سعودی : امریکی موجودہ بگاڑ


امریکی صدر منتخب ہوجانے کے پہلے روز سے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ہی ملک کے میڈیا کو ملک دشمن قرار دے رہا ہے۔ کئی معروف صحافیوں اور اینکروں کو جعلی اور من گھڑت خبریں پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ ایسے شخص سے مجھے ہرگز امید نہ تھی کہ وہ کسی دوسرے ملک میں آزادی صحافت نامی چڑیا کے بارے میں پریشان ہوگا۔

ویسے بھی گزشتہ ماہ کے آغاز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے واضح الفاظ میں اپنے America First والے تصور کو دہرایا۔ اس تصور کا واضح ترین پیغام یہ ہے کہ آج کی دنیا میں واحد سپرطاقت سمجھا جانے والا ملک کسی اور ملک کے اندرونی معاملات میں جمہوریت اور آزادی رائے وغیرہ کے نام پر مداخلت کو تیار نہیں۔

ایمان داری کی بات ہے کہ مجھے ٹرمپ کی اس ضمن میں صاف گوئی بہت پسند آئی۔ ہم پاکستانیوں نے اپنی تاریخ کے تناظر میں امریکہ کو جمہوری نظام کا پرچارک کبھی شمار ہی نہیں کیا۔ ہمارے تین فوجی آمروں، ایوب خان، ضیاءاور جنرل مشرف نے تین بار اوسطاً دس برس تک اس ملک میں بادشاہوں کی طرح راج کیا۔ یہ تینوں امریکہ کے بہت لاڈلے رہے۔

ایوب خان نے امریکہ کے ساتھ مل کر کمیونسٹ روس کے خلاف محاذ بنایا۔ جنرل ضیاءکے دور میں اسے افغانستان میں شکست دی اور مشرف صاحب کے زمانے میں نائن الیون کے ذمہ دار ٹھہرائے دہشت گردوں کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑی۔ ان تینوں ادوار میں پاکستان کی صحافت اور سیاسی جماعتوں کو انگریزی محاورے والے گاجر اور چھڑی کے ملاپ سے قابو میں رکھا گیا۔

دنیا اور بذات ہی امریکہ میں لیکن سادہ لوح افراد کی ایک کثیر تعداد اس گمان میں مبتلا رہی کہ امریکہ محض ایک ملک ہی نہیں دنیا بھر میں آزادی¿ اظہار کا محافظ اور چمپئن بھی ہے۔ وہ آمرانہ حکومتوں سے فاصلہ رکھتا ہے۔ ان کی مدد سے گریز کرتا ہے اور جب بھی وہ اپنے عوام کو شدید جبر کا نشانہ بنائیں تو ان کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرتا ہے۔

ٹرمپ وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد اس خوش فہمی کو بہت کھرے انداز میں رد کرتا نظر آیا۔ دل ہی دل میں اس کی صاف گوئی کے بارے میں ذاتی طورپر میں بہت خوش ہوا۔

سعودی عرب نے کبھی خود کو جمہوریت کہلوانے کا تردد نہیں کیا۔ وہاں کئی دہائیوں سے شاہی نظام لاگو ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہر امریکی حکومت نے اس ملک کی تیل کی پیداوار کے حوالے سے قائم اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہاں کے سیاسی نظام سے گزارہ کرنے کی روش اپنائی۔

نام نہاد ”عرب بہار“ سے متاثر ہوا صدر اوبامہ اگرچہ اس روئیے سے رجوع کرنے پر تھوڑا مجبور ہوا۔ سعودی اس وجہ سے بہت ناراض ہوگئے۔ ایران کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کی امریکی کاوشوں نے ان کے غصے کو مزید بھڑکایا۔ شاید اوبامہ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ٹرمپ نے اپنے انتخاب کے بعد پہلا دورہ سعودی عرب کا رکھا۔ امریکی، سعودی دوبارہ بھائی بھائی ہوگئے۔

اس محبت میں مزید گہرائی شاہزادہ محمد بن سلمان کیبطور ایک طاقت ور ولی عہد ابھرنے کی وجہ سے آئی۔ اپنے ملک کو ”جدید“ بنانے کے نام پر نوجوان شہزادے نے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے جن کی پورے امریکہ میں واہ واہ ہوگئی۔ یہ توقع باندھ لی گئی کہ اپنے اقدامات سے محمد بن سلمان جسے MBS کہا گیا سعودی عرب کو برطانیہ جیسا جمہوری ملک نہ بھی بناپایا تو کم از کم متحدہ عرب امارات جیسا ”روشن خیال“ ملک ضرور بنادے گا۔

MBS کا مسلم دُنیا میں ”روشن خیالی“ کی حتمی مثال سمجھ کر خیرمقدم صرف ٹرمپ انتظامیہ ہی نے نہیں کیا۔ اس کے ناقد تصور ہوتے ہوئے تھامس فریڈمین جیسے جید کالم نگاروں نے بھی سعودی عرب جاکر MBSکے طویل انٹرویو کئے اور انہیں قصیدہ گوئی کے انداز میں لکھا۔

امریکی سعودی قربت ہی کی وجہ سے ٹرمپ ایران سے قطع تعلق کرتا نظر آیا۔ ٹرمپ نے تہران کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ہوئے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اب دنیا کو واضح الفاظ میں بتادیا گیا ہے کہ آئندہ ماہ سے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک سے امریکی کمپنیاں اور بینک کوئی واسطہ نہیں رکھیں گی۔

یمن میں جاری جنگ میں سعودی عرب کی معاونت کے بعد اٹھایا یہ فیصلہ یہ عندیہ دے رہا تھا کہ امریکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیل دے گا۔

گزشتہ دو ہفتوں سے لیکن امریکی حکومت اور میڈیا سعودی عرب کو مسلسل شرمندہ کئے چلے جارہے ہیں۔ آغاز اس کا اس تقریر سے ہوا جس کے ذریعے امریکی صدر نے بہت رعونت سے سعودی بادشاہ کو یاد دلایا کہ امریکی فوجیوں کی مدد کے بغیر وہ اپنے ملک پر دو ہفتوں سے زیادہ حکمران نہیں رہ سکتا۔

ٹرمپ کی اس بدزبانی کا اصل سبب سعودی عرب سے یہ گلہ تھا کہ وہ اپنے تیل کی پیداوار کو بڑھاکر عالمی منڈی کے لئے اس حد تک میسر نہیں کررہا کہ ایرانی تیل کی وہاں عدم موجودگی کے باوجود فی بیرل تیل کی قیمت 100ڈالر تک نہ پہنچے۔

ایرانی تیل کے مقاطعے سے عالمی منڈی میں میسر تیل کی قیمت ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گئی تو پاکستان جیسے ممالک کی معیشت کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔ بھارت میں اقتصادی ترقی جمودکا شکار ہوجائے گی۔ حتیٰ کہ یورپ میں فرانس اور جرمنی جیسے ممالک بھی حواس باختہ ہو جائیں گے۔

سعودی عرب سے وافر تیل کی عدم دستیابی کے ہوتے ہوئے ایرانی تیل کو عالمی منڈی سے باہر رکھنے کی کوششیں ہوئیں تو ٹھوس معاشی وجوہات کے سبب دنیا کے غریب، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک یکجا ہوکر اپنی مشکلات کا واحد سبب ٹرمپ کی پالیسیوں کو ٹھہرانا شروع ہوجائیں گے۔

ایک حوالے سے بجائے ایران کے امریکہ عالمی تنہائی کا شکار بن جائے گا۔ ٹرمپ کی سعودی عرب سے بدزبانی لہذا سمجھی جاسکتی ہے۔

معاملہ مگر وہاں ختم نہیں ہواہے۔ نیا قضیہ ایک سعودی صحافی کی پراسرار گمشدگی کے بارے میں کھڑا ہوگیا ہے۔ وہ کئی برس سے امریکہ میں بیٹھا واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات کے لئے سعودی حکومت پر تنقیدی کالم لکھ رہا تھا۔

اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے دوران مذکورہ صحافی نے ایک ترک خاتون سے تعلقات استوار کئے اور بالآخر اس سے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ اپنی شادی کے انتظامات کے سلسلے میں وہ چند ہفتے قبل ترکی آیا اور استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے لئے گیا۔ وہاں جانے کے بعد سے وہ ”غائب“ ہوچکا ہے۔

ترک صدر جس نے بذات خود اپنے ملک کے سینکڑوں صحافیوں کو غداری کے الزامات لگاکر جیلوں میں بند کررکھا ہے نے یہ الزام لگایا ہے کہ مذکورہ صحافی کو سعودی قونصل خانے میں ”بلاکر ماردیا گیا“۔ اس الزام کو امریکی حکومت نے جواِن دنوں ترکی کے صدر سے مخاصمانہ ہوچکی ہے فوراََ درست مانتے ہوئے سعودی حکومت پر دباﺅ بڑھانا شروع کردیا ہے۔

امریکی صدر اور وزیر خارجہ سعودی کالم نگار کی ”بازیابی“ یا اس کے بارے میں حقائق“ جاننے کا تقاضہ کررہے ہیں۔اس تقاضے کی بدولت سعودی عرب پورے امریکی میڈیا کی زد میں ہے۔

میں ہرگز سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ ایساکیوں ہورہا ہے۔ ٹرمپ کا اصل مقصد اگر آنے والے دنوں میں ایران کو تنہا کرنا تھا تو سعودی عرب کی اس انداز میں رسوائی کیوں؟

ایک پاکستانی صحافی ہوتے ہوئے میں اس دعویٰ کو تسلیم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ امریکی میڈیا اور خاص کر ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب جیسے ملکوں میں آزادی صحافت کے بارے میں حقیقی معنوں میں فکر مند ہے۔ امریکی-سعودی معاملات کے موجودہ بگاڑ کی اصل وجوہات یقینا کچھ اور ہیں۔ کاش میں انہیں جان کر آپ کے لئے بیان کرسکتا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).