میڈیا سینسر شپ: بج رہا ہے اور بےآواز ہے


کون کہتا ہے آج کے پاکستان میں صحافت آزاد نہیں؟ کیا پہلے کسی دور میں اتنے سارے نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز چینلز تھے کہ گننا مشکل ہو جائے۔ کیا آج کوئی ایوب خانی پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس ہے جو ہر اخباری ادارے، ادارتی پالیسی، سرکاری اشتہار اور کاغذ کے کوٹے پر تلوار کی طرح لٹکا رہتا تھا اور سیاسی چھوڑ کوئی فلمی رسالہ نکالنے کے لیے بھی متعلقہ مجاز ڈپٹی کمشنر کے تلووں کی مالش کرنا پڑتی تھی۔

کیا آج بھٹو دور کے ڈیفنس آف پاکستان رولز ہیں جن کےتحت کسی بھی اخبار یا رسالے کا ڈیکلریشن منسوخ ہو سکتا تھا اور صحافی یا ایڈیٹر سلاخوں کے پیچھے جا سکتا تھا۔ تب عدالتیں بھی آج کی طرح کہاں آزاد تھیں کہ ایگزیکٹو آرڈر معطل کر کے ضمانت پر رہا کر سکیں۔ آج تو بچارے پیمرا کی بھی کوئی نہیں سنتا۔

اور یاد کریں ضیا دور کو جب ایک ایک سطر شائع ہونے سے پہلے محکمۂ اطلاعات کے خوفزدہ افسروں کی نگاہوں سے گزرتی تھی اور اقبال کے اس شعر کا دوسرا مصرعہ بھی انسدادِ فحاشی و ننگ پن کی سنسرانہ تلوار تلے آ جاتا تھا۔

جعفر از بنگال صادق از دکن

ننگِ ملت ، ننگِ دیں ، ننگِ وطن

آج کہاں ضیائی دور کی طرح منہ پھٹ، نظریۂ پاکستان دشمن صحافیوں کو ٹکٹکی پر باندھ کے کوڑے لگتے ہیں۔ کیا معصوم حکومت تھی جسے بے وقوف بنانے کے لیے چالاک اخبارات سینسر شدہ خبریں اکھاڑے جانے کے بعد خالی جگہ یونہی چھوڑ دیتے تاکہ اس خلا سے بھی مزاحمت کی بو آئے۔ چنانچہ بادلِ نخواستہ سیکریٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمان کو یہ خلا چھوڑنے پر بھی پابندی لگانا پڑی۔ پھر صحافت نے بھی روز روز کے اکھاڑی پچھاڑی عذاب سے بچنے کے لیے رفتہ رفتہ سیلف سنسر شپ میں پناہ لے لی۔

آج ایسا کچھ نہیں۔ ہر غلط روایت کا دوش اپنا دفاع نہ کرنے والے مجبور اداروں پر منڈھنے والوں کو کیوں نظر نہیں آتا کہ اس وقت میڈیا جتنا آزاد ہے اس کا سہرا بھی ایک آمر پرویز مشرف کے سر جاتا ہے۔ اس نے میڈیا پر چند روایتی صحافتی خاندانوں کی اجارہ داری ختم کر دی۔ اب کوئی بھی صاحبِ حیثیت محب وطن صنعت کار، جاگیردار، لینڈ ڈویلیپر، تاجر، سہولت کار، بیکری مالک، گھی فروش، کیبل آپریٹر، ریٹائرڈ اہلکار اور معزز بچولیا چینل کھول سکتا ہے، اخبار جاری کر سکتا ہے، ویب جرنلزم میں داخل ہو سکتا ہے۔

پہلے کا پھٹیچر کنگلا صحافی سائیکل یا موٹر سائیکل پر نظر آتا تھا، بسوں میں لٹکتا تھا بہت ہی عیاشی کی تو رکشہ ٹیکسی کر لی۔ اب پریس کلبوں اور میڈیا ہاؤسز کے اندر باہر پارکنگ کی جگہ نہیں۔ اب صحافی بھی دو طبقات میں بٹ گیا ہے، زمانہ شناس یا لکیر کا فقیر۔

جس باصلاحیت صحافی نے محنت کی، غلط وقت میں درست فیصلے کیے، قلم کا مثبت استعمال کیا، جہاں جہاں وطن اور وطن پرست اداروں کی حرمت کا سوال آیا وہاں وہاں وسیع تر قومی و ادارتی مفاد میں قلم کو روک لیا۔ ایسے موضوعات اٹھانے سے گریز کیا جن سے ملک کی بدنامی کا خدشہ ہو تو پھر اگر اوپر والے نے نہ سہی تو اوپر والوں نے ضرور اس کے لیے فراخیِ رزق کا سامان کیا۔ تنخواہوں، مراعات اور اینکرنگ کے من و سلویٰ کی برسات ہوئی۔ ہزار ہزار گز کے بنگلے، ایکڑوں کے فارم ہاؤسز اور طاقت کے سرچشمے کے نزدیک شرفِ نشستنی عطا ہوا۔

مگر جو صحافی وقت کی رفتار نہ پہچان سکا، خود کو پھنے خان اور کسی کو کچھ نہ سمجھتا رہا، حرمتِ قلم کے خلجان میں مبتلا رہا، یہ تک خیال نہ کیا کہ لکھتے یا بولتے ہوئے کہاں رک جانا ہے، کون سی اطلاعات بس خود تک محدود رکھنی ہے اور انویسٹی گیٹنگ کے نام پر حساس معلومات کی بیچ بازار میں قے نہیں کرنی، کسے کس وقت محسن کسے کس وقت دشمن سمجھنا ہے۔ جب قومی اداروں کی حرمت کا سوال ہو تو قلم کی حرمت کو سرنگوں کر دینا ہے۔ اگر آج کسی صحافی، میڈیا ہاؤس یا اخبار کو نئے زمانے کے بنیادی ادب آداب ہی نہیں معلوم تو پھر اس کے ساتھ جو ہو کم ہے۔

اور جب ایسے صحافیوں، میڈیا ہاؤسز اور اخبارات کو نمک حلالی بشرطِ استواری کی راہ پر لگانے کے لیے کیبل آپریٹرز، مذہبی و سیاسی تنظیموں کے جوشیلے کارکن، وطن کی محبت میں ڈوبے اینکر اور ایسے نامعلوم افراد حرکت میں آتے ہیں کہ جنھیں اپنی تشہیر سے کوئی دلچسپی نہیں تو پھر یہی صحافی اور میڈیا ہاؤسز چیختے ہیں کہ دیکھو دیکھو صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔

جب ثبوت مانگا جائے کہ بھائی کون گلا گھونٹ رہا ہے ہمیں بھی تو دکھاؤ تو پھر اول فول بکنے لگتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کوئی سایہ ہے جو ان کی گردن پر 24 گھنٹے پھونکیں مارتا ہے، کبھی بتاتے ہیں کہ انھیں جن اٹھا کے لے گیا اور دو چار پٹخنیاں دے کر چند دنوں بعد چھوڑ دیا۔ کبھی انھیں ہر کیبل آپریٹر کسی ایجنسی کا پرزہ لگتا ہے، کبھی کوئی مذہبی گروہ کسی حساس ادارے کی فرنٹ کمپبنی ٹپائی دیتا ہے تو کبھی حق و صداقت کا علمبردار کوئی نہ بکنے والا نہ جھکنے والا ٹائپ اینکر جگا جاسوس محسوس ہوتا ہے۔

جب ان سے پوچھا جائے کہ بھائی ہم کم عقلوں کو سمجھانے کے لیے کھل کے نام کیوں نہیں لیتے تو پھر ادھر ادھر کی ہانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ مقتدر حلقے، خلائی مخلوق، محکمۂ زراعت، اسٹیبلشمنٹ، فیصلہ ساز ادارے، اعلی عدلیہ،لینڈ مافیا وغیرہ وغیرہ۔ جب پوچھا جائے کہ بھائی کیا آپ کا اشارہ فوج، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی ایس پی آر، کسی خاص جج یا کسی ریٹائرڈ ڈان کی طرف ہے اور لینڈ مافیا سے کیا مراد ہے؟ بحریہ ٹاؤن، ملک ریاض یا کوئی اور تو پھر ان جرات مند صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز پر دورہ پڑ جاتا ہے۔ نہیں نہیں ان میں سے کوئی نہیں ، یہ سب تو اچھے لوگ ہیں ، چلے جاؤ یہاں سے ، مرواؤ گے کیا ، دفع ہو جاؤ میری نظروں سے دور ، شکل نہ دکھانا آئندہ۔

اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے بزدل صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کا کیا کریں جن پر جنات چڑھ گئے ہیں۔ وہ کسی ایک پر انگلی تک نہیں رکھ سکتے کہ کون ہے ان کے خود ساختہ مصائب یا تصوراتی مشکلات کا ذمہ دار۔ کسی نفسیاتی ماہر کے پاس جانے کو یہ تیار نہیں۔ پورا ماجرا بتا کر خود کو ہلکا کرنے سے انھیں ڈر لگتا ہے، حتیٰ کہ کسی نان سٹیٹ ایکٹر کا نام بھی آزو بازو دیکھ کر ایسے لیتے ہیں جیسے منے کے ابا کہہ رہے ہوں۔ بتائیے جب مدعی ہی سست ہو تو گواہ کی چستی کیا بھاڑ پھوڑ لے گی۔

خون تھوکے کبھی روئے کبھی تقریر کرے

ایسے پاگل کے لیے کیا کوئی تدبیر کرے ( احمد نوید )

اس سے اچھا تو ضیا دور تھا۔ کم ازکم کوڑے پڑتے نظر تو آتے تھے۔ اب تو یوں ہے کہ،

میڈیا کا ساز بھی کیا ساز ہے

بج رہا ہے اور بے آواز ہے

٭ وسعت اللہ خان کی یہ تحریر بی بی سی اردو کی پاکستان میں سینسر شپ پر خصوصی سیریز کے لیے ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).