سیکولرازم کیا ہے ؟ (پہلا حصہ)


 حالیہ ہفتوں میں ’ہم سب‘ کے پلیٹ فارم پر ایک دوست کی تحریر سے سیکولرازم کے بارے میں بحث کا آغاز ہوا۔ معاشرے میں مختلف آرا رکھنے والے احباب کے درمیان کسی ایسے بنیادی معاملے پر مکالمہ بجائے خود ایک خوشگوار مشق ہے جس پر نہ صرف یہ کہ باہم آرا  میں قطبی اختلاف پایا جاتا ہے بلکہ اس اختلاف کی ایک طویل تاریخ بھی موجود ہے ۔ اس موقع پر مناسب سمجھا گیا کہ کوئی ایک صاحب جو سیکولر ازم سے طویل وابستگی کا دعویٰ رکھتے ہوں، کسی قدر وضاحت سے سیکولرازم کے بنیادی اصول بیان کر دیں۔ ’قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند‘۔

اس سلسلے میں بیان کردہ اصولوں اور مباحث سے اختلاف کا حق ہر پڑھنے والے کو ہے ۔ اس ضمن میں ادارہ ’ہم سب‘ ہر قسم کی اختلافی آرا کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سے معاشرے کے متنازع امور پر شائستہ اور مدلل مکالمے کی روایت آگے بڑھے گی۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو انہی خطوط پر جمہورریت ، بنیاد پرستی اور لبرل ازم پر بھی بحث کا آغاز کیا جائے گا۔

سید سبط حسن لکھتے ہیں کہ ”سیکولرازم کا بنیاد ی اصول یہ ہے کہ ضمیر و فکر اور اظہار رائے کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے، لہذا ہر فرد کو پوری اجازت ہونی چاہئے کہ سچائی کا راستہ خود تلاش کرے اور زندگی کے تمام مسائل خواہ ان کا تعلق سیاست اور اقتصادیات سے ہو یا مذہب و اخلاق سے، فلسفہ و حکمت سے ہو یا ادب و فن سے ، اپنے خیالات کی بلا خوف و خطر ترویج کرے۔ طاقت کے زور پر کسی کا منہ بند کرنا یا دھمکی اور دھونس سے کسی کو زبردستی اپنا ہم خیال بنانا حقوق انسانی کے منافی ہے۔“

سیکولر ازم کی تعریف :

سیکولرازم انسانی معاشرے کی تنظیم و انضباط کا ایسا ریاستی نظام ہے جو واضح طور پرطے شدہ جغرافیائی حدود میں پیدا ہونے اور بسنے والے تمام انسانوںکے لئے بغیر کسی امتیاز کے مساوی تحفظ، بہبود اور ترقی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ سیکولر ریاست ان مقاصد کے حصول کے لیے فہم عامہ ، اجتماعی مشاورت اور انصاف کے اصول بروئے کار لاتی ہے۔

انسانی معاشرت ایک نامیاتی مظہر ہے۔ تاریخی طور پر معاشرے کو منظم کرنے کے لیے مختلف ریاستی نظام اختیارکیے جاتے رہے ہیں۔ ماضی میں کسی فرد واحد اور اس کے خاندان کو حق حکمرانی بخشا جاتا تھا۔ کبھی کسی مخصوص نسل یا زبان سے تعلق رکھنے والوں کو حق حکمرانی ودیعت کیا جاتا تھااور کہیں کسی خاص عقیدے کے پیشوا منصب حکمرانی کے اہل قرار دئیے جاتے تھے۔ ان مختلف نظاموں میں ریاست کے قیام کا مقصد بھی تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ کہیں ریاست کا مقصد شخصی اقتدار کا فروغ قرار پاتا تھا تو کہیں ریاست کا نصب العین کسی خاص نسل یا قبیلے کی منافعت کے لیے کشور کشائی سمجھا جاتا تھا۔ کبھی ریاست کو کسی خاص عقیدے کی ترویج کے لیے آلہ ¿ کار بنایا جاتا تھا۔

ہزاروں برس کے تجربات کی روشنی میں بالآخرانسان اس نتیجے پر پہنچے کہ ریاستی بندوبست کی یہ تمام صورتیں معاشرے میں امن، انصاف اورترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ انسانوں کے لیے امن ، تحفظ، انصاف اور معیارِ زندگی میں بہتری کے حصول کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ریاست میں حکمران اور رعایا کی تمیز ختم کر کے تمام شہریوں کو ریاست کا مساوی رکن تسلیم کیا جائے اور مختلف الوہی یا نظریاتی مقاصد کی بجائے ریاست کو انسانوں کی دنیاوی زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ قرار دیا جائے۔ ریاست کو صرف ان معاملات میں دخل اندازی کی اجازت ہونی چاہیے جنہیں غیر جانبدارانہ اور معروضی سطح پر پرکھا اور جانچاجا سکے۔

سیکولر ریاست کی اصطلاح لاطینی لفظ Saeculum سے مشتِق ہے جس کا لغوی مطلب ہے دنیا یا زمین۔ گویا سیکولر ازم میں ریاست کا مقصد ہماری دنیا وی یا زمینی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ سیکولر ریاست اپنے شہریوں کے پیٹ میں غذا ، بدن پرلباس اور سر پر چھت فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ اُن کے لیے مناسب روزگار اور مناسب تفریحات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست شہریوں کو حصولِ علم اور مختلف فنون میں ذوق پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اُن کے جان و مال اور شخصی آزادیوں کی حفاظت کرتی ہے۔ زندگی کو آرام دہ بنانے کی ذمہ داری لیتی ہے۔ سیکولر ریاست کا فرض ہے کہ ایسے قوانین ، ادارے اورپالیسیاں اختیار کرے جن کی مدد سے معاشرے سے جرم اور تشدد کو ختم کیا جا سکے، جہالت مٹائی جا سکے، غربت کا قلع قمع کیا جا سکے اور بیماریوںکی روک تھام کی جا سکے۔

سیکولر ریاست ایسے امور میں دخل اندازی سے گریز کرتی ہے جہاں غیر جانبدارانہ فیصلہ سازی ممکن نہ ہو مثلاً سیکولر ریاست اپنے شہریوں کے عقائدمیں مداخلت نہیں کرتی۔ شہری اپنی زبان ، ثقافتی ترجیحات، مذہبی عقائد نیز علمی اور سیاسی نظریات اپنانے کی آزادی رکھتے ہیں بشرطیکہ کوئی شہری دوسرے شہریوں کی ایسی ہی آزادیوں میں مداخلت نہ کرے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے ، سیکولر ریاست کا ایک ہی فرض ہے کہ مذہبی عقائد کے اختلاف میں الجھے بغیر تمام شہریوں کے اس حق کا تحفظ کرے کہ وہ جو چاہیں عقیدہ اختیار کریں۔ ریاست کا کام تمام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے نیز ہر شہری کو مذہبی عقائد کے ضمن میں کسی دوسرے شہری یا گروہ کی طرف سے کسی ممکنہ مداخلت یا دباﺅ سے محفوظ رکھنا ہے۔

سیکولر ریاست میں اقتداراعلیٰ عوام کی ملکیت ہوتا ہے

سیکولر ریاست شہریوں یا اُن کے رضا کارانہ سطح پر اختیار کردہ گروہوں کے مابین رضاکارانہ معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوتی ہے چنانچہ سیکولر ریاست میں رعایا اور حکمران کا تصورنہیں پایا جاتا۔ تمام شہری مساوی رتبہ اور حقوق رکھتے ہیں۔ اپنی بہترین شکل میں سیکولر ریاست کے تمام شہری دراصل حکومت کا حصہ ہوتے ہیں کیونکہ سیکولر ریاست میں رعایا کی بجائے فعال شہریت کا تصور موجود ہے ۔ (جو ووٹ کی مدد سے ریاست کے معاملات میں برابری کی بنیاد پر شریک ہوتے ہیں)۔

حکمران بھی شہریوں کی رضامندی سے مقررہ مدت کے لیے شہریوں ہی میں سے چنے جاتے ہیں۔ حکمرانی اختیار کی بجائے ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ حکومتی مناصب کا مطلب شہریوں پر حکم چلانا نہیں بلکہ عوام کی ضروریات ، مطالبات اور امنگوں کے مطابق ریاستی بندوبست کرنا ہے کیونکہ سیکولر ریاست میں اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں۔ سیکولر ریاست میں کسی شہری کا معیار زندگی ، سہولتیں اور تحفظ کسی کی نوازش نہیں، استحقاق ہیں۔ سیکولر ریاست ایسے ادارے ، ڈھانچے اور قوانین تشکیل دیتی ہے جن کی مدد سے کمزور سے کمزور شہری طاقتور ترین افراد اور قوتوں سے اپنا حق بلا خوف و خطر مانگ سکے۔

سیکولر نظام میں ریاست اور شہریوں میں براہ راست رشتے کا تصور پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص اپنے اہل خانہ ، بھائی بہنوں یا بچوں کے ساتھ ناانصافی کرے تو ظلم کا شکار ہونے والے براہ راست ریاست کی مدد طلب کر سکتے ہیں۔ بلکہ نا انصافی کا شکار ہونے والوں کی دادرسی ریاست کا فرض ہے ۔ اسی طرح کوئی سردار ، کوئی وڈیرہ یا برادری کا سرکردہ چوہدری اپنی سماجی حیثیت کے بل پر کسی شہری پر ایسا کوئی اختیارنہیں رکھتا جو ریاست کے دائرہ کار سے باہر ہو یا جسے ریاست چیلنج نہ کر سکے۔

سیکولر ریاست کی جغرافیائی حدیں طے شدہ ہوتی ہیں

قدیم طرز حکومت میں جب کسی حکمران کے پاس وافر تعداد میں گھوڑے اور تلواریں ہوتی تھی تو وہ کسی کمزور ہمسایہ ریاست کو تاک کر چڑھائی کر دیتا تھا۔ ایک ملک کے دوسرے ملک پر چڑھ دوڑنے کو کشور کشائی یا سلطنت آرائی جیسے خوشنما الفاظ دئیے جاتے تھے۔ انسانی تجربے نے یہ بتایا ہے کہ ریاست کی سرحدیں بڑھانے کا یہ رویہ مستقل جنگ و جدل کا راستہ ہے۔ جدید ریاست کی جغرافیائی حدود ایک ایک انچ کی سطح پر متعین ہیں۔ کوئی ریاست طاقت کے بل بوتے پر کسی دوسری ریاست کے ایک انچ رقبے پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ بین الاقوامی امن و سلامتی کے علاوہ اِس ریاستی بندوبست کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ سیکولر ریاست میں ہر شہری کی بنیادی اور اہم ترین وابستگی اپنی ریاست سے ہے اور ریاست بلا امتیازِ رنگ و نسل ، عقائد ، ثقافت اپنی حدود میں بسنے والے شہریوں کی محافظ ہے۔ سیکولر ریاست کی حدود طے شدہ ہیں اور ان جغرافیائی حدود میں پیدا ہونے اور بسنے والا ہر انسان ریاست کا برابر کا شہری ہے اور دوسرے تمام شہریوں کے مساوی رتبے اور حقوق رکھتا ہے۔

سیکولر ریاست اپنے شہریوںکے ساتھ صرف ایک رشتے کی پابند ہے یعنی شہریت کا رشتہ۔ سیکولر ریاست تسلیم کرتی ہے کہ شہریوں کو زبان ، ثقافت، نسل یا عقائد وغیرہ کی بنیاد پر مختلف شناختیں اختیار کرنے کا حق ہے لیکن بنیادی حیثیت ، شہریت کی شناخت کی ہے۔ باقی سب شناختیں اور تعلق رضاکارانہ اور ثانوی ہیں۔ ریاست کی نظر میں زبان، ثقافت ، نسل ، مذہب ، جنس یا کسی اور شناخت کی بنا پر کسی شہری کی حیثیت کم یا زیادہ نہیں۔ کوئی فرد یا تو ریاست کا شہری ہے یا نہیں ہے اوراگر وہ ریاست کا شہری ہے تو مساوی اوریکساں حقوق کا حامل ہے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments