نیوٹن، سیب اور کشش ثقل کی مثلث


10 اکتوبر کو یاسر پیرزادہ نے کیمبرج کی روداد پر مشتمل اپنے کالم میں لکھا کہ
” جب ہم ٹرینٹی کالج کے دروازے پر پہنچے تو ہم نے اس درخت کے بارے میں پوچھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نیوٹن اس درخت کے نیچے بیٹھا تھا جب اس کے سر پر سیب گرا اور پھر اسے کشش ثقل کاخیال آیا ہمیں بتایا گیا کہ یہ درخت دراصل کالج سے باہر ایک چھوٹے سے باغ میں ہے یہ باغ کالج کے مرکزی دروازے اور اس کے ساتھ متصل گرجے کے درمیان ہے کالج کی پہلی منزل پر نیوٹن کاکمرا ہوتا تھا اور ایک طرح سے یہ باغ نیوٹن کا ہی سمجھا جاتا تھا مگر یہ درخت اس کے گھر سے اکھاڑ کر 1954 میں ٹرینٹی کالج میں لگایا گیا ”

یہ عجیب اتفاق ہے کہ معمول کا ایک واقعہ جو انسان کی پیدایش کے دن سے لے کرآج تک روزانہ دنیا میں کروڑوں دفعہ پیش آتا رہتاہو اس واقعے کی سبب کے جانب کوئی ایک خاص شخص متوجہ ہوجاے کہ یہ واقعہ ہمیشہ ہی ایسا کیوں ہوتاہے اور اس کے برعکس کیونکر نہیں ہوتا۔ اور اس سے زیادہ حیرت انگیز اتفاق یہ ہوگا کہ وہی شخص جس کے ذہن میں پہلی مرتبہ یہ سوال اٹھا اسی نے ہی اس سوال کا ایسا کافی وشافی سائنسی حل بھی پیش کردیا جس نے دنیا کی علمی تاریخ کا نقشہ ہی بدل دیا۔

نیوٹن کے سر کے اوپر درخت سے سیب کے گرنے، ان کے ذہن میں سوال پیداہونے اور پھر کشش ثقل کا دریافت ایسا ہی حیرت انگیز اتفاقیہ واقعہ ہے اور اس پر مستزاد حیرت خیز واقعہ یہ ہے کہ انسانیت اس واقعے کو نسل درنسل آگے منتقل کررہی ہے۔

یاسر پیرزادہ کے کالم اور ہمارے نصابی کتب میں جس واقعے کو دہرایا جا رہا ہے یہ درصل علم کی دنیا میں بھی ہیرو ورشپ پر یقین رکھنے کی انسانی مزاج کاشاخسانہ ہے حالآنکہ علم کا مزاج اس سے بالکل الٹ ہے اس میدان میں انسانیت کاقافلہ بڑے سبک خرامی اور آہستگی کے ساتھ رینگتا ہوا آگے کے جانب سرک رہا ہے۔ یہاں کی ہرکامیابی سینکڑوں ناکامیوں کی اولاد ہوتی ہے اور اس غزل کی ہر بند کسی الگ شاعر کی سینہ سوزی کا نتیجہ ہوتاہے علم کی کسی بھی شعبے میں کسی بھی علمی نظریے، قانون اور اصول کو ایک ہی جست میں فتح کرلینا کوئی معجزاتی کرشمہ تو ہوسکتا ہے علمی انداز فکر نہیں۔ فرانسس بیکن نے مفکرین کی روشن نظری کے راستے میں رکاوٹ بننے والے چار بتوں کا ذکر کیا ہے۔ ذات برادری کی محدودیت کی بت، ذاتی تعصبات وتعلقات کی بت، بازار کی نمایش کی بت اور پہلے سے وضع شدہ فلسفیانہ اور منطقی اصول ومبادی کے رعب کا بت۔ علم کی تاریخ میں کون ایسا مفکر اور عالم ہوگا جس نے کبھی نہ کبھی ان چار بتوں میں سے کسی نہ کسی کے آگے عبادت نہیں کی ہوگی۔

البتہ تاریخ کے باب میں یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جب ایک بڑا آدمی مناسب وقت پر پیدا ہوجاتاہے تو تاریخ بن جاتی ہے۔ اس لحاظ سے جہان علم کئی حوالوں سے نیوٹن کی منت بار رہے گا اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ علم کے میدان میں نیوٹن کی سیادت کا بمشکل کوئی ہمسر تاریخ سے برآمد کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود سیب اور کشش ثقل کی کہانی یاپھر اس کہانی سے ہٹ کر بھی کشش ثقل کی قانون کی دریافت کا سہرا تنہا نیوٹن کے سر محض تکلف سے ہی باندھا جاسکتا ہے۔

جس سال اسحاق نیوٹن کی پیدایش ہوئی تھی اس سے ٹھیک ایک سال چار دن پہلے اٹلی کے قصبہ پیسا میں گلیلیو گلیلی کا انتقال ہوا تھا، یہ گلیلی باقاعدہ چھت کے اوپر سے مختلف اوزان کی چیزیں گراکر زمین پر ان کی گرنے کی سپیڈ کے تجربات کر رہا تھا جن کے تحت انہوں نے دریافت کیا تھا کہ بڑے اور چھوٹے وزن کی چیزیں یکساں رفتار سے اوپر سے نیچے کے جانب حرکت کرتی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جب گلیلی یہ تجربات کررہے تھے تو یہ سوال ان سے پہلے ہی کہیں نہ کہیں طے پاچکا تھا کہ سیب زمین پر گرنے کی بجاے آسمان کے جانب کیوں نہیں چھلانگ لگاتا۔ اس حوالے سے مزید رہنمائی گلیلیو کی کتاب سے ملتی ہے۔ ” Dialogue concerning the tow chief world systems ” گلیلیو کی ایسی کتاب ہے جسے افلاطون کی مکالمات کی طرز پر مرتب کیا گیا ہے۔ کتاب میں salviati کوپرنیکس نقطہ نظر سے گلیلیو کی آراء کا ترجمانی کرتاہے، Sagredo ایک عام دانشورہے اور ان مباحثوں کا تیسرا کردار Simplicio افلاطون اور بطلیموس کی روایتی موقف کی وکیل کاکردار آدا کرتا ہے۔ یہ کتاب جو 1632 یعنی نیوٹن کی پیدایش سے گیارہ سال پہلے لکھی گئی تھی اس کی صفحہ نمبر 210 پر سالویاتی اور سیمپلیکیو کادرج ذیل مکالمہ درج ہے

سالویانی : اگر وہ مجھ سے پوچھ لے کہ مریخ اور مشتری کی حرکت کا محرک کیا ہے تو میں ان سے سوال کروں گا کہ زمین کی حرکت کا محرک کیا ہے، صرف یہ نہیں، وہ تو مجھ سے کہتا ہے کہ کوئی چیز اس کاباعث بنتاہے کہ زمین کے اجزاء ایک دوسرے کے جانب محوحرکت ہوجاتے ہیں ( اگر وہ اس سے زیادہ بھی کچھ کہہ لیں ) تو میں بھی زمین کی حرکت کا علت بتادوں گا۔
سیمپلکیو : ان حرکات کی علت تو بہت واضح ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ یہ علت کشش ثقل ہے۔

نیوٹن سے پہلے ہی کیپلر یہ دریافت کرچکا تھا کہ سیارے بیضوی مدار میں سورج کے گرد حرکت کرتی ہیں اور کیپلر کے دریافت کردہ تین قوانین کیپلرلاز کے تحت نیٹ پر دستیاب ہے۔ نیوٹن نے اصل میں یہ کام کیا کہ کشش ثقل کی قانون کے ذریعے کیلکولیس اور احصائیہ کا تعین کرلیا۔

نیوٹن نے یہ واقعہ شاید صرف لوگوں کی تفہیم کے لیے سیب اور درخت کی تمثیلی قالب میں ڈھال کر بتایا ہو گا لیکن جب ہم سچ مچ سیب، کشش ثقل اور نیوٹن کی مثلث کو اس عظیم علمی اکتشاف کا محور بنادیتے ہیں تو گویا کہ ہم نے علمی گروانڈ کو پانی پت کا میدان سمجھ رکھا ہے جہاں سے صرف فاتح نکلتے ہیں یا مفتوح۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).