نیا پاکستان: بریفنگ سے پہلے اور بریفنگ کے بعد


کسی زمانے میں ایک امریکی افسانہ پڑھا تھا جس میں انتظامیہ اور سی آئی اے کے سینئر اہلکار وں کے سب سے مشکل مرحلے کا ذکر ہوتاہے۔قصہ کچھ یوں تھاکہ امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے کےلیے مشکل ترین مرحلہ وہ ہوتا ہے جسمیں انھیں نئے منتخب صدر کو کچھ حساس اور اہم ترین موضوعات کے بارے میں بتانا ہوتا ہے۔ اور یہ وہ بات ہوتی ہے جس سے انتظامیہ اور سی آئی اے کے بھی صر ف چند مخصوص اہلکار ہی واقف ہوتےہیں۔ اور ان میں سے ہر اہلکار اس بات سے کترا رہاہوتا ہے کہ کہیں بریفنگ کے لیے قرعہ فال اس کے نام نہ نکل آئے کیونکہ یہ بہت حساس اور اہم معاملہ ہوتاہے اور اس کے بارے میں نئے منتخب صدر کوبریف کرنا  جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ بہرحال جب یہ مرحلہ آجاتاہے تو وہ صدر امریکہ جسے دنیا سپر پاور کے نام صدر کے طور پر جانتی ہوتی ہے اسے جب امریکی طاقت کے بارے میں اصل حقیقت بتائی جاتی ہے تو وہ اتنی مختلف اور عام تاثر کے برعکس ہوتی ہے کہ ایک بار تو صدر مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب اہلکار صدر کو بتاتا ہے کہ امریکہ کی طاقت کا صرف بھرم اور تاثر ہی برقرار کھنا ہے اور اس کے استعمال کی کبھی نوبت نہیں آنی چاہیے کیونکہ یہ جو بٹن صدر کی جہازی سائز کی میز پر لگے ہیں اور جو کہا جاتا ہے کہ ایٹم بم وغیرہ کے بٹن ہیں تو ایسا کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے اثر ہوچکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہلکار صدر کو یہ بھی باور کرانا بھی نہیں بھولتے کہ امریکی طاقت کے بھرم اور تاثر کو ہر صورت قائم رہنا چاہیے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس سے اہلکار گھبرا رہے ہوتے ہیں کیونکہ نئے نویلے صدر کے لیے یہ بات ہضم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہوگا ۔اب صدر کچھ دیر تو مبہوت رہ جاتا ہے لیکن بہرحال آخرکار اہلکاروں کی بات کو مانے بنا اس کے پاس چارہ بھی کیا ہوتا ہوگا سو وہ وقت کے ساتھ ساتھ اس صورت حال کے ساتھ سمجھوتہ کر ہی لیتا ہے۔

اس افسانے کا تذکرہ اس لیے کیا کہ جب سے ہمارے کپتان صاحب وزیراعظم بنے ہیں اور مبلغ پورے آٹھ آٹھ گھنٹے کی دو عدد باقاعدہ بریفنگز سے گزرے ہیں اور جس کے بعد وہ حیرت انگیز طور پر خاموش پور ا ڈیڑھ مہینہ خاموش رہے اور جب آخر کار دو دن قبل لاہور میں بولے تو ایک بار پھر کفن پھاڑ کی ہی بولے۔ اس سے بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ امریکہ میں تو یہ بات شاید افسانہ ہو لیکن پاکستان کے تناظر میں کچھ ایسے حقائق موجود ہیں جن کا ادراک آپ کو اقتدار ملنے کے بعد کرایا جاتا ہے اس سے پہلے صرف تاثراتی حقائق کی روشنی سے آپ روشناس اور بہرہ مند ہورہے ہوتے ہیں۔ اور خاصے پر جوش، پر امید اور جذبہ ایمانی سے سرشار نظرآتے ہیں۔ بلکہ آپ کے منہ سے وہ اڑ کر لگنے والا جذبہ نظرآرہا ہوتا ہے جو بقول مشتاق یوسفی صاحب صرف انجام سے بےخبر سٹے بازوں اور نومسلموں سے موسوم کیا جاتاہے(ویسے اس بار یہاں ہوئی تو کچھ اسی طرح کی سٹے بازی ہی ہوئی ہے کیونک پہلی بازی جیتنے کے بعد اب جب اصلی باری شروع وئی ہے تو جیتنے والے اب ہارتے نظرآتے ہیں)۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا کہنے کی بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف معاشی بحران کا نہیں ہے بلکہ کچھ اور بھی حقائق ہیں جن کی ہمیشہ کی طرح پردہ داری کی جارہی ہے اور جو نئے آنے والوں پر کچھ ایسے طشت ازبام کرائے گئے ہیں کہ ان سے سنبھالا ہی نہیں ہو پارہا۔ حالانکہ جب پتہ تھا کہ اس بار کپتا ن کی باری یقینی ہے تو پھر بہت ضروری تھاکہ کپتان کو اقتدار سے پہلے بھی کچھ زمینی اور کچھ آسمانی حقائق سے روشناس کرایا جاتا تاکہ وہ کم ازکم کچھ توقعات کے پہاڑ کو تو اتنا نہ بڑھاوا دیتا کہ جس کے بوجھ تلے اب تحریک انصاف کا سارا کروفر دبتانظر آرہا ہے اور اس کے وزراء اب حقائق سے روشناس ہونے کے بعد اب پورس کے ہاتھی کی طرح اپنی ہی صفوں کو روندتے نظرآتے ہیں۔

وہ کپتان جو صرف چند دن میڈیا سے دور رہتا تو خود میڈیا کے لیے مسئلہ ہوجاتاتھا کہ پتہ نہیں کیا ہوا ہے اب بریفنگز کے بعد کچھ ایسے خاموش ہوگیا ہے جیسے واقعی سانپ سونگھ گیا ہو۔ جس کی وجہ سے حامی تو حامی مخالف بھی پریشان ہیں کیونکہ ایک طرف میاں صاحب جب سے رہا ہوکر آئے ہیں وہ بھی مہربہ لب ہیں اور دوسری طرف کپتا ن جو کبھی نچلا نہ بیٹھا تھا ایسی سنجیدگی اس کے چہرےپر چھا رہی ہے کہ لگتا ہے کہ چند دن کے اقتدار نے ساری رعنائی جیسے چھین لی ہو۔وہ جو صرف تین ماہ پہلے تک نہ صرف ایک دن میں تین تین جلسے کررہا تھا بلکہ شام کو انٹریو کی محافل بھی سجاتا تھا وہ یکدم خاموش ہوگیاہے۔اور جب ایسا ہو تو پھر بغیر وجہ نہیں ہوسکتا۔ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا کی صفوں میں بھی کوئی ہل چل نہیں ہے وہ جو سمجھتے تھے کہ اقتدار ملتے ہی وہ پاکستان کو کیا سے کیا بنادیں گے وہ پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئے ہیں۔اب لگتا ہے کہ شاید بریفنگز کی ہوا سب کو ہی لگ گئی ہے۔

دوسری طرف کارکردگی کا حال ایسا ہے کہ جو بہت کچھ بنانے کے دعوے کرکے آئے تھے اس وقت تو جو کچھ ہاتھ آرہا ہے وہ یا تو بیچ رہے ہیں یا تجاوزات کے نام پر گرارہے ہیں۔ یعنی ” میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی” والی کیفیت بن رہی ہے۔ خیر یہ بھی کوئی ایسی برا نہیں تھا اگر ڈھنگ سے کیا جاتا۔ لیکن بقول کسی ستم ظریف کے اس وقت کی حکومت کے اختیار میں صرف بیچنا اور گراناآیا ہے اس لیے سو وہ کرہی ہے۔ باقی کام تو تب ہوں گے جب کچھ ہاتھ آئے گا کیونکہ خزانے کی حالت تو وہی ہے جو ستر سال سے سن رہے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).