سیاسی بے تدبیریوں کے تازیانے


مختلف وجوہ سے بیشتر سیاسی جماعتیں عمران خاں کی حکومت کو عوام کی نمائندہ حکومت کا درجہ دینے کو تیار نہیں اور ”سلیکٹڈ“ کا لفظ ہماری سیاسی لغت میں داخل ہو گیا ہے۔ صاحب اقتدار تحریک انصاف کی انتہائی مایوس کن کارکردگی عوام پر بجلی بن کے گر رہی ہے جو ان کا محدود سا سرمایۂ زیست خاکستر کیے دیتی ہے اور ابتر حکمرانی کا عفریت روح کو فنا کیے دے رہا ہے۔ اس جاں کنی پر جب عوام کے اندر شدید بے چینی پیدا ہوئی، تو وزیراعظم کے ترجمانوں، مشیروں اور وزیروں نے یہ عذر تراشنا شروع کر دیا کہ اپوزیشن حکومت کے منصوبوں میں رخنے ڈال رہی ہے اور اکٹھے ہونے اور تعمیری کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔

اس مستقل طعنہ زنی سے طیش میں آ کر بلاول بھٹو زرداری نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کو کھانے کی دعوت دی اور کئی گھنٹوں کے غوروخوص کے بعد پی ڈی ایم کے قیام کا اعلان ہوا۔ اس اتحاد کے مولانا فضل الرحمٰن صدر جبکہ شاہد خاقان عباسی سیکرٹری جنرل چنے گئے۔ 26 نکات پر اتفاق ہوا جن میں ملک بھر میں جلسے جلوس منعقد کرنا، اسلام آباد میں دھرنا دینا اور اسمبلیوں سے مستعفی ہو جانا جیسے انقلابی اقدامات شامل تھے۔

پی ڈی ایم نے پورے ملک میں بڑے بڑے جلسے کیے اور کورونا وائرس کے باوجود عوامی تحریک زور پکڑنے لگی۔ تب حکمرانوں کو احساس ہوا کہ ہم بہت بڑی سیاسی بے تدبیری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہی دنوں ریاستی اداروں کے اندر بھی یہ سوچ ابھرنے لگی کہ عمران خاں نے حقیقی تبدیلی لانے، عوام کے دلدر دور کرنے اور پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے جو وعدے کیے تھے، ان میں عملیت کا عنصر ناپید ہے۔ کابینہ میں پچاس سے زائد جو وزرا اور مشیر شامل تھے، ان میں کوئی صلاحیت ہے نہ کوئی وژن، چنانچہ ان پر نا اہلی، بددیانتی اور مافیاؤں کی سرپرستی کے تازیانے برسنے لگے۔

مولانا فضل الرحمٰن بلاشبہ ایک ذہین سیاست دان ہیں اور نہایت جچی تلی گفتگو کرتے ہیں، مگر مختلف مواقع پر وہ ایک اچھے حکمت ساز ثابت نہیں ہوئے۔ ایک بار اپوزیشن کی بڑی جماعتوں سے معاملہ فہمی کے بغیر تن تنہا اسلام آباد دھرنا دینے چلے آئے جو بلاشبہ بے حد منظم اور پرامن تھا، مگر انہیں بڑی بے چارگی سے دھرنا منسوخ کرنا پڑا۔ اسی طرح سیاسی بے تدبیری کا اس وقت مظاہرہ ہوا جب انہوں نے لانگ مارچ کا پروگرام استعفوں کے ساتھ منسلک کر دیا، حالانکہ پیپلز پارٹی کی قیادت استعفے دینا نہیں چاہتی تھی۔

اس کا اصرار تھا کہ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے کر حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس نے بڑی مہارت سے سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی انتخابات کے میدان میں اسلام آباد سے اتار دیے۔ قومی اسمبلی سے جب یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہو گئے، تو وزیراعظم پر اعتماد کا ووٹ لینا لازم ہو گیا۔ ان کے لیے یہ مرحلہ حددرجہ جاں گسل تھا۔ وہ جو ڈھائی سال تک ارکان اسمبلی سے ملنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے، انہیں اپنی روش تبدیل کرنا پڑی اور ایک ایک رکن کی خوشنودی کے لیے بڑے جتن کرنا پڑے۔ یوں اقتدار کو پہلی بار انتہائی سخت جھٹکا لگا۔

آگے چل کر پیپلز پارٹی بھی سیاسی بے تدبیری کا شکار ہو گئی اور اس نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے کمک حاصل کی جو تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ اس بے اصولی پر جناب اعتزاز احسن، سینیٹ کے سابق چیئرمین میاں رضا ربانی اور پیپلز پارٹی کے مرکزی لیڈر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سخت اعتراض کیا۔ پارٹی میں یہ احساس گہرا ہوتا جا رہا تھا کہ پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نے اے این پی اور پیپلز پارٹی سے یہ وضاحت طلب کر لی کہ انہوں نے ’باپ‘ کی حمایت سے جناب یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف کیوں بنوایا۔

ان کا یہ اقدام بھی سیاسی بے تدبیری کی ذیل میں آتا ہے جس نے پی ڈی ایم کے وجود کو شدید ضعف پہنچا دیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی تعلقات کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ محترمہ شیریں رحمٰن ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے فرما رہی تھیں کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کے مابین دیرینہ نظریاتی رشتے ہیں، مگر وہ شاید یہ بھول گئی ہیں کہ نیشنل عوامی پارٹی کو وزیراعظم بھٹو ہی نے غیرقانونی قرار دیا تھا۔

اپوزیشن کے ساتھ بدترین محاذآرائی کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ باہر کی دنیا میں پاکستان کے وزیراعظم کا سیاسی وزن تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ دو ماہ سے زائد ہونے کو آئے ہیں، لیکن نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے ان سے ٹیلی فون پر بات کرنا پسند نہیں کیا۔ ماحولیات کے موضوع پر عالمی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے جس میں پاکستان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ سینیٹر کیری جو پاکستان سے خیرخواہی کی شہرت رکھتے ہیں، وہ جنوبی ایشیا کے ممالک کا دورہ کر رہے ہیں، مگر ان میں پاکستان شامل نہیں۔

اپوزیشن کے دباؤ ہی پر جناب عمران خاں میں اپنی غیرجمہوری پالیسی تبدیل کرنے کا احساس جاگا ہے، چنانچہ وہ انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں اپوزیشن کے تعاون کے شدت سے طلب گار ہیں اور اپنے ترجمانوں سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کو ہدف تنقید بنائے رکھنے کے بجائے انہیں حکومت کی کارکردگی کا پرچار کرنا چاہیے۔ پالیسی کی یہ تبدیلی اگر حقیقی ہے، تو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے کہ فقط تنقید کے نشتر چلاتے رہنے سے آرزوؤں کی نشوونما نہیں ہوتی جس کے لیے ذوق سفر اور تخلیقی امنگ بھی ضروری ہے۔

جمہوری قوتوں کی متحدہ کوششوں ہی کے نتیجے میں جناب وزیراعظم اب اس حقیقت کا برملا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ مہنگائی اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے اور وہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر ماہرمعاشیات جناب شوکت ترین کو اپنا مشیرخزانہ یا وزیرخزانہ بنانے پر مجبور ہوئے ہیں جنہوں نے ذمے داری سنبھالنے سے پہلے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ڈھائی برسوں میں ملکی معیشت کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ نظام بدلنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو رواداری اور پختگی کا ثبوت دینا اور قدم سے قدم ملا کر چلنا ہو گا۔ آج پی ڈی ایم کو بھی داخلی چیلنج درپیش ہے۔ اسی طرح جہانگیر ترین تحریک انصاف سے انصاف مانگ رہے ہیں اور ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments