جنسی ہراسانی کی چیخ


اگر میں ایک شخص کو تھپڑ ماروں اور دوسرے کو گولی، تو کیا آپ دونوں حملوں کو جان لیوا کہیں گے؟

یقیناً نہیں!

2014 میں میری ایک معمولی سی سرجری ہوئی تھی، جس کے باعث مجھے پھیپھڑوں میں تکلیف تھی۔ ایک رات، تقریباً 3 بجے میں نے درد کی شکایت کی اور غصّے میں شفٹ پر ڈاکٹر کو بلوایا جو اس وقت ایک شیعہ ہزارہ کی جان بچانے میں مصروف تھی۔ میری چیخ پکار سے اس کو آنا پڑا۔ پہلی بات جو اس ڈاکٹر نے کہی وہ یہ تھی ”کلثوم تمہارا درد تکلیف دہ ہوگا لیکن جان نہیں لے گا۔ تمھارے اس ہنگامے سے اس آدمی کی جان بچانے کہ لئے ایک ڈاکٹر ضرور کم ہو رہا ہے۔ “

اس رات مجھے احساس ہوا کہ، میری چیخ میں اس شخص کی چیخ کوئی نہیں سن پائے گا، جو چیخ بھی نہیں سکتا۔
کچھ ایسا ہی موجودہ دور میں ”جنسی ہراسانی“ کو لے کر ہو رہا ہے۔

می ٹو تحریک نے دنیا بھر کی عورتوں کو نہ ہی تو صرف آواز دی ہے بلکہ دنیا کو ساتھ ہی ساتھ باور کرایا ہے کہ کیا امیر، کیا غریب، کیا عام، کیا خاص، کیا جاہل، کیا دانا، سب ہی میں صلاحیت ہے عورت کو زیر کرنے کی!

یہ وہ دور ہے جب پاکستان میں ایک طرف تصوّف اور روحانیت کا بول بالا ہے تو دوسری طرف ملک کے مختلف حصّوں سے نوزائدہ بچیوں کی لاشیں مل رہی ہیں۔

معاملہ جب عورت کی برابری اور حقوق کا آتا ہے تو ہمارا پہلا مقصد ہوتا ہے پدرانہ نظام کے زیر اثر متاثرین کو انصاف دلوانا، ان کی آواز کو اونچا کرنا، خوف کی سرحد پار کروانا۔ بدقسمتی سے، ان تمام مرحلوں کے بیچ اکثر آوازیں دب جاتی ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی ابھی سرگوشی ہی کی تھی۔

اگر کسی مرد یا عورت نے آپ کو ہراساں کیا ہے تو اس کو ہراساں ہونا ہی کہیں گے، لیکن اگر آپ کسی غیر آرام دہ گفتگو کا حصّہ بن رہے ہیں تو وہ ابھی تک جنسی ہراسانی کی تعریف میں نہیں آیا۔ ہراساں ہونا مذاق نہیں ہے، اور نہ ہی اس کو اتنا آسان لیا جائے۔

اس تحریک پر بہت سارے سوال بھی اٹھتے ہیں جن میں پہلا سوال ہوتا ہے ”ثبوت کیا ہے؟“۔ ایسے لوگوں کہ لئے دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہے:
1) جنسی ہراسانی کہتے کسے ہیں؟
2) خوف کس بلا کا نام ہے؟

ہم پہلے سوال کے جواب کی طرف بڑھتے ہیں:
اقوام متحدہ کے مطابق، کوئی بھی ایسا ناپسندیدہ جسمانی یا زبانی فعل جو آپ سے آپ کی اجازت کے بغیر، زبردستی ہو۔

اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو، آواز کسنا، گندی آوازیں نکلنا، بلا اجازت چھونا، یہ سب ہمارے معاشرے میں روز مرہ کی ہراساں کرنے والی حرکات ہیں۔ اب ذرا آپ اپنے گُھٹنوں، میرا مطلب ہے چھوٹے سے دماغ پر زور لگایں اور بتایئں اگر راہ چلتے کوئی مجھے ”ماشاللہ“ یا ”آئٹم ” وغیرہ جیسے الفاظ سے پکارے تو میں اس کا گواہ یا ثبوت کہاں سے لاؤں گی؟ بھرے بازار میں کسی لڑکی کو کوئی بھی لالچی مرد اگر چھو لے تو وہاں کہاں سے ثبوت لائے گی؟ چلتی بس میں جو انگلیاں سیٹ میں سے راستے بنا لیتی ہیں، ان کا ثبوت کیسے اکھٹا کریں؟

دراصل کیا ہے نا، ہم عورتیں اپنے سر پر ڈرون کیمرے تو لے کر چلتی نہیں ہیں اس لئے ثبوت مانگنے کی بجائے اگر آپ صرف اپنی سوچ کی اڑان اونچی کرلیں تو مہربانی ہو گی۔

یہی وجہ ہے کہ، میشا شفیع کوئی ثبوت نہ پیش کرسکیں کیوںکہ وہ سوچ کر مردوں سے نہیں ملتی تھیں کہ اس نے مجھے ہراساں کیا تو میرے سر پر اڑتا ہوا ڈرون کیمرہ اس کی ویڈیو بنا لے گا۔

صرف میشا ہی نہیں، بلکہ ہر وہ عورت جو اپنی روز مرہ کی زندگی میں مردوں سے ملتی ہے، یہ نہیں سوچتی کہ آج یہ مجھ سے زبردستی کی کوشش کریگا۔ عروج ضیا کو خبر نہیں تھی کہ مبینہ طور پر فیصل ایدھی ان کا فائدہ اٹھانا چاہیں گے، یا وہ لڑکیاں جو مبینہ طور پر جنید اکرم کے خوف سے پبلک نہیں ہو پا رہیں۔ اگر ان میں سے کسی کو پتا ہوتا کہ ان کی تکلیف پر سوال اٹھیں گے، تو وہ یقیناً ساتھ میں کیمرے رپورٹر سب رکھتی تاکہ قوم کو بروقت اطلاع دی جا سکتی۔ بریکنگ نیوز بھی تو کوئی چیز ہے!

ملک کی لاکھوں عورتیں، اپنا آپ چادر میں اس لئے نہیں ڈھانپتی کہ حکم الہی ہے۔ ان کی چادر گندی نظروں، ہاتھوں، اور فقرے بازیوں سے باریک محافظ ہے!

اگر صرف ہاتھ لگانا، آواز کسنا اتنی ذہنی تکلیف پہنچا سکتا ہے، تو سوچیں اس سے آگے کی ہراسانی کتنی تکلیف دہ ہوگی۔ عورت جب بازار سے گھر آتی ہے تو وہ یہ نہیں بتاتی کہ اگلی گلی کے مزدور نے اس کو آدھی تعمیر شدہ عمارت میں آنے کی دعوت دی تھی۔ وہ اپنا راستہ بدل لیتی ہے بس۔ وجہ؟

وجہ آپ ہیں۔ آپ کی سوچ اور سوال ہیں جو اس عورت کو اسی کی نظر میں مجرم بنا دیں گے۔

اگلا مرحلہ، معاملے کی سمجھ اور بوجھ کا ہے۔
خود کو خوف سے آزاد کرانا ایک اندرونی جنگ ہے۔

یاد رہے، جنگ کے شروع ہونے کا وقت تو ہوتا ہے لیکن ختم کب ہوگی، معلوم نہیں۔ جب ہوتی ہے تب متاثرین باہر آ کر خود پر گزرا وقت بتاتے ہیں۔
جن بھوت، اندھیرے، پانی، پہاڑ، اور کئی سارے خوف ہیں جو نظر آتے ہیں لیکن جگ ہنسائی کا خوف نظر نہیں آتا۔ یہی وہ خوف ہے جو ان متاثرین کو اپنے خول میں بند رکھتا ہے۔
تحریک کو تحریک ہی رکھا جائے تو ٹھیک ہے، مذاق نہ بنائیں تاکہ قاضی شہر کو انصاف دینے میں آسانی ہو۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).