آنکھوں سے ایکس رے کرنے والے لڑکے اور عبائے والی ایک لڑکی


لڑکے آنکھوں سے ایکس رے کرنے اور زوم کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں. اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ لڑکی ڈھکی ہے  یا اس نے کپڑے نہیں پہنے. اخلاقیات سے گرنا اور دوسروں کی ماں بہن کی توہین کرنا اچھی طرح جانتے ہیں. یہ سکول اور کالج میں نہیں سکھایا جاتا نہ ہی اس کا کوئی پرچہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی سب اس ہنر میں بے مثال ہیں.
ان کا مطلب تو صرف تاڑنا اور اوچھے کمنٹس پاس کرنا ہے. میں نے گرمی میں عبایا پہنا۔ تپتے سورج میں گھر سے نکلتے وقت امی نے آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی اور واپس خیر سے آنے کی دعا کی. پنجاب یونیورسٹی پیپر تھا اور بارش ہونے کے امکانات تھے اس لیے جلدی گھر سے نکل آئی. بھائی کو اپنا کام تھا تو اپنی جنگ لڑنے اکیلی ہی نکل پڑی. حالانکہ اماں کہہ رہی تھیں میں ساتھ چلتی ہوں لیکن ٹال دیا کہ کب تک آپ لوگوں کے سہارے چلتی رہوں گی مجھے خود بھی چلنا سیکھ لینے دیں۔
راستے میں جاتے ایک بس پکڑی جو کچھا کھچ  مسافروں سے بھری ہوئی تھی آگے جا کر دوسری پکڑنا تھی مگر سانس لینا ابھی سے محال تھا. کینال کے ساتھ جاتے ہوئے راستے میں ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور کیمپس پہ اترتے ہی بارش ہونے لگی. دعائیں کرتی، بھیگتی، رول نمبر سلپ کو بچاتی جیسے تیسے کر کے ہال تک پہنچی.
یونیورسٹی شدید حسین لگ رہی تھی آسمان پہ بادلوں کا رقص جاری تھا. سیاہ سفید اور نیلے بادل ہائیڈ اینڈ سیک کھیل رہے تھے. درخت بھی جھوم رہے تھے اور سب کچھ بھیگنے کے بعد منظر مزید دلکش ہو چکا تھا.  اب ہال میں جانے کی باری آئی تو پتہ لگا عبایا پہننے کی اجازت نہیں ہے. عبایا اتارا کُھل کے سانس لیا اور اِدھر اُدھر گھومنے لگی. بھوک لگی تو کیفے سے جا کر بریانی لی اور کھا نے بیٹھ گئی. کھانے پہ انکشاف ہوا کہ چاول تو کچے ہیں سو دو نوالے لیے اور وہیں رکھ کے اپنی دُھن میں مگن واپس چل دی.
سیڑھیوں سے اترتے ہوئے میں جیسے انہیں پھلانگ رہی تھی اور آزاد محسوس کر رہی تھی. وہاں لڑکے نہ تھے لیکن لڑکیوں سے ہال بھرا پڑا تھا. کوئی پیپر کی فکر میں ہلکان ہو رہی تھی. کوئی دعائیں کر رہی تھی. کسی کی ماں اپنی بیٹی کو جوس پلا کے تسلی دے رہی تھی اور کئی باپ بیٹیوں کو چھوڑنے آئے تھے.
میں اپنی ہی لگن میں مست چلتی پھرتی رہی اور جب بارش نے زور پکڑا تو ایک دُھن بھی گنگنانے لگی . کئی آتی جاتی لڑکیوں کی تعریف کی “آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں آپ پہ یہ کلر سوٹ کرتا ہے” ایک  سے پوچھا “آپ اتنی نروس کیوں ہیں پیپر ہی ہے فرشتے نے پیپر کا تو نہیں پوچھنا نا ریلیکس ہو جائیں”. لیکن وہ تو جیسے پیپر کو سر پہ سوار کیے بیٹھی تھی اکھڑ کے بولی آپ سے مطلب میں ہنسوں یا روؤں؟ میں بھی مسکرا دی اور دھن گنگناتی ٹہلنے لگی.
تب مجھے اندازہ ہوا کہ خوشگوار ماحول میں کُھل کے آزادی سے سانس لینا بھی ایک نعمت ہے. جولائی کا مینہ تھا گرمی خوب تھی لیکن بارش  نے شدت سے برس کر دل خوش کر دیا تھا. کافی پینے کا موڈ ہو رہا تھا لیکن سوچا کہ صبر کر لیا جائے۔  کچھ دیر بعد چیکنگ ہوئی اور میں اندر چلی گئی. سیٹ پہ بیٹھی تو ساتھ ایک شادی شدہ خاتون نے پیپر بتانے کی ریکوسٹ کی. میں نے کہا مجھے بلائیے گا نہیں میرا پیپر جیسے مرضی دیکھ لیجئیے گا ورنہ میرا دھیان بٹ جائے گا اور لکھا نہیں جائے گا.
تین گھنٹے کی ریس تھی کسی کو شیٹ بھرنے کے لالے پڑے تھے اور کسی کو پوچھنے کی پڑی تھی. کئی لڑکیوں کی آوازیں آنے لگی تو اٹینڈنٹ جیسے ایک دم ہوش میں آ گئی، ورنہ تو چائے اور سموسوں کا دور دورہ چل رہا تھا. باہر سے بارش کی آوازیں آ رہی تھیں اور لڑکیوں کے ہاتھ دھڑا دھڑ صفحے بھرنے کیلئے چل رہے تھے. پیپر ختم ہوا تو  گردن اوپر کی، پانی پیا اور سارا پیپر دیکھ کے مارجن لائینز وغیرہ لگائیں اور پکڑا دیا. باہر کے منظر کا نظارہ لینے کے بعد پھر وہی عبایا پہنا اور گھر کی طرف چل دی. باہر کئی لڑکیوں کے والدین لینے آئے تھے دیکھ کے دل میں ٹیس سی اٹھی مگر اگنور کر دیا.
سگنل پہ بس کا انتظار کرتے ایک خواجہ سرا نے ڈھیر ساری دعائیں دیں تو اسے پیسے دیے اور گاڑی میں بیٹھے لڑکے سے کومنٹ وصول کیا. آتے جاتے بسم اللہ, سبحان اللہ سننے کی عادت تو اس ملک کی ہر لڑکی کو ہو ہی جاتی ہے اور گھٹیا کومپلیمنٹ اگنور کرنا بھی وقت سکھا ہی دیتا ہے.
اماں کہتی ہیں کہ بحث کرو تو تیزاب ڈالنے کے درپے ہو جاتے ہیں اور انکار کرو تو مار دیتے ہیں. اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے  اس لیے خاموشی سے گزر جایا کرو۔ ایک دو دفعہ میں نے اس قول سے بغاوت کی کوشش اور جواب دیا لیکن اثر ندارد. اس لیے خاموشی کا فارمولا اپنایا.
یہاں ابھی تک عورت کو انسان ہونے کا درجہ نہیں ملا، وہ صرف عورت ہی ہے اس لیے آزادی کم کم نصیب ہوتی ہے۔ تو بس اسی گھٹن زدہ ماحول میں خود کو بچاتی گھر کی دہلیز پہ پہنچی اور اماں نے مجھے دیکھ کے شکر کا کلمہ ادا کیا۔
ویسے کیا ماں کو مطمئن نہیں رہنا چاہئیے تھا کیوں کہ میں تو ان کے کہنے کے مطابق عبایا پہن کر باہر گئی تھی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).