عمران خان نے پچاس لاکھ گھر بنانے کا اعلان کرکے کیا گناہ کر دیا؟


عمران خان اس ملک کے وزیر اعظم ہیں، ان کو حق حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی اسکیم شروع کر سکتے ہیں۔ پھر بھلا ان کی طرف سے پچاس لاکھ گھر بنانے کے اعلان پر ہر طرف آگ کیوں لگ گئی ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان، محمد خان جونیجو کے پانچ نکاتی پروگرام اور نواز شریف کی پیلی ٹیکسی اسکیم کے بعد اگر کسی عوامی فاعدے کی اسکیم کا اعلان ہوا ہے تو یہ عمران خان کی نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم ہے۔ اس اسکیم میں عوام کو چونا لگتا ہے یا ان کو گھر ملتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر کم از کم وزیر اعظم نے عام آدمی کے لئے گھر کا سپنا تو دیکھا ہے۔

اب یہ ناممکن ہے، چیلنج ہے، کیسے ہوگا، ہوگا بھی کہ نہیں ہوگا، پچاس لاکھ گھروں کا ٹارگٹ پورا ہوگا یا اس سے آدھے گھر بنیں گیں، یہ سب اب عمران خان اور ان کی ٹیم کا درد سر ہے، ان پر چھوڑدینا چاہیے، شوکت خانم کینسر ہاسپیٹل اور میانوالی میں ای کلاس یونیورسٹی بھی ناممکن پراجیکٹ اور چیلنج تھے جو عمران خان نے پورے کر دکھائے، وہ چھوٹے پراجیکٹ تھے، مگر عمران خان بھی تو وزیر اعظم نہیں تھے ناں، اب چیلنج بڑا ہے، مگر عمران خان وزیر اعظم پاکستان ہیں۔

اپنا گھر ہونا کتنا اہم ہوتا ہے یہ بات کوئی ان سے پوچھے جن کے پاس گھر نہیں ہیں یا ان غریب لوگوں سے پوچھے جو ساری عمر کرائے کے گھر میں گزارتے ہیں۔ عمران خان کے گھر بنانے کے اعلان کو ابھی 24 گھنٹے ہی نہیں گزرے کہ مجھ سے کم از کم درجن بھر افراد نے پوچھا ہے کہ فارم کہاں سے ملیں گے؟ کہاں جانا ہوگا؟

ان 24 گھنٹوں میں گھروں کے لئے فارم حاصل کرنے والوں کی تگ و دو ایک طرف ہے تو دوسری جانب میڈیائی سول انجینیئراینکر بلا اسٹاپ بولے جا رہے کہ یہ ناممکن اسکیم ہے، وہ تو پورا کا پورا حساب کتاب بھی دے رہے ہیں۔ حالانکہ مجھ جیسے آدمی کو بھی سمجھ میں آگیا ہےکہ، پورے پاکستان میں، پانچ سالوں میں، گھر بک کرانے والوں کے پیسے سے، آسان اقساط میں، مناسب قیمت پر، حکومت کی طرف سے دی گئی سرکاری زمین پر، دو کمروں، اور تین کمروں والے گھر لاکھوں کی تعداد میں بنانا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔

میں نے سکھر، حیدر آباد، کراچی میں ایسی کئی کالونیاں دیکھیں ہیں جن میں ہزار ہزار گھر ہیں، زمین بھی خریدار کی، گھر کی تعمیر بھی خریدار کی، بلڈر مافیاؤں کے نخرے بھی پھر بھی ایک سال میں میں نے کئی پراجییکٹس میں ہزاروں گھر صرف ایک سال میں بنتے دیکھے ہیں، سندھ کے شہر سکھر میں تو ایسے ایک پراجییکٹ کے لئے پورے ضلع کی اینٹیں کم پڑ تے دیکھیں۔ عمران خان کی یہ بات بھی درست ہے کہ 40 انڈسٹریز براہ راست گھر منصوبے سے منسلک ہوں گی۔ یہ اسکیم غریب اور تنخواہ دار طبقے کے لیے ہے۔

دنیا میں کافی زبردست کام ہوئے ہیں، دبئی کو 1990 میں دیکھیں اور دبئی کو 2010 میں دیکھیں، بیس سال میں دبئی کیا سے کیا ہو گیا، بات یہ نہیں کہ پچاس لاکھ گھر بنانا ناممکن ہے، بات یہ ہے کہ کرپشن سے گھرے ہوئے ملک میں، جہاں پٹواری سے لے کر کلرک اور، اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر سیکریٹری سطح تک سب اس گنگا سے اشنان کیے ہوئے ہیں اس ملک میں یہ ٹارگٹ کیونکر اور کیسے حاصل ہو سکتا ہے، یہ ہی اصل چیلنج ہے، گھر بنانا چیلنج نہیں، نہ ہی ڈیم کی طرح اس کے لئے پیسا جمع کرنا ہے، جس کا گھر ہوگا اس کا پیسا ہوگا۔ اسی کے پیسے سے گھر بنے گا، حکومت اس کو گھر بنانے میں یقین دلائے گی، مدد کرے گی، سستے گھر بنواکر دیگی۔

میرے خیال میں وزیراعظم نے بھی یہ ہی کہا ہے کہ گھر منصوبے میں حکومت کا کام رکاوٹیں دور کرنا ہوگا اور ترقیاتی کام پرائیوٹ سیکٹر کرے گا اور اس منصوبے میں غیرسرکاری تنظیموں کو بھی شامل کریں گے جس میں ”اخوت“ بھی شامل ہے جس نے بے گھروں کو اپنا گھر دینے میں زبردست کام کیا ہے۔ پاکستان میں گھر بنانے کی اسکیم اس لیے ناکام ہوتی آئی ہے کہ پہلے گھر بنائے جاتے ہیں اور پھر لوگوں کو ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن ہم پہلے 60 روز میں رجسٹریشن کے عمل سے گزریں گے اور طلب کے مطابق گھر تعمیر کریں گے۔

عمران خان نے یہ بھی کہا ہےکہ اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر ماڈل تیار کر رہے ہیں، نیشنل ریگولیشن ریگولیٹی 60 روز میں بنائیں گے جس کا کام رکاوٹیں دور کرنا ہوگا، کنسٹرکشن انڈسٹری کے راستے سے رکاوٹیں بھی دور کی جائیں گی۔ لوگ سرمایہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، اس کے لیے ہماری لا مسٹری کام کر ہی ہے اور اس کا ڈرافٹ بھی 60 روز میں سامنے آجائے گا ابتدائی طور پر پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز 7 اضلاع میں ہوگا، جن میں فیصل آباد، سکھر، کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، اسلام آباد، گلگت اور مظفر آباد شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).