیں کہ جیسے آسمان گر پڑے گا یا قیامت آجائے گی۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان موجودہ مشکلات پر جلد قابو پالے گا کیوں کہ حکومت نے ایسی معاشی پالیسیاں بنالی ہیں کہ قومی وسائل میں اضافہ شروع ہونا شروع ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت صرف اس لئے پیش آرہی ہے کہ سابقہ حکومتوں نے غیر ضروری قرضے لئے تھے جن کی ادائیگی کے لئے پاکستان کے پاس وسائل نہیں ہیں ‘۔

معیشت کے بارے میں وزیر اعظم کی یہ حوصلہ مندانہ باتیں سیاسی طور پر تو انہیں فائدہ پہنچا سکتی ہیں لیکن ان کا مالی حقیقی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ماہرین کو اندیشہ ہے کہ عمران خان اور ان کے معاونین پیچیدہ معاشی معاملات کے سادہ اور آسان حل بتا کر مسائل کے حل میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکیں گے۔ اس مقصد کے لئے انہیں ٹھوس پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ سیاسی نعرے بازی سے آگے بڑھ سکیں۔

وزیر اعظم یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک کو اس لئے قرضوں کے بوجھ اور مالی مشکلات کا سامنا ہے کہ لئے جانے والے قرضوں کو منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر ذاتی اکاؤنٹس میں بھیجا جاتا رہا ہے۔ حکومت اب تک یہ دعویٰ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ کل کی تقریر میں عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک سے دس ارب ڈالر سالانہ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجا جاتا ہے۔ اسے روک کر حکومت سب مالی مسائل پر قابو پالے گی۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے دعوؤں کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس لئے ایسے اعلانات سائے کے پیچھے بھاگنے یا عوام کو گمراہ کرنے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔

آئی ایم ایف سے اب جو نیا مالی پیکیج لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان پر شرح سود میں اضافہ کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو کھلا چھوڑنے کا مطالبہ شامل ہوگا۔ ان اقدامات سے عوام کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ پاکستانی حکام ماضی میں افراط زر اور مہنگائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی دباؤ سے بچنے کے لئے اس قسم کی شرائط پر پوری طرح عمل کرنے سے بچتے رہے ہیں۔ اسی لئے کسی بھی مالیاتی پیکیج کے ذریعے اقتصادی بحالی کے متوقع نتائج سامنے نہیں آسکے۔

اس بار بھی اسی رویہ کا مظاہرہ ہؤا تو نتیجہ مختلف نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف کے مالی معاملات کے نگران مورس اوست فیلد نے واضح کیا ہے کہ روپیہ کی قیمت غیر فطری طور پر زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے نئے پیکیج کے سبب ایک امریکی ڈالر ڈیڑھ سو روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ اوست فیلد نے سی پیک کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے اس کے تحت حاصل کئے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لئے مالی صلاحیت کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو اتنے ہی قرضے لینے چاہئیں جو وہ ادا کر سکے۔

موجودہ مالی مشکلات اور صورت حال کا تقاضہ ہے کہ حکومت کے علاوہ اپوزیشن جماعتیں بھی ملکی معیشت کی بحالی کے لئے دست تعاون دراز کریں اور قوم کو بحران سے نکالنے کے لئے سب مل جل کر کام کا آغاز کریں۔ لیکن اگر حکومت بد اعتمادی کی فضا پیدا کرنے اور سیاسی انتقام کا طرز عمل ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہو گی تو وہ سیاسی اپوزیشن کی بجائے خود اپنے لئے مشکلات میں اضافہ کرتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali